میرے خیال میں اب آئین کے آرٹیکل 6 کی شروعات کر ہی دی جانی چاہیے تاکہ میاں نواز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں کی گئی تقریر پر عمل کرتے ہوئے ایسے تمام مجرموں کو سزا مل سکے جنہوں نے غیر ملکی طاقتوں سے ساز باز کرتے ہوئے اقتدار کی کنجیاں حاصل کیں۔ اس سلسلے میں آغاز ان پانچ معروف افراد کی گواہی سے کرتے ہیں جنہوں نے اپنے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں ٹی وی ٹاک شوز میں بتایا کہ انہیں مری (بھوربن) کے ایک ہوٹل میں کھانے پر بلایا گیا جہاں میاں نواز شریف نے اعتماد میں لیتے ہوئے انہیں کہا کہ چند ماہ بعد وہ اقتدار میں آ رہے ہیں، آپ کو اس لئے زحمت دی ہے کہ ہماری حکومت آنے کے بعد پہلے سال تک آپ نے ہم پر تنقید نہیں کرنی بلکہ بھرپور تعاون کرنا ہے۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ وہ ششدر رہ گئے کہ میاں نواز شریف کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ اس وقت تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی مدتِ حکومت کو نصف عرصہ ہوا تھا اور ابھی ٹرم پوری ہونے میں پورے ڈھائی سال باقی تھے۔ ان پانچ افراد کے اعتراف کی وڈیوز تقریباً ہر ٹی وی چینل کے آرکائیوز کے ساتھ ساتھ یوٹیوب پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔اس ظہرانے کے بعد ایک شام اچانک مرتضیٰ بھٹو کو کلفٹن‘ کراچی میں قتل کر دیا جاتا ہے اور الزام اس وقت کی وزیراعظم کے شوہر پر لگتا ہے۔ پھر 6 نومبر 1996ء کو رات گئے صدر فاروق لغاری بے نظیر بھٹو حکومت ختم کر دیتے ہیں (جس کے اسباب سے متعلق راقم دسمبر 1995ء میں ایک انگریزی جریدے میں اپنے آرٹیکل بعنوان "'If some waves can shut the Mehran Gate'' میں ذکر کر چکا ہے)
مذکورہ پانچوں افراد ابھی تک پوچھتے ہیں کہ میاں صاحب کو کیسے پتا چلا کہ پی پی پی کی حکومت ڈھائی سال پہلے ہی ختم کی جا رہی ہے اور مرتضیٰ بھٹو اچانک کیوں قتل ہوئے اور ان کے قتل کی کڑیاں اس طرح ملائی گئیں جس سے بے نظیر بھٹو کی سیاسی پوزیشن سندھ، سرحد (کے پی) اور پنجاب میں کمزور ہو گئی، ساتھ ہی مارجرین، شہد، مربوں اور ایئر کنڈیشنڈ اصطبلوں اور گھوڑوں کی فلمیں اور داستانیں سرکاری ٹی وی اور اخبارات میں اس قدر اچھالی گئیں کہ آصف علی زرداری اور بی بی کو ووٹ دینا تو کجا ان کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جانے لگا۔ اس طرح نگران حکومت کو ساتھ ملا کر سارا انتخابی ماحول اپنے حق میں استعمال کیا گیا۔
جس نکتے پر انتہائی باخبر لوگ بھی خاموش ہو جاتے ہیں‘ اسی کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کس نے ختم کرائی اور کیسے؟ یہ میری خوش قسمتی ہی ہے کہ راقم ان لوگوں میں شامل ہے‘ جنہیں میڈیا کے اُن پانچ لوگوں سے بھی پہلے علم ہو چکا تھا کہ بے نظیر حکومت عنقریب ختم ہونے والی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اگست 1996ء میں مسز رابن رافیل‘ اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ایشیا پاکستان پہنچتی ہیں۔ یہ وہی مسز رابن رافیل تھیں جن کے شوہر مسٹر آرنلڈ رافیل صدر ضیاء الحق کے طیارے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ میاں نواز شریف اپنی مری والی رہائش گاہ‘ جو کشمیر پوائنٹ پر واقع ہے، پر مسز رابن رافیل کے اعزاز میں ایک انتہائی شاندار ظہرانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ مسز رافیل اسلام آباد سے میاں نواز شریف کی رہائش گاہ مری پہنچ کرساڑھے چار گھنٹے ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ اس دوران کچھ عرصہ کے لئے ان کی ون ٹو ون ملاقات ہوتی ہے اس کے بعد مسز رافیل کو وہ مشاہد حسین کے ہمراہ بڑی گرم جوشی سے رخصت کرتے ہیں اور گاڑی تک چھوڑنے آتے ہیں۔ جیسے ہی مسز رابن رافیل کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے میاں نواز شریف اپنے بنگلے کے بیرونی دروازے اور آس پاس کھڑے اپنے ذاتی گارڈز کو ایک عجب اور جوشِ مسرت سے بھرے لہجے میں کہتے ہیں ''منڈیو! ہن تیاریاں پھڑ لئو، الرٹ ہو جائو‘‘۔ یہ جوش وہ سیٹلمنٹ بتا رہی تھی جو کچھ دیر پہلے مسز رافیل اور میاں نواز شریف کے درمیان طے پائی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی انٹیلی جنس تو اس سارے معاملے سے بے خبر رہی لیکن یہ خبر کسی نہ کسی طور باہر نکل ہی گئی۔ اور اس کا تذکرہ ایک انتہائی اہم شخصیت سے بھی کیا گیا، جس کی وہ آج بھی گواہی دے سکتے ہیں۔
اب آتے ہیں مئی 2013ء میں ہونے والے انتخابات کی طرف‘ جس کے نتیجے میں عمران خان کی کامیابی چھین کر اقتدار میاں نواز شریف کے سپرد کیا گیا۔ اس کے لیے بھی ایک خصوصی ٹریبونل تشکیل دیا جانا چاہئے کیونکہ مئی 2013ء میں ہونے والے انتخابات کے وقت آصف علی زرداری اس ملک کے سربراہِ مملکت تھے، نگران حکومت تھی اور اس کے پاس تمام خفیہ رپورٹس پہنچ رہی تھیں۔ ان انتخابات میں میاں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ نواز کو اچانک بھاری اکثریت مل جاتی ہے ۔ الیکشن کے نتائج آنے کے چند دن بعد صدر مملکت آصف علی زرداری لاہور بلاول ہائوس تشریف لاتے ہیں‘ جہاں میڈیا پرسنز، اخبارات کے ایڈیٹرز، سینئر اینکرز اور رپورٹرز کے ایک منتخب گروپ سے سیا سی گپ شپ کا ماحول سجایا جاتا ہے اور اسی گفتگو کے دوران اچانک ان کے چہرے پر ایک عجب قسم کی سختی دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ زور سے اپنا ہاتھ سامنے رکھی میز پر مارتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں: مئی2013ء کے انتخابات ریٹرننگ افسران کے انتخابات تھے جس میں انہوں نے ہی ووٹ ڈالے اور پھر فتح کا اعلان کر دیا۔ یہ گفتگو پاکستان کے ہر میڈیا ہائوس کے سپیشل آرکائیوز میں آج بھی موجود و محفوظ ہے جو بطور گواہ ہر جگہ استعمال ہو سکتی ہے۔ اس محفل میں لاہور کے دو درجن سے زائد میڈیا پرسنز موجود تھے۔ ان انکشاف پر ششدر ہو کر سب سوالات بھی کر رہے تھے، اس سلسلے میں اگر ''آف دی ریکارڈ‘‘ ہونے والے سوال و جواب منظر عام پر آتے ہیں تو بات ملکی سرحدوں کے باہر تک چلی جائے گی۔
مسز رابن رافیل کا بی بی حکومت کے خاتمے اور میاں نواز شریف کو حکومت کی پیشکش( جس کا گواہ میڈیا کے پانچ اراکین کے علاوہ راقم بھی ہے) میاں نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کے اہم لیڈران کا اُن کا ساتھ دینا، اب یہ سارا معاملہ عوام کے سامنے آ چکا ہے۔ کیا آئین کے آرٹیکل 6 کے علاوہ ایک غیر ملکی سفارت کار کے ساتھ مل کر پاکستان کی منتخب حکومت کے خاتمے پر مقدمہ نہیں چلایا جانا چاہیے؟ مسز رابن رافیل سی آئی اے میں رہ چکی ہیں۔ وہ تیونس اور نئی دہلی میں امریکی سفارت کار، پھر بطور امریکن Lobbyist اور خاص طور پر پاکستان میں سیا سی جوڑ توڑ اور حکومتیں بنانے اور گرانے کے خصوصی مشنز کا حصہ رہی ہیں۔ مسز رابن را فیل اور امریکی صدر بل کلنٹن آکسفورڈ کے زمانے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے‘ اس لئے صدر کلنٹن نے 1993ء میں انہیں اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے سائوتھ اور سینٹرل ایشیا مقرر کر دیا۔ جون 1997ء میں مسز رافیل سائوتھ ایشیا سیکشن سے علیحدہ ہو گئیں اور پھر 2005ء میں اپنی سروس کے تیس برس مکمل ہونے پر ریٹائر ہو گئیں لیکن اس کے بعد بھی وہ خصوصی مشنز پر پاکستان بھیجی جاتی رہیں۔ 2009ء میں ایک مرتبہ پھر انہیں رچرڈ ہال بروک کے ساتھ سینئر ایڈوائزر برائے پاکستان افیئرز مقرر کیا گیا اور 2013ء کے انتخابات سے پہلے دو مرتبہ ان کی میاں نواز شریف سے تفصیلی ملاقاتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں‘ جن کے بعد انہیں تیسری مرتبہ اقتدار سونپا گیا، کیا یہ سب محض اتفاق تھا؟