تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     22-09-2020

دُہری شہریت ……(2)

سنجیدہ استدلال کی باری آگے چل کر آئے گی‘ شروعات ایک مختصر سے واقعہ (جو لطیفہ بھی ہے) کے بیان سے کی جائے گی‘ کہ ایک جرنیل کو اپنے فوجیوں کی مہارت میں اتنی دلچسپی نہ تھی جتنی اُن کی وردی میں تھی ۔ ایک بار یوں ہوا کہ جرنیل صاحب میدانِ جنگ میں گئے تاکہ سپاہیوں کا حوصلہ بڑھا سکیں۔ خندقوں کا معائنہ کیا تو وہاں زخمی سپاہیوں کے ساتھ ہلاک شدگان کو بھی دیکھا۔ ایک متوفی کی قمیص کے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔ دست بدست جنگ میں قمیص کی خیر خیریت کی کسے فکر ہوتی ہے؟ ان جرنیل صاحب نے اپنا سارا معائنہ ہلاک شدگان اور زخمی ہو جانے والوں کی قمیصوں پر مرکوز کر دیا اور دیکھا کہ کس کس کی قمیص کے بٹن صحیح سلامت ہیں اور کس کے ٹوٹے ہوئے ہیں؟ جرنیل نے واپسی پر رپورٹ لکھی تو یہ سفارش کی کہ جس جس کی قمیص کے بٹن ٹوٹے ہوئے پائے گئے اُس کے پس ماندگان کو نہ پینشن ملے اور نہ انعام کیونکہ انہوں نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹوٹے ہوئے بٹنوں والی قمیص کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ د ہری شہریت بھی اتنی ہی غیر اہم اور بے معنی شے ہے جتنا کہ لڑتے ہوئے سپاہی کی قمیص کے ٹوٹے ہوئے بٹن۔ اہم چیز یہ ہے کہ سپاہی نے لڑائی میں بہادری کے کون سے جوہر دکھائے؟ اہلِ وطن کا فرض ہے کہ وہ ہر سرکاری افسر اور وزیراعظم کے ہر مشیر پر کڑی نظر رکھیں کہ کیا وہ اپنے فرائضِ منصبی فرض شناسی اور دیانتداری سے ادا کر رہے ہیں ؟ اگر آپ اس ضروری کام سے تو چشم پوشی کر لیں اور صرف دہری شہریت رکھنے والوں کی جیبیں ٹٹولتے رہیں کہ اُن کی جیب میں کس کس ملک کے اور کس کس رنگ کے پاسپورٹ ہیں تو یہ آپ کی کم نگاہی ہوگی۔اس کالم کے قارئین میں سے جو لوگ اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ برطانیہ میں رہنے والے جناب حمزہ علوی (مرحوم) اور امریکہ میں پڑھنے اور پڑھانے والے ڈاکٹر اقبال احمد اور ڈاکٹر فیروز احمد (مرحومین) کے علمی کارناموں سے واقف ہوں گے۔ کالم نگار کا ان تینوں سے کئی سالوں پر پھیلا ہوا ذاتی تعارف تھا۔ اُن سے جب بھی ملاقات ہوئی موضوع گفتگو ہمیشہ پاکستان کے معاشی ‘ سیاسی اور سماجی مسائل اور اُن کا حل رہا۔ ن م راشد کی طرح جن کی زندگی کا بیشتر حصہ امریکہ میں گزرا۔ ساقی فاروقی اور عبداللہ حسین بھی برطانوی شہری تھے (پاکستانی شہری ہونے کے علاوہ)۔ ان تینوں کا اُردو ادب میں جو بلند مقام ہے وہ محتاج ِتعارف نہیں۔ عبداللہ حسین کی عمر کا آخری حصہ لاہور میں گزرا اور وہ پاک سر زمین میں ابدی نیند سو رہے ہیں (یہی ان کی دلی خواہش تھی)۔
کالم نگار کا موقف بڑا سیدھا سادا ہے اور وہ یہ کہ اگر ایک طرف وہ دہری شہریت رکھنے والا پاکستانی ہے (جو برطانیہ یا کینیڈا میں آباد ہے) جس کا دل ہر وقت مادرِ وطن کیلئے دھڑکتا ہے اور وہ اُس مبارک دن کے خواب دیکھتا دیکھتا جہانِ فانی سے کوچ کر جاتا ہے جب وہ پردیس سے اپنے دیس کی واپسی کا سفر کر کے اُس مٹی میں جا ملے گا جہاں سے اُس کا ہزاروں سالوں سے پرانا رشتہ ہے۔ دوسری طرف اکہری شہریت رکھنے والا وہ پاکستانی ہے جسے وطن اور اہل وطن کی رتی بھر فکر نہیں‘ وہ ہر وقت ترکِ وطن کے خواب دیکھتا رہتا ہے مگر ویزا نہ مل سکنے کی وجہ سے با امرِ مجبوری اپنے وطن میں رہتا ہے ۔ باالفاظِ دیگر ایک شخص برطانیہ سے پاکستان واپس چلے جانے کو اپنی سب سے بڑی خواہش بنا کر زندگی گزارتا ہے اور دوسراپاکستان سے برطا نیہ یا امریکہ نقل مکانی کر جانے کو اپنی سب سے بڑی منزلِ مقصود سمجھ کر ساری زندگی گزار دیتا ہے‘ تو آپ دیانتداری سے فیصلہ کریں کہ آپ کی نظر میں ان میں سے کون حب الوطنی کے کڑے معیار پر پورا اُترے گا؟
پاکستان کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالئے گا ملک غلام محمد‘ صدر ایوب خان‘ چیف جسٹس محمد منیر‘ یحییٰ خان‘صدر ضیا الحق اور پرویز مشرف سے لے کر گزشتہ 30 سالوں میں ہمارے تمام صدور‘ تمام وزرائے اعظم‘بڑے سرکاری افسران‘ بڑے صنعت کار‘بڑے تاجر اکہری شہریت کے مالک تھے اور ہیں۔ وہ صرف پاکستانی شہری ہیں‘ مگر ان سب کی اکہری شہریت تو 20/22 کروڑ لوگوں کے کسی کام نہ آئی۔ منطق کی رُو سے نہ اکہری شہریت کوئی قابلِ ذکر خوبی ہے اور نہ دہری شہریت قابلِ ذکر خامی۔ ان 73 سالوں سے ہمارے حکمرانوں کی کارکردگی (جو کرپشن اور نالائقی کا مہلک امتزاج تھی) کا تجزیہ کریں تو کیا دیکھتے ہیں؟بقول اقبال 
سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے
ہمارا تجزیہ سطحی ہوگا تو ہماری نظر شہریت کے دُہرے پن پر ٹھہر جائے گی۔ عالمی شہرت کے سائنس دان اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر سلام صاحب نے ساری عمر برطانیہ میں گزار دی۔ دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹی (Imperial College ) میں پڑھایا۔ وہ برطانیہ آئے تو پاکستانی پاسپورٹ پر اور جب دنیا سے گئے تو بھی اُن کے پاس وہی سبز رنگ کا پاسپورٹ تھا۔ (جس پر اُنہیں بڑا فخر تھا) وہ چاہتے تو اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی کو ایک لمحہ کیلئے ہلا کر برسوں قبل برطانوی (یعنی دہری) شہریت حاصل کر سکتے تھے۔ وہ ایسا کرتے تو ملکہ برطانیہ اُنہیں Sir کا خطاب (Knight Hood) بھی دیتیں۔ ڈاکٹر سلام نے نظریاتی طبیعیات کے تحقیقی ادارے کے قیام کیلئے سب سے پہلے صدرضیا الحق سے رجوع کیا۔ ہر ممکن کوشش کی مگر ناکامی ہوئی (وجوہات کے بارے میں وثوق سے کچھ بیان نہیں کیا جاسکتا) آخر مجبور ہو کر اس ادارہ کو اٹلی کی ایک درس گاہ کے تعاون سے اطالوی سرزمین پر معرض وجود میں لائے۔ فتنۂ ارتداد کی وجہ سے ہم نے ڈاکٹر سلام کی اکہری شہریت اور حب الوطنی کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور نہ کبھی اُن کیلئے کلمۂ خیر کہا۔ سعودی عرب کے بادشاہ نے انہیں کھانے پر بلایا تو احتراماًآنکھیں بچھا دیں۔ ڈنر ختم ہوا اور وہ جانے لگے تو بادشاہ نے کہا کہ ہم سب کو آپ پر فخرہے۔ ڈاکٹر سلام نے جواب دیا (جو اُنہوں نے مجھے خود بتایا) کہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میرے عقیدہ کے باوجود میری اتنی عزت افزائی کی۔
وہ ممالک جو اپنے شہریوں کو دہری شہریت (اور دو پاسپورٹ رکھنے) کی اجازت دیتے ہیں۔ اُن کی کل تعداد (برطانیہ) کے علاوہ آٹھ ہے۔ البانیہ‘ آسٹریلیا‘ جنوبی کوریا‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ برازیل‘ کینیڈا‘ مصر ‘آئس لینڈ اور پاکستان کا قانون اپنے شہریوں کو جن 19 ممالک کی دہری شہریت حاصل کرنے یا برقرار رکھنے کی اجازت دیتا ہے اُن کے نام ہیں: آسٹریلیا‘بلجیم‘ بحرین‘ کینیڈا‘ ڈنمارک‘مصر‘ فرانس‘ آئس لینڈ‘ آئرلینڈ‘ اٹلی‘ اُردن‘ ہالینڈ‘ نیوزی لینڈ‘ سویڈن‘ سوئٹزرلینڈ‘ شام‘ برطانیہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔ مصر میں دہری شہریت رکھنے والے پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے۔ آرمینیا میں دہری شہریت کے مالک انتخابات میں ووٹ بھی نہیں دے سکتے۔ (پاکستان میں یہ پابندی نہیں) اسرائیل میں دہری شہریت الیکشن انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمنٹ کے رُکن منتخب ہوسکتے ہیں مگر کامیابی کے چار ہفتوں کے اندر اور رکنیت کا حلف اُٹھانے سے پہلے دُہری شہریت سے دستبرداری ضروری ہے۔ جنوبی امریکہ کے ایک ملک کو لمبیا میں دہری شہریت رکھنے والے پارلیمان کے رکن تو بن سکتے ہیں مگر وزیر خارجہ یا وزیر دفاع نہیں بن سکتے۔ آسٹریلیا میں دہری شہریت رکھنے والوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی تو اجازت ہے مگر وہ دہری شہریت چھوڑے بغیر رکنیت کا حلف نہیں اُٹھا سکتے اور اگر اٹھالیں اور بعد ازاں پکڑے جائیں تو وہ رکنیت سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ 2017-18ء میں پندرہ اراکین پارلیمنٹ کو یہی صدمہ برداشت کرنا پڑا ‘حالانکہ اُن میں سے دو تہائی بالکل بے خبر تھے کہ اُنہیں وراثت میں کسی اور ملک کی شہریت بھی مل گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved