تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-09-2020

امیون شدہ جسم

کئی دفعہ جب ایک سوال انسان کے ذہن میں اٹک جاتا ہے تو پھر قدرت کی طرف سے ایسا جواب ملتا ہے کہ ہر قسم کی کنفیوژن دماغ سے ختم ہو جاتی ہے۔ اگر اس کالم کو آپ نے غور سے پڑھا تو آپ بہت لطف اندوز ہوں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کا سب سے طاقتور شخص کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہرگز نہیں کہ جس شخص کے پاس بہت سی دولت ہو، مسلح ملازم ہوں۔ اس کا جواب ہے: تکلیف سے گزرا ہوا شخص۔ ایک لڑکا ہے، جو امیر ماں باپ کے ہاں پیدا ہوا۔ باپ اس کے بارے میں سوچتا ہے کہ یہ سختی کا عادی نہیں۔ اسے کوئی کاروبار نہیں آتا۔ اس کے پاس کوئی ہنر نہیں۔ اس کا ذہن لوگوں کی چالبازیاں سمجھنے کے قابل نہیں۔ آج تو میری وجہ سے اس کے پاس سب کچھ ہے، جب میں نہیں ہوں گا تو اس کا کیا بنے گا؟ لوگ تو اسے لوٹ کر کھا جائیں گے۔
ایک دوسرا لڑکا ہے، جس کا باپ بیمار ہے اور کام کے قابل نہیں۔ مجبوراً یہ لڑکا گھر سے نکلتا ہے اور ہر قسم کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ ٹھوکریں کھاتے کھاتے وہ سخت جان ہو جاتا ہے۔ پھر وہ چھوٹا موٹا ذاتی کاروبار شروع کرتا ہے اور چالیس پچاس ہزار کمانا شروع کر دیتا ہے۔ آپ یہ نہ دیکھیں کہ یہ رقم اس کی ضروریات کے مقابلے میں کم ہے۔ ان لوگوں کے لیے یہ اچھی خاصی آمدنی ہے۔ گو کہ پہلا لڑکا دنیا بھر کی آسائشوں سے لبریز زندگی گزار رہا ہے اور دوسرا صرف ضروریاتِ زندگی پوری کر رہا ہے لیکن ان دونوں میں سے کس کے ذہن میں مستقبل کا خوف زیادہ ہوگا؟ کس کا دماغ زیادہ پُرامن ہوگا؟ دوسرا لڑکا اس لیے زیادہ پُرسکون ہوگا کہ وہ تکلیف سے گزر چکا ہے۔ وہ سخت جان ہو چکا ہے۔ انسان خود کوشش کر کے سخت جان نہیں ہو سکتا۔ حالات اسے سخت جان بناتے ہیں اور حالات خدا کے ہاتھ میں ہیں، انسان کے ہاتھ میں نہیں۔
آپ کو کبھی زندگی میں کوئی ایسا شخص ضرور نظر آیا ہوگا جو معمولی مسئلے پر اس قدر غمگین ہوگا کہ موت کی باتیں کر رہا ہو گا۔ اس کے الفاظ ہوں گے ''مجھے موت کیوں نہیں آ جاتی‘‘۔ اس کے مقابلے میں آپ کو ایسے لوگ بھی نظر آئے ہوں گے جو خوفناک مصیبت میں سے خاموشی کے ساتھ گزر رہے ہوں گے۔ ایک حکایت شیخ سعدی سے منسوب کی جاتی ہے۔ وہ ایک کشتی میں بیٹھے تھے جو ہموار پانی میں آرام سے چلتی چلی جا رہی تھی۔ سب لوگ خاموشی سے سفر کر رہے تھے لیکن ایک شخص پانی کو دیکھ کر خوف سے چیخ رہا تھا۔ پانی کو دیکھ کر اس پہ ڈوب جانے کا خوف سوار تھا۔ لوگوں نے اسے خاموش کرانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن اس کی چیخیں بلند تر ہوتی چلی گئیں۔ آخر شیخ سعدی نے اس کا علاج تجویز کیا، کہا کہ اسے پکڑ کر پانی میں دو تین غوطے دو۔ اسے اٹھا کر پانی میں پھینکا گیا اور پھر چند لمحوں بعد دوبارہ کشتی میں بٹھا دیا گیا۔ اب وہ مکمل سکون اور خاموشی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اب اسے کشتی کی عافیت سمجھ آ گئی تھی۔ آپ نے ایسی مثالیں دیکھی ہوں گی کہ امتحان میں معمولی ناکامی پر طالبعلم نے خودکشی کر لی۔ پاکستان کرکٹ میچ ہار گیا تو کسی نے خودکشی کر لی۔ ادھر دوسری طرف ایک شخص کا اکلوتا بیٹا مر جاتا ہے اور اس کے حواس قائم رہتے ہیں۔ کیا آپ کو 2001ء سے 2015ء تک کے وہ خوفناک مہ و سال یاد ہیں، جب پاکستان میں ہر دوسرے دن کہیں نہ کہیں کوئی خودکش دھماکا ہوتا تھا۔ پاکستان ان حالات سے گزرا ہے کہ ساٹھ‘ ستر ہزار لوگ دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہو گئے، جن میں ہزاروں افسر اور جوان بھی شامل تھے۔ یاد نہیں پڑتا کہ کاروبارِ زندگی کبھی بند ہوا ہو۔ 2008ء میں جب میریٹ ہوٹل بارود سے اڑا دیا گیا تو دھماکا اس قدر خوفناک تھا کہ دور دور کی عمارات کے شیشے ٹوٹ گئے۔ اس کے باوجود بازار کھلے رہے، کاروبارِ زندگی جاری و ساری رہا۔ مجھے یاد ہے کہ انہی دنوں فرانس اور اٹلی میں دو تین دھماکے ہوئے‘ انہوں نے نئے سال کا جشن منسوخ کر دیا، شہر سنسان ہو گئے۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اگست 2014ء میں شمالی وزیرستان آپریشن شروع ہونے سے ایک ماہ پہلے وزیرستان میں نماز پڑھتے ہوئے فوجی جوانوں کے قریب بارود سے بھرا ہوا ٹرک اڑا دیا گیا۔ پندرہ سولہ جوان موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ فوج کے مورال پہ کوئی اثر نہ پڑا بلکہ جب آپریشن شروع ہوا تو انہوں نے دہشت گردوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی۔ مضحکہ خیز صورتحال امریکی، برطانوی اور مغربی فوجیوں کی افغانستان میں تھی کہ ان کے جوان اور افسر ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے باہر نکلنے پہ رضامند ہی نہ ہوتے۔ پچھلے اٹھارہ‘ انیس سال امریکہ اور یورپ کس خوف سے کانپ رہے ہیں؟ اس خوف سے کہ کہیں ہمارے ملک میں بھی بم پھٹنا شروع نہ ہو جائیں۔ بھوک اور بارود سے ہزاروں گنا زیادہ ہلاکتیں خوف سے ہوتی ہیں۔ بھوک اور دشمن کا خوف انسان کو مار ڈالتا ہے۔
میرا بھتیجا ایک دن سائیکل چلا رہا تھا اور ایک لڑکا اسے کہہ رہا تھا کہ تم سائیکل چلائو، میں ساتھ ساتھ بھاگتا ہوں۔ میں نے اس بچّے کو دیکھا۔ وہ حالات کی سختیوں میں سے گزرتا ہوا ایک لڑکا تھا، خدا کی طرف سے جسے سخت جان بنانا مقصود تھا۔ میں جو مرضی کر لیتا، اپنے بھتیجے کو سخت جان نہ بنا سکتا تھا۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ آسائش کی قیمت ہے سخت جانی۔
اکثر اوقات زندگی میں بھوک انسان کو نہیں مارتی بلکہ بھوک کا خوف۔ لوگ مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے بھوک کے خوف کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہو تے ہیں۔ جب آپ ان سے سوالات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کی زندگی میں انہیں کبھی ایک بھی فاقہ نہیں کرنا پڑا۔ ان سوالات سے آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اچھی خاصی جائیداد انہوں نے جوڑ رکھی ہے، وہ اس خوف سے کانپ رہے ہوتے ہیں کہ اگر آمدنی ختم ہو گئی تو پھر یہ جائیداد بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی اور پھر میں اور میرے بیوی بچّے بھوکے مر جائیں گے۔ اگلے دن پتا چلتاہے کہ وہ بندہ ہارٹ اٹیک سے مر گیا اور اس کی اولاد اس کی جائیداد بیچ کرعیاشی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط چیز شے کیا ہے؟ دنیا کی سب سے زیادہ مضبوط شے ہے، تکلیف سے گزرا ہوا دل۔ جنگ سے گزری ہوئی فوج۔ بیماری سے گزرا ہوا جسم۔کورونا کیوں پاکستان کا کچھ بگاڑ نہیں سکا؟ وجہ یہ ہے کہ لوگ panic کا شکار نہیں ہوئے۔ ایک بڑی تعداد میں تو لوگوں نے ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ کورونا exist بھی کرتا ہے۔ یہ خودکش دھماکوں سے گزری ہوئی قوم تھی۔ یہ وہ ملک ہے، جہاں لوگ مین ہول میں گر کے مر جاتے ہیں۔ انسانی جان کی یہاں کوئی اہمیت نہیں۔ لوگ اتائیوں کی دوائیاں کھا کے مر جاتے ہیں۔ دوسری طرف یورپ اور امریکہ والے، جن کے بچّے پیدا ہوتے ہی تمام بیماریوں کی سکریننگ سے گزارے جاتے ہیں، کورونا کی آمد پر شدید صدمے اور شاک کا شکار ہوئے اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کورونا دراصل ان لوگوں کے لیے خطرہ ہے، جن کی صحت پہلے سے ہی تباہ ہو چکی ہے۔ جبکہ 95 فیصد کے قریب لوگ خود ہی لوٹ پوٹ کے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ جب انسان panic کا شکار ہوتا ہے تو اس کا امیون سسٹم متاثر ہوتا ہے اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
ایک شخص جو بدحالی سے گزرا ہوا ہے، اسے آپ غربت سے کیا ڈرائیں گے؟ ایک فوج جو جنگ سے گزری ہوئی ہے، اسے آپ دشمن سے کیا ڈرائیں گے؟ ایک جسم جو بیماری سے گزر کر صحت یاب ہو چکا ہے، اسے آپ کورونا سے کیا ڈرائیں گے؟ امیون شدہ جسم کو بیماری کے جراثیم کچھ نہیں کہتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved