تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-09-2020

قانون ضرور بنائیں مگر…

کہا جاتا ہے کہ توپ خود نہیں لڑتی بلکہ اس کے پیچھے بیٹھا ہوا توپچی لڑتا ہے، اسی طرح مجھے کہنے دیجئے کہ آپ جو بھی قانون بنا لیں‘ ان قوانین کو جس طرح چاہیں سخت کر لیں‘ ان قوانین میں جتنی چاہیں عبرت ناک سزائیں تجویز کر دیں لیکن کرپشن، بد دیانتی، مذہب سے دوری اور خدائی احکامات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دینے والے اس مادیت پرست معاشرے کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان قوانین کا نفاذ ان سے کرایا جائے گا جو ہر نئے قانون اور حکم کے ساتھ اپنے نذرانے کا نرخ بڑھا لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان قوانین کے تحت سزائیں دلوانے کے لئے‘ اس کی زد میں آنے والے مقدمات کی تفتیش کس سے کرائی جائے گی؟ ان مقدمات کا فیصلہ کہاں ہوا کرے گا؟ یہ زمینی حقیقت اگر تسلیم کر لی جائے تو اسی میں بہتری ہے کہ آج اگر تھانے بکتے ہیں تو ہمارا نظامِ انصاف بھی کسی طور قابلِ بھروسہ نہیں ہے۔ یہ کوئی راز کی بات ہے نہ کوئی انکشاف‘ بلکہ ہر تحصیل، ضلع اور شہر میں اندھے بھی دیکھ رہے، بہرے بھی سن رہے اور گونگے بھی بول رہے ہیں کہ نظامِ انصاف کی مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ اب تو ایسے ایسے گروہ اور گروپ بنے ہوئے ہیں جو باقاعدہ گارنٹی دیتے ہیں کہ مؤکل کو بری کرایا جائے گا، اور یہ کس طرح ملزم کو کیس سے بری کراتے ہیں‘ یہ سب کو معلوم ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ مقدمات کا تشخص کون کرے گا؟ باہمی رضامندی یا ٹریپ کر کے پھنسائے گئے مقدمات کی تفریق کس طرح ہو گی؟ ریپ کے لئے تیار کی گئی میڈیکل رپورٹس کی صداقت کس طرح جانچی جائے گی؟ ان مقاصد کے لئے ڈاکٹرز اور مخصوص لیبارٹریز میں رشوت اور دھونس کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا؟ اپنے ذاتی اور سیا سی مخالفین کو رگڑا دینے کے لئے جعلی میڈیکل رپورٹس تیار کرانا تو اب بعض طبقات کی باقاعدہ پیشہ بن چکا ہے۔
میں آپ کو ذاتی علم کی بنا پر ایک پولیس سٹیشن لئے چلتا ہوں‘ جس کے جونیئر افسران نے کچھ مخصوص عورتوں کو اپنا آلہ کار بنا کر کمائی اور لوٹ مار کا ذریعہ اس طرح بنا رکھا تھا کہ ان کے پے رول پر کام کرنے والی لڑکی سب سے پہلے کسی نوجوان سے راہ و رسم پیدا کرتی، موبائل فون پر پیغامات کا یہ سلسلہ کچھ دنوں تک جاری رہتا۔ پھر اسے کسی جگہ پر تنہائی میں بلایا جاتا۔ اس کے بعد وہ لڑکی مذکورہ پولیس سٹیشن جا کر اپنے ساتھیوں کو اطلاع کرتی، جس پر اس مرد کو تھانے بلا کر اس کا معائنہ کرانے کا کہہ کر اسے ایک پرائیوٹ گاڑی میں ڈال کر ڈسٹرکٹ ہسپتال یا اپنے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا۔ پھر ڈاکٹری معائنے اور ڈی این اے ٹیسٹ کے نام پر اس شخص کو دھمکیاں دی جاتیں جس پر اس کے اوسان خطا ہو جاتے۔ معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے وہ ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگنا شروع کر دیتا، لوہا گرم دیکھ کر اسے یہ بھی کہہ دیا جاتا کہ میڈیا کو بھی خبر ہو جائے گی جو تمہاری وڈیوز پورے ملک کو دکھائیں گے۔ خاندان میں بدنامی کے ساتھ یہ خبر میڈیا کو دینے کی دھمکیاں ملنے کے بعد وہ شخص اپنی عزت بچانے اور ریپ کے الزام میں پولیس کی تفتیش، جیل کی سختیوں اور پھر عدالتوں کے دھکے اور وکیلوں کی فیسوں سے گھبرا کر چار پانچ لاکھ تو کسی کیس میں دس پندرہ لاکھ روپے دے کر اپنی جان چھڑاتا۔ اس بلیک میلنگ سے ملنے والے پیسے سے اس لڑکی‘ نام نہاد ڈاکٹر اور اہلکاروں‘ سب کو حصہ ملتا۔ اندازہ کیجئے‘ ایک ماہ میں اس علاقے میں تین چار افراد لازمی بلیک میل کیے جاتے یوں صرف ایک ماہ میں ایک مکروہ دھندے سے بیس‘ پچیس لاکھ روپے سے زائد کی رقم ہتھیا لی جاتی۔
گجر پورہ کے شرمناک اور اذیت ناک واقعے کے بعد پورا ملک یک زبان ہو کر بول اٹھا کہ ایسے درندہ صفت اور بھیڑیے نما انسانوں کو اس دھرتی پر زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں اور سوشل میڈیا سمیت ہر گھر سے یہی مطالبہ کیا جانے لگا کہ ریپ کے مرتکب ملزمان کو سرعام پھانسی دی جائے یا انہیں زندگی بھر کے لئے اس طرح معذور کر دیا جائے کہ جب وہ جیل سے قید کاٹ کر نکلیں تو باقی عمر کے لئے دوبارہ ایسا جرم کرنے کے قابل ہی نہ رہیں۔ 16 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا کہ وہ خواتین اور بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو عبرت ناک مثال بنانے کے لئے قانون سازی کی جانب بڑھ رہے ہیں تاکہ آئندہ کسی کو موٹروے جیسا قبیح فعل کرنے کی ہمت اور جرأت نہ ہو سکے۔
بے شک اس وقت ملک میں قانون کی حکمرانی کی سب سے اشد ضرورت ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس قانون پر عمل در آمد کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ سب کو علم ہے کہ یہ نظام بوسیدہ ہو چلا ہے اور پولیس و متعلقہ ادارے اس حوالے سے خود سب سے زیادہ متنازع ہیں۔ اس بات کی گواہی کے لئے ایک چھوٹی سی جھلک تو پیش کر چکا، یہ صرف ایک پولیس سٹیشن کی کارگزاری ہے، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ باقی معاشرے کا کیا حال ہو گا۔ پھر یہ امر بھی واضح ہے کہ مذکورہ کرپٹ اہلکاروں کا کبھی ایک تھانے تو کبھی دوسرے تھانے ٹرانسفر ہوتا رہا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہر نئے تھانے میں جا کر یہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی عیش و عشرت اور نئی نئی گاڑیوں کی بکنگ کا ذریعہ بننے والے اس مکروہ دھندے کو جاری نہ رکھیں۔
لاہور میں بعض شاہراہیں اس حوالے سے خاصی بدنام ہیں جہاں مخصوص خواتین اور خواجہ سرائوں کو نقاب پہنا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے‘ جو وہاں سے گزرنے والے افراد کو اشارے کرکے اپنے دام میں پھانستے ہیں‘ جیسے ہی وہ اپنے شکار کے ساتھ گاڑی یا موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہیں تو کوئی آدھے فرلانگ کے فاصلے پر پولیس یونیفارم میں ملبوس اہلکار‘ جو خدا جانے حقیقی پولیس والے ہوتے بھی ہیں یا نہیں‘ اچانک جھاڑیوں یا سروس روڈ سے نمودار ہوتے ہیں اور انہیں روک کر تھانے لے جانے اور میڈیا کا خوف دلا کر ان کی جیبوں میں موجود ایک ایک پائی نکلوا لیتے ہیں، اس کے بعد ہی ان لوگوں کو وہاں سے جانے کی اجازت ملتی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کینال روڈ اور ٹھوکر نیاز بیگ وغیرہ کے علاقوں میں یہ تماشا ہزاروں لوگ آئے روز دیکھتے ہیں۔ 
لاہور کے ہی ایک دوسرے تھانے کی حدود میں ایک گول چکر پر کسی لڑکے یا لڑکی کو کھڑا کردیا جاتا ہے جو آنے جانے والوں سے لفٹ مانگتے ہیں، جیسے ہی کوئی نوجوان اس لڑکے یا لڑکی کو از راہ ہمدردی لفٹ دیتا ہے تو چند فٹ کے فاصلے پر موجود پولیس والے انہیں روک کر قریب واقع خالی پارک میں لے جاتے ہیں کہ تم اس سے زبردستی کر رہے تھے، وہ لڑکے یا لڑکیاں‘ جنہوں نے لفٹ لی ہوتی ہے‘ پولیس والوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جس کے بعد اس نوجوان کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ چند تھپڑ جڑنے کے علاوہ چھترول کے خوفناک منظر دکھاتے ہوئے بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے، لڑکے کے باپ یا بھائی کو بلایا جاتا ہے اور پھر دس‘ بیس ہزار سے کم پر سودا نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی تو اس سے بھی زیادہ کمائی ہو جاتی ہے۔ 
یہ وہ چند واقعات ہیں جن کا مشاہدہ کم و بیش ہر شہری نے کیا ہو گا اور جو اس حوالے سے حقیقی چیلنج ہیں۔ یہ صرف لاہور کی نہیں‘ اسلام آباد، کراچی، فیصل آباد، ہر بڑے شہر کی یہی داستان ہے، ہاں طریقہ واردات کسی قدر مختلف ہو سکتا ہے لیکن سرکاری اختیارات اور وردی کا اسی طرح ناجائز استعمال کرتے ہوئے عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ اب اگر حکومت سخت ترین قوانین بنا کر ریپ کے ملزموں کو سزا دینے کا سوچ رہی ہے تو سوال یہ ہے کہ اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ ان قوانین کا نفاذ تو اسی پولیس، اسی نظام سے کرایا جائے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved