تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     23-09-2020

گھبراہٹ فطری جب تیر ہدف پہ بیٹھے

وزرا کی ایک پوری کھیپ نوازشریف کی آل پارٹیز کانفرنس میں تقریر کو اُدھیڑنے بیٹھ جائے تو گھبراہٹ واضح نظر آتی ہے۔ اور جب اس تقریر کو پاکستان مخالف ایجنڈے سے ملا دیا جائے تو پریشانی اور واضح ہو جاتی ہے۔
یہ آل پارٹیز کانفرنس والی مشق بے معنی ہوتی اگر نوازشریف کی یہ تقریر نہ ہوتی۔ اس میں کوئی روایتی جملے بازی نہ تھی بلکہ یہ ایک جامع اور مدلل چارج شیٹ تھی‘ اور یہ چارج شیٹ تھی اُن عوامل کے خلاف جنہوں نے اُن کی سمجھ کے مطابق پاکستان جمہوریت اور پاکستان کو اپنے مسلسل مداخلت سے نقصان پہنچایا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کا انہوں نے حوالہ دیاکہ ایک موقع پہ انہوں نے کہا تھاکہ ریاست میں ایک ریاست بن چکی ہے لیکن نواز شریف کے بقول اب صورتحال ایسی ہے کہ یہ ریاست ماورائے ریاست ہوچکی ہے۔ ایسی باتیں ایسے موقع پر شاذ ہی کسی بڑے پاکستانی لیڈر نے کی ہوں۔ نتیجتاً کئی دلوں میں یہ پچھتاوا ضرور اُٹھ رہا ہوگا کہ نوازشریف کو باہر کیوں جانے دیا۔
نوازشریف کی بات کھٹکتی یوں ہے کہ ایسے لوگوں کی کمی نہ ہوگی جو ان کی بات کو حقیقت کے قریب سمجھتے ہوں گے۔ جس خیال کا اظہار نوازشریف نے کیا‘ وہ پاکستانی ذہنوں میں خاصا عام ہے لیکن اس انداز میں شاید ہی کسی بڑے لیڈر نے اسے زبان دی ہو۔ صورتحال مختلف ہوتی اگر ملک کے موجودہ حالات میں ایک فعال اور مؤثر حکومت ہوتی۔ عام تاثر البتہ یہی ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے اور جو توقعات وزیر اعظم عمران خان سے کی جارہی تھیں اُن پہ وہ پورا نہیں اُتر سکے۔ فعال حکومت ہوتی تو نوازشریف کی جامع تنقید کا جواب دینا اتنا مشکل نہ ہوتا‘ لیکن ملک کی مجموعی صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ نوازشریف کا ہر جملہ اورہر بات بہت سے دھڑکتے دلوں کو لگی ہوگی۔
یہی پریشانی کی وجہ ہے کیونکہ جن عوامل یا اداروں پہ بھرپور تنقید کی گئی ہے وہ ایسی تنقید سے کبھی خوش نہیں ہوتے۔ حکمرانی پہ جس انداز میں بھی اثر انداز ہوں وہ اپنے آپ کو سیاسی تنقید سے اوپر یا ماورا سمجھتے ہیں۔ چونکہ حکمرانی پہ اثر انداز ہوتے ہوئے بھی وہ پچھلے قدموں پہ رہتے ہیں اور سامنے سیاسی حکومت ہوتی ہے؛ چنانچہ وہ خود تو ایسی تنقید کا براہ راست جواب نہیں دے سکتے۔ توقع یہی ہوتی ہے کہ اول تو ایسی بوچھاڑ آئے گی نہیں اور اگر آئے بھی تو سیاسی والے اس کا مؤثر جواب دے سکیں گے‘ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت سے ایسے مؤثر جواب کا سوچنا بھی محال ہے۔
نوازشریف کی تنقید کا اثر دیرپا ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ اندیشہ بھی کئی ذہنوں میں اُٹھ سکتا ہے کہ اب سے لیکر اگلے انتخابات تک، جب بھی اُن کا انعقاد ہو، نوازشریف کی لائن قومی سیاسی گفتگو کی بنیادی لائن بن جائے گی۔ دیگر موضوع ایک طرف رہ جائیں گے اورقومی بحث کا محور یہی ریاست کے اندر ریاست یا ریاست سے ماورا ریاست والا نکتہ ہو گا۔ عمران خان کی مصیبت یہ ہے کہ جتنا وہ اداروں کا دفاع کریں اتنا اُن کے بارے میں تاثر پختہ ہوگا کہ وہ اپنے ماسٹر نہیں بلکہ کسی اور ماسٹر کی آواز ہیں۔ ہوں یا نہ ہوں‘ وہ الگ بات ہے لیکن تاثر اپنے جگہ قائم رہتے ہیں۔
اقتدار سے معزولی کے بعد نوازشریف کی سیاست ایک بند گلی میں آگئی تھی۔ اے پی سی کے اس موقع سے جس انداز میں انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے اس سے انہیں ایک نئی راہ میسر آگئی ہے۔ پاکستان میں تھے تو کبھی دھاڑیں مارتے بھی تو پھر چپ سادھنا پڑتی کیونکہ نیب کے مقدمات تھے اور احتساب عدالت کی سزا۔ لندن جاکے اُن کیلئے سیاسی راہیں کھل گئی ہیں۔ جو لائن انہوں نے اختیار کی‘ وہ ایک بھرپور وار یا frontal assault ہے‘ اور اُن کا کچھ نہیں جاتا کیونکہ وہ لندن کی آزاد ہوا میں ہیں۔ انہوں نے کچھ کرنا بھی نہیں، بس وقفے وقفے سے ایک آدھ بیان داغ دینا ہے اور حکومت اُس کا جواب دینے میں لگ جائے گی۔ اب یقین سے کہاجا سکتاہے کہ آئندہ الیکشن تک اُن کا سیاسی ہیڈ کوارٹر لندن ہی رہے گا۔ وہاں سے گولہ باری کریں گے اورموجودہ حکومت سے زیادہ اُن عناصر کی پریشانی بڑھتی جائے گی جو اُن کے تجزیے کا اصل نشانہ ہیں۔ حکومت اور اداروں کیلئے صورتحال موزوں نہ ہوگی لیکن نوازشریف کیلئے نہایت موزوں ہے۔
نوازشریف کی سیاسی زندگی کا آغاز جنرل ضیاالحق کی چھتری تلے ضرور ہوا لیکن وہ عوامی لیڈر تب بنے جب ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی۔ 1990ء میں وزیراعظم بنے لیکن صحیح معنوں میں عوامی لیڈر نہ تھے۔ اس شکل میں وہ تب نمودار ہوئے جب بطور وزیراعظم اچانک صدر غلام اسحاق خان کے خلاف 'میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ والی تقریر کی۔ وہ لمحہ تھا جب اُن کی سیاسی حیثیت تبدیل ہوگئی۔ انہیں اداروں کا کٹھ پتلی سمجھا جاتا تھا لیکن اس تقریر کے بعد وہ ایک عوامی لیڈر کے روپ میں سامنے آئے۔ اُن کی جماعت کی ہیئت بھی تبدیل ہوگئی۔ مسلم لیگ نواز کو بھی ایک عوامی جماعت سمجھا جانے لگا۔
اُن کا دوسرا ٹکراؤ جنرل پرویزمشرف سے تھا۔ اس کی تفصیلات سے سب آگاہ ہیں۔ بطور وزیراعظم اُن کا دوسرا دور (1997-1999ء) اتنا درخشاں نہ تھا‘ لیکن اقتدار سے محرومی نے انہیں ایک نئی سیاسی جان بخش دی۔ پاکستان میں پابندِ سلاسل رہتے تو تڑپتے رہتے‘ لیکن شریف خاندان نے مدبرانہ فیصلہ کیاکہ بیکار کی شہادت سے‘ جس قیمت پہ بھی آزادی ملے بہتر ہے۔ جو ضمانتیں مشرف حکومت نے مانگیں شریف خاندان نے دیں۔ مقصد تھا کسی طریقے سے پنچھی پنجرے سے نکلے۔ سعودی عرب پہنچے تو متعدد پابندیاں تھیں۔ سفر پہ پابندی تھی۔ بولنے پہ بھی کسی حد تک پابندی تھی‘ لیکن مختلف ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے پہلے شہباز شریف سعودی عرب سے فرار ہوئے اورپھر نوازشریف بھی لندن پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہاں وہ زیادہ کھل کے بولنے لگے۔ 2007ء میں پاکستان آنے کی کوشش کی اور ناکام ہوئے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ سے ہی انہیں واپس کردیا گیا‘ لیکن نوازشریف کی خوش قسمتی ملاحظہ ہوکہ جب بینظیر بھٹو پاکستان لوٹیں تو اُن کا (نوازشریف کا) راستہ بھی کھل گیا۔ وکلا کی تحریک سے اقتدار پہ جنرل مشرف کی گرفت کمزور ہوچکی تھی‘ جب فوجی کمان چھوڑنا پڑی اور 2008ء کے انتخابات ہوئے تو اُن کی پوزیشن مزید کمزور ہوگئی اور جب وفاق میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی اور پنجاب میں شہباز شریف وزیراعلیٰ بن گئے تو ہواؤں کا رخ یکسر بدل گیا۔ شریف فیملی کے خلاف تمام مقدمات بتدریج ختم ہوتے گئے‘ ماضی میں دی گئی تمام ضمانتیں بیکار ثابت ہوئیں۔
موجودہ ٹکراؤ جس کا واضح آغاز اے پی سی کی تقریر سے ہوا نوازشریف کی سیاسی زندگی کا تیسرا ٹکراؤ ہے۔ جوں جوں اس ٹکراؤ کی بازگشت زور پکڑے گی کرپشن کے الزامات مدہم پڑتے جائیں گے۔ عوام کی نظریں ماضی کی تلخیوں اور الزام تراشیوں سے ہٹ کر عمران خان حکومت کی کارکردگی کی طرف جائیں گی‘ اورغور اس بات پہ ہوگا کہ نوازشریف کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ گزرے ادوار میں نون لیگ کی یہ بہت کامیاب حکمت عملی رہی کہ اُس نے عوام کو باور کرایا کہ میاں کی حکومت کو کبھی پورا ہونے نہیں دیاگیا۔ انہیں اقتدار پورا کرنے دیاجاتا تو پتا نہیں کون سے معجزات رونما ہو جاتے۔ اب کی بار لائن قدرے مختلف ہے کہ متوازی حکومت (اشارہ واضح ہوناچاہیے) یا ریاست سے ماورا ریاست جمہوری حکومتوں کو کام ہی نہیں کرنے دیتی۔
عمران خان طیب اردوان یا مہاتیر محمد ہوتے تو اور بات تھی۔ نوازشریف کے قومی اورسیاسی تجزیوں کو پھر کس نے سننا تھا‘ لیکن موجودہ بندوبست کا المیہ یہی ہے کہ عمران خان بس عمران خان ہی ہیں۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ نوازشریف کے تین سیاسی جنم تو ہو چکے۔ کیا موجودہ نالائقی چوتھے جنم کی راہ ہموار تو نہیں کررہی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved