ننھا احمد مری سانگھڑ‘ صوبہ سندھ میں کھڑا تھا، اس کا علاقہ سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک مردہ مرغا تھا، وہ نہایت دکھ کے ساتھ مگر پُرجوش انداز میں حکمرانوں کو مخاطب کر رہا تھا اور اپنا دکھ اور علاقہ مکینوں کا کرب بیان کر رہا تھا۔ بچے کی ساری بات سندھی زبان میں تھی‘ میری پیدائش بھی چونکہ سندھ کی ہے سو تھوڑی بہت سندھی بول اور سمجھ لیتی ہوں۔ اس بچے کا دکھ دیکھا نہیں جا رہا تھا، وہ بتا رہا تھا کہ اس کا علاقہ گندے سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور گندا پانی پینے سے اس کا مرغا مر گیا ہے۔
''منجھا ککڑ مری ویو‘‘ یہ جملہ میرے دل پر لگا، مجھے بچے بہت پسند ہیں، میرا بس چلے تو ہر بچے کو گلے لگا کر اس کے آنسو پونچا کروں۔ چھوٹے بچوں کو اپنے پالتو جانوروں سے بہت پیار ہوتا ہے، ان کا کل اثاثہ یہ جانور اور ٹوٹے پھوٹے کھلونے ہی ہوتے ہیں۔ غریبی میں نہ اچھے کھلونے میسر ہوتے ہیں نہ ہی اچھے پارکس میں کھیلنا نصیب ہوتا ہے۔ یہ بچے بس اپنے مرغے‘ مرغیوں یا بکری کے ساتھ ہی کھیلتے ہیں جو ان کے گھر والوں کے بھی کام آتے ہیں اور ان کے کھیل کے ساتھی بھی ہوتے ہیں۔ سیلابی ریلا آیا تو احمد کا علاقہ، اس کا گھر ڈوب گیا اور پانی پینے سے اس کا مرغا بھی مر گیا۔
ننھے احمد نے بلاول کو پکارا،شاید اسے یہ نہیں پتا کہ سندھ کے کرتا دھرتا تو اسلام آباد میں جمہوریت بچانے میں مصروف ہیں۔ مہنگا ہوٹل، ٹھنڈا اے سی والا ہال ، خوبصورت مہنگے سفید پھولوں کی سجاوٹ، شرکا کے آگے مہنگی کراکری اور منرل واٹر کی بوتلیں، جبکہ ووٹر سیلابی پانی کا سامنا کر رہے ہیں، گندا پانی ان کے گھروں کو تباہ کر گیا اور سامان ساتھ بہا لے گیا۔ احمد ہے تو چھوٹا لیکن اس کی سوچ میں پختگی ہے۔ اس کو احساس ہے کہ عوام کو کیا مسائل درپیش ہیں مگر محلات میں بیٹھے موروثی سیاست دانوں کو عوام کے مسائل کا ادارک نہیں۔ غریبوں کے گھر کیسے ہوتے ہیں‘ کسی نے جھگی بنا رکھی ہے تو کسی نے اینٹوں کی دیوار پر ٹین کی چھت رکھ کر سر چھپایا ہوا ہے۔ بارش، طوفان اور سیلاب لمحوں میں ان آشیانوں کو بہا لے جاتے ہیں۔ سیلابی پانی بیماریاں پھیلاتا ہے اور انسان اور جانور مرنے لگتے ہیں۔ ننھا احمد مری خود آدھا پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور دکھ و غصے سے یہ بتا رہا تھا کہ سانگھڑ میں سیلابی پانی کیا کیا تباہ کاریاں مچا رہا ہے۔ اس نے کہا: ہمارا پرانا پاکستان ہمیں واپس کرو‘ ہمارے علاقے میں گندا پانی آ گیا، میرا مرغا یہ پانی پینے سے مرگیا، جب مویشوں نے یہ پانی پیا تو وہ بھی مرگئے، اب ہم جب یہ گندا پانی پئیں گے تو ہم بھی مر جائیں گے۔ احمد مری نے پھر بلاول بھٹو زرداری کو پکارا کہ آئیں، کچھ کریں، اس گندے پانی کو ہمارے علاقے سے نکالیں، ہمیں پینے کا صاف پانی دیں۔ ننھا احمد مری بولتا جا رہا تھا اور اس کی بغل میں مردہ مرغا جھول رہا تھا۔ اس نے پھر کہا: بلاول مدد کرو ہماری، یہ پانی نکالو، ہمیں پینے کا صاف پانی دو۔ اس کی وڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین تاسف کا اظہار کرنا شروع ہو گئے۔
اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل کے ٹھنڈے ہال‘ جہاں صاف پانی اور کھانے کی کمی نہیں، اپوزیشن کے لیڈران مہنگی گاڑیوں میں پہنچے، ان کے ساتھ پرٹووکول اور مسلح گارڈز۔ قیمتی لباس‘ لاکھوں روپے کی گھڑیوں، قیمتی جوتوں اور مہنگے بیگز کے ساتھ کانفرنس شروع ہوئی جس کا ایجنڈا پاکستانی جمہوریت کو بچانا تھا۔ مہنگے سمارٹ فونز سے ٹویٹس ہو رہے تھے، تقریب کو سوشل میڈیا پر لائیو نشر کیا جا رہا تھا۔ منرل واٹر پیتے ہوئے عوام کی قوتِ خرید پر بات ہو رہی تھی کہ عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ظہرانے میں انواع و اقسام کے کھانے تھے، مسکراہٹوں اور قہقہوں کے ساتھ قومی مسائل زیر بحث لائے جا رہے تھے۔ ننھے احمد مری کو کیا پتا کہ اس کی پکار پر اس کا لیڈر کیوں نہیں آیا۔ اب چھوٹے بچے کو کیا معلوم کہ جمہوریت بچانے کے لئے عوام کی خدمت نہیں‘ جلسے جلوس اور کانفرنسیں کی جاتی ہیں۔
سندھ کا ایک حکمران تھا راجہ داہر‘ وہ رعایا پر بہت ظلم کرتا تھا، ایک لڑکی کی فریاد اور دیگر قیدیوں کی دہائی پر محمد بن قاسم نے سندھ آکر عوام کو راجہ داہر کے مظالم سے نجات دی۔ اس وقت ان کی عمر صرف سترہ برس تھی، چار سال میں انہوں نے ملتان تک کے علاقے فتح کر لئے اور ہندوستان میں اسلام متعارف کروایا، ان کے دور میں عام عوام کو انصاف ملا۔ اس دور میں پیغام رسانی خطوط کے ذریعے ہوتے تھی اور خط پہنچنے میں کئی کئی ماہ بھی لگ جاتے تھے لیکن نہتی لڑکی کی فریاد اور قیدیوں کی پکار پر محمد بن قاسم سندھ آ گئے جبکہ سندھ کے موجودہ حکمران‘ جن کے پاس پورا میڈیا سیل موجود ہے‘ ان تک احمد مری کی آواز نہیں پہنچی۔ عوام سے زیادہ شاید سیاست ضروری ہے‘ ہر چیز پر سیاست۔ ڈیم بنانے کی بات شروع ہوئی تو لسانی و قوم پرست سیاست کے مردہ تن میں جان آ گئی اور کہا گیا کہ ڈیم بنے تو دریائے سندھ سوکھ جائے گا، انڈس ڈیلٹا تباہ ہو جائے گا۔ مجھے سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی گئیں لیکن میں نے پھر بھی کہا: ڈیم بنانا ناگزیر ہے‘ چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے‘ ڈیم بنائیں اور پانی کو پورے سال کے لئے ذخیرہ کریں۔ اب سندھ کے عوام سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں آ رہا کیونکہ ذمہ داران وفاقی دارالحکومت میں سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، ان تک احمد مری اور سیلاب میں ڈوبے عوام کی آواز نہیں پہنچ رہی۔
میں نے احمد مری کی وڈیو ٹویٹ کرنے والے سندھی صحافی سمیر مندھرو سے کہا کہ مجھے احمد کے گھر والوں کا نمبر چاہیے تا کہ ان کی کچھ مدد کی جا سکے، انہوں نے مجھے احمد کے والد رب نواز مری کا نمبر دے دیا۔ میرے کزن احمد مجید نے ہامی بھری کہ وہ سانگھڑ جاکر احمد کے گھر والوں کو تحائف دے آئیں گے، ابھی ہم یہ طے کر ہی رہے تھے کہ پاک آرمی کے جوان ننھے احمد کے پاس پہنچ گئے، ان کو ٹینٹ دیا، راشن دیا اور ایک مرغا بھی احمد کو تحفے میں مل گیا۔ اس کے ساتھ دیگر کئی افراد نے بھی احمد کے لئے مرغے اور تحائف بھیج دیے۔ میں نے جب یہ تصاویر اور وڈیوز دیکھیں تو زیر لب مسکرانے لگی کہ احمد ان تحائف پر کتنا خوش ہو گا۔ اس کی آواز اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں بیٹھے سندھ کے حکمرانوں، اپوزیشن لیڈروں اور ان کے عقب میں‘ وفاق کے حکمرانوں تک تو نہیں پہنچی لیکن چلو‘ پاک فوج اور نیک دل مخیر حضرات اس کی مدد کو آگے بڑھے۔
جمہوریت صرف کرپشن کے دفاع کا نام نہیں ہے‘ جمہوریت عوام کی خدمت کا نام ہے۔ حکمران اتنے امیر اور عوام اتنے غریب، حکمران منرل واٹر پئیں اور عوام سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے‘ گندا پانی پینے پر مجبور ہوں۔ ننھے احمد نے سندھ حکومت کی نااہلی کا پول سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے لیکن مجھے اب اس بچے اور اس کے خاندان کی فکر ہو رہی ہے۔ 16 فروری کو محراب پور کے قریب نہر سے صحافی عزیز میمن کی لاش ملی تھی، ان کا تعلق نوشہرو فیروز سے تھا اور ان کو گلا دبا کر مارا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی موت سے پہلے اس خدشے کا کھلم کھلا اظہار کیا تھا کہ ان کی جان کو کس سے خطرہ ہے۔ ان کا قصور صرف سچ بولنا اور حقیقی رپورٹنگ کرنا تھا۔ اب مجھے احمد اور اس کے والد رب نواز کے لئے بھی فکر ہے‘ کہیں کسی کو اس کا آواز اٹھانا بھی ناگوار نہ گزرے ۔ یہاں سچ بولنا آسان نہیں، بس اللہ تعالیٰ اس سچے اور بہادر بچے کو محفوظ رکھے، آمین!