کسی بھی کام کے شروع کرنے سے قبل متعلقہ معاملات کے حوالے سے پوری تیاری لازم ہے۔ تیاری میں کوئی بڑی اور نمایاں کمی رہ جائے تو بنا بنایا کھیل بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ ہر شعبہ‘ ہر معاملہ اِسی اُصول کے تابع ہے۔ تیاری کے بغیر کوئی کام شروع کرنے کا نتیجہ بسا اوقات تماشے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ تماشا ہمیں تھوڑی سی توجہ سے دکھائی دے جاتا ہے۔ ہمارے ماحول میں ایسے تماشوں کی کمی نہیں۔ متعلقہ تیاری کے بارے میں سنجیدہ ہوئے بغیر گھر سے نکل پڑنے کا رجحان اب تک عام ہے۔ اس رجحان نے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی زندگی برباد کی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس غلطی کا اعادہ کرتے رہنا اب قومی مزاج بن گیا ہے۔
کسی بھی معاشرے اور ریاست کے لیے سب سے بڑا اثاثہ ہے اُس کی افرادی قوت۔ اور افرادی قوت میں بھی سب سے نمایاں ہوتی ہے نئی نسل۔ نئی نسل کی بہتر تعلیم و تربیت ہی ریاست کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہوا کرتی ہے۔ نئی نسل کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ دینے والے معاشرے ہی کچھ کر پاتے ہیں، دوسروں سے نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔نئی نسل کو دوسری بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے لیے تیار کرنا بھی لازم ہے۔ تیاری کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں رسمی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ فکری و اخلاقی تربیت بھی شامل ہے۔ نئی نسل میں جذبات بھی ہوتے ہیں اور توانائی بھی۔ ہاں! دانش کم ہوتی ہے اور اُس سے بھی کم ہوتا ہے صبر۔ کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی کے لیے تحمل لازم ہے۔ جس میں معاملات کو برداشت کرنے بلکہ جھیلنے کی صفت نہیں وہ کچھ زیادہ نہیں کر پاتا۔ نئی نسل درست فیصلے بھی آسانی سے نہیں کر پاتی۔ اُس کے بیشتر فیصلے‘ اگر تربیت نہ کی گئی ہو‘ عجلت پسندی کا مظہر ہوتے ہیں۔ وہ سب کچھ بہت تیزی سے کرنا چاہتی ہے۔ قدرت کے مگر اپنے اصول ہیں۔ ان اصولوں کو نظر انداز کیا جائے تو کھیل بگڑ جاتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ عجلت پسندی اکثر و بیشتر کھیل کو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کردیتی ہے۔زندگی کا بھی یہی قصہ ہے۔ ہمیں جتنی سانسیں دی گئی ہیں وہ محض سانسیں نہیں‘ کچھ کر دکھانے کی مہلت کا درجہ رکھتی ہیں۔ کچھ بننے اور کچھ کرنے کے لیے متعلقہ تیاری بھی ناگزیر ہے۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرسکتے جو لوگوں کو تادیر یاد رہے اور ہماری نیک نامی کا وسیلہ بنے۔ ہر معاشرے میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو کسی بھی شعبے میں نام کمانے کی ٹھان لینے کے بعد پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو قدم قدم پر الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نئی نسل ہماری غیر معمولی توجہ چاہتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس پر متوجہ ہوئے بغیر ہم قوم کو کسی بلند مقام پر نہیں دیکھ سکتے۔ نئی نسل میں غیر معمولی صلاحیت ہی نہیں، توانائی اور کام کرنے کی لگن بھی پائی جاتی ہے۔ ہاں! جذبات کو قابو میں رکھنے سے متعلق اخلاقی و روحانی تربیت نہ دی جائے تو یہ سرمایہ ضایع ہو جاتا ہے۔ عمومی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ نوجوان بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں پاتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں اُس کے ابتدائی لوازم پر متوجہ نہیں ہوتے۔ ہر شعبہ اُن کے لیے ہوتا ہے جو متعلقہ تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ و اخلاقی تربیت کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ نئی نسل کو بہت سے معاملات میں بہت کچھ سکھانا پڑتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں نوآموز اپنے طور پر زیادہ تیزی سے بڑھ نہیں سکتے۔ جہاں دیدہ افراد کی نگرانی اور اُن کی طرف سے ملنے والی تحریک کی بدولت وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
پاکستان جیسے معاشروں کا ایک بنیادی المیہ یہ بھی ہے کہ نئی نسل کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کی ضرورت بہت کم محسوس کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی یہی کھیل جاری ہے کہ بچہ جوان ہوتا ہے تو کسی بھی شعبے میں قدم رکھ دیتا ہے اور اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس مرحلے پر اُسے تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ و اخلاقی تربیت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے، سمندر میں کودنے سے قبل تیرنا سیکھنا لازم ہے۔ جنہیں تیرنا نہیں آتا وہ عموماً ڈوب ہی جاتے ہیں۔ اگر کوئی خوش قسمت ہو تو بچانے والے پہنچ جاتے ہیں، ایسا مگر کم ہی ہوتا ہے۔ سمندر تو دور کی بات ہے، اگر تیرنا نہ آتا ہو تو انسان چھوٹے سے تالاب میں بھی ڈوب جاتا ہے۔ عملی زندگی تالاب نہیں‘ سمندر ہے۔ اس سمندر میں کودنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ گہرائی کا سامنا تو ہوگا ہی، ساتھ ساتھ خونخوار سمندری مخلوق سے بھی بچنا پڑے گا۔ کسی بھی قسم کی معقول تیاری کے بغیر نئی نسل کو عملی زندگی کے سمندر میں اتارنے کا مطلب ہے اسے ناکامی کی طرف دھکیلنا۔آج کی دنیا مقابلے کی ہے۔ ویسے تو خیر ہر دور ہی میں انسان کو مسابقت کا سامنا رہا ہے مگر آج کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ دنیا کی آبادی بہت بڑھ چکی ہے۔ ہر معاشرے میں مسابقت کا گراف خطرناک حد تک بلند ہوچکا ہے۔ عمومی نوعیت کی زندگی بسر کرنا بھی کچھ آسان نہیں رہا۔ ایک دور تھا کہ بڑے شہروں میں لوگ کسی نہ کسی طور جی لیتے تھے۔ اب سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنے کی لاگت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر عمومی نوعیت کی زندگی بسر کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ ایسے میں نئی نسل ہماری زیادہ توجہ چاہتی ہے۔ اسے بتانا پڑے گا کہ قدم قدم پر مسابقت کا سامنا رہے گا اس لیے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آنا لازم ہے۔ ہر شعبہ تعلیم و تربیت کا اعلیٰ ترین معیار چاہتا ہے۔
نئی نسل کو عملی زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے کا مطلب ہے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم و تربیت یقینی بنانا۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب معقولیت کو زندگی کا بنیادی شعار بنایا جائے۔ معاملات جب عقل کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں تب حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے اور ہم بہترین طرزِ فکر و عمل اختیار کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ نئی نسل بہت سے معاملات میں کچی ہوتی ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی ہے مگر کیسے کرے، یہ نہیں جانتی۔ جہاں دیدہ افراد اس کی راہ نمائی کرسکتے ہیں۔ نئی نسل میں پائی جانے والی جذباتیت اپنی اصل میں منفی حقیقت ہے مگر تھوڑی محنت اور توجہ سے یہ منفی حقیقت تعمیری انداز سے بروئے کار لائی جاسکتی ہے۔ ہر دور اپنے ساتھ بہت سے چیلنج لاتا ہے۔ نئی نسل کو ان چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی عصری چیلنج کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ نئی نسل بہت کچھ بہت تیزی سے سیکھ سکتی ہے مگر سکھانے والے بھی تو ہونے چاہئیں۔ عملی زندگی کا آغاز منصوبہ سازی کے بغیر نہیں کیا جانا چاہیے۔ کسی بھی نوجوان کو سوچے سمجھے بغیر کسی بھی شعبے کی طرف دھکیلا نہیں جاسکتا۔ ایسا کرنے سے کامیابی نہیں ملا کرتی۔ کوئی حُسنِ اتفاق سے موافق حالات پائے اور تھوڑی بہت کامیابی یقینی بنانے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اِسے بہرحال کُلیے کے طور پر اپنایا نہیں جاسکتا۔
زندگی ہم سے سنجیدگی بھی چاہتی ہے اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تیاری بھی۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نئی نسل کو موجودہ اور آنے والے زمانے کے لیے تیار کرنا ہمارا فرض ہے۔ والدین، اساتذہ، علمائے کرام، سیاسی قائدین اور اخلاقی مقررین کا فرض ہے کہ نئی نسل کی مشکلات کو سمجھیں اور اُس کی بھرپور مدد کریں۔ کسی بھی نوجوان کو عملی زندگی کے سمندر میں کودنے کی تحریک دینے سے قبل ہمیں اس کا تحفظ یقینی بنانے پر بھی متوجہ رہنا چاہیے۔ عملی زندگی کے تقاضے زمینی حقیقتوں کی طرح ہوتے ہیں جن کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے اور فرار کی کوئی راہ نہیں ہوتی۔ پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے ان کا مؤثر حل یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ ہم نئی نسل کو زیادہ توجہ کے ساتھ عملی زندگی کے لیے تیار کریں۔