کبھی سوچتا ہوں یہ ہمارے پیارے حکمران2008 ء میں اگر اقتدار میں نہ آتے تو کچھ بھرم ان کابھی رہ جاتا اور ہمارے جیسے آئیڈیلسٹ کا بھی ۔
ماضی میں جو کچھ بھی سیاستدان کرتے رہے وہ پرویز مشرف کے دور میں ایک طرح سے صاف ہوگیا اور لوگوں کا خیال تھا کہ نئی شروعات ہورہی ہے۔ یہی تاثر دے کر ملک کے قابل اور ساکھ رکھنے والے صحافیوں کو ساتھ ملایا گیا‘ انہیں یقین دلایا گیا کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ماضی سے بہت سبق سیکھے ہیں اور اب وہ اچھے ڈیموکریٹ بن کر سیاست اور حکمرانی کریں گے۔ صحافی بے چارے خوش ہوگئے کہ وہ یہی چاہتے تھے کہ سیاستدان اچھی حکمرانی کریں۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے گئے۔ اس دستاویز کو ایک انقلابی قدم قرار دیا گیا کہ اب سیاستدان سبق سیکھ گئے ہیں ۔ اس دستاویز میں ایک کلاز بڑے مزے کی تھی کہ ماضی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہے ‘ ایک دوسرے کی حکومتیں گراتے رہے اور جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتیں کر کے اقتدار میں آتے رہے‘ مگر اب کی بار طے ہوا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر کے اقتدار میں نہیں آئیں گے۔ اس پر بڑی تالیاں بجیں کہ جناب پاکستان بدل گیا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ جب بینظیر بھٹو اس دستاویز پر دستخط کررہی تھیں تو وہ دبئی میں پرویز مشرف سے خفیہ ملاقات کرکے آرہی تھیں‘ جبکہ نواز شریف اور شہباز شریف اس وقت مشرف کے قریبی دوست بریگیڈئیر نیاز کے ذریعے اپنے لیے رعایتیں لینے میں مصروف تھے۔ بینظیر امریکہ کی کونڈولیزا رائس کی مدد سے جنرل مشرف کے ذریعے واپس آرہی تھیں تو شریفوں نے سعودیوں کو استعمال کیا اور دونوں کو اقتدار ملا۔ زرداری صاحب نے بینظیر بھٹو کی محنت کا پھل کھایا اور مرکز میں حکومت بنا لی جبکہ شریفوں کے ہاتھ پنجاب لگ گیا اور دونوں پارٹیوں کے لیڈروں نے وہیں سے کام شروع کیا جہاں وہ چھوڑ گئے تھے۔ اس دفعہ زیادہ جوش سے لوٹ مار کی گئی اور ہم نے دیکھا کہ دونوں نے ایک دوسرے کا کیا حشر کیا ۔ لندن چارٹر کا ڈرامہ جلد ہی ختم ہوگیا۔ مری میں ججوں کو بحال کرنے پر معاہدہ ہوا تھا‘ جسے زرداری صاحب نے توڑ دیا اور پھر زرداری نے شہباز شریف کی پنجاب میں حکومت معطل کر کے گورنر راج بھی لگا دیا۔ کہاں گیا چارٹر آف ڈیموکریسی؟ انہی دنوں یہ خبریں آنے لگیں کہ سابق آرمی چیف سے شہباز شریف اور چوہدری نثار خفیہ ملاقاتیں کررہے تھے۔ یہ تھا پہلا بڑا جھٹکا جو جمہوریت پسند قوتوں کو لگا ۔ ان لوگوں کے نزدیک کوئی وعدہ‘ زبان یا اعتبار نام کی چیز نہیں۔ انسان کیلئے اقتدار اور دولت اتنی اہم ہے کہ لوگ اپنا کردار بھی گنوا دیتے ہیں‘ حالانکہ تاریخ میں کتنے امیر لوگوں کے نام زندہ ہیں؟ آج بھی مثال دینی ہو تو کسی کردار والے آدمی ہی کی دی جاتی ہے۔ امریکی صدر کینیڈی نے جب امریکہ کی تاریخ میں سے دس کے قریب سیاست دانوں اور سینیٹرز کا انتخاب کرنا چاہا تو اس نے ان کا انتخاب کیا جنہوں نے بدترین حالات میں بھی کردار دکھایا تھا۔ اس نے کسی دولت مند کو اپنی اس اہم کتاب ''Profiles in Courage‘‘ کا موضوع نہیں بنایا۔
عمران خان کو بھی محسوس ہوا کہ خلائی مخلوق کی مدد کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکیں گے‘ لہٰذا انہوں نے بھی وہی روٹ لیا اور خفیہ ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ سب کو پتہ چل گیا کہ اقتدار لینا ہے تو آپ کو دربار میں حاضری دینا پڑے گی۔ سب دوڑے چلے گئے اور کسی ایک نے بھی ملنے سے انکار نہیں کیا ۔ مزے کی بات ہے کہ دوسری جانب سے بھی ان خفیہ ملاقاتوں سے انکار نہیں کیا گیا۔ میرے فیصل آباد سے دوست عظمت افروز خان شکایت کرتے ہیں کہ مقتدرہ کے ذمہ داران کیوں ان سے ملتے ہیں یا بلاتے ہیں ؟ میرا جواب تھا کہ اگر وہ بلاتے بھی ہیں تو یہ لوگ کیوں چل پڑتے ہیں؟ کسی ایک کو تو ''ناں‘‘ کرنا ہو گی۔ یہی وجہ تھی کہ آرمی چیف نے کھل کر ان سیاستدانوں کو سامنے بٹھا کر ایسی سنائیں جو اس سے پہلے کبھی نہ سنائی گئی ہوں گی۔ جنرل باجوہ کا انہیں یہ کہنا کہ فوجی تو کسی سے ملنے نہیں جاتے یہ سویلین اور سیاستدان ہی دوڑ دوڑ کر ان سے رابطے کرتے ہیں۔ انہوں نے وہاں بیٹھے خواجہ آصف کو دیکھ کر کہا کہ آپ ہی تو الیکشن کی رات مجھے فون کالز کررہے تھے۔ شہباز شریف کو کہا آپ جب بلاول بھٹو کے والد کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے نعرے ماررہے تھے تو اس وقت یہ مشورہ کسی فوجی نے نہیں دیا تھا۔ آپ کے سب نعرے آپ کے سامنے آرہے ہیں آج ۔ اس طرح بقول خواجہ آصف ایسی ہی باتیں وزیراعظم عمران خان کے بارے بھی کہی گئیں کہ وہ بھی ماضی میں جو تقریریں کرتے تھے ان کا کہا ہوا ان کے سامنے آرہا ہے۔ یوں سب کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا گیا ۔ جب آپ اقتدار خفیہ ملاقاتوں اور منت ترلے سے لیتے ہیں تو پھر آپ کے بارے یہی رائے بنتی ہے اور آپ کی کوئی عزت نہیں کرتا اور پھر آپ کو اگلے سامنے بٹھا کر سناتے ہیں اور آپ چوں بھی نہیں کرسکتے۔
عوام کو یہ تاثر دے دیا گیا ہے کہ سیاستدان بے چارے ہیں‘ مجبور ہیں انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ ان پر ترس کھایا جائے۔ ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اور جو یہ ہمدردی نہیں دکھاتے وہ دراصل بوٹ پالشیے ہیں۔ جن سیاستدانوں کی طرف سے ہمیں ہمدردی کا درس دینے کا سبق دیا جاتا ہے اس دوران انہوں نے دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں بنا لیں۔ یہ بیچارے وزیراعظم ہوتے ہوئے دبئی میں نوکری کر لیں‘ وزیرداخلہ‘ وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی بیرون ملک اقامہ پر ملازمتیں کرتے رہیں‘ سرے محل خرید لیں‘ دبئی میں محل بنا لیں‘ اسحاق ڈار کی طرح ٹاورز کھڑے کر لیں‘ لندن میں جائیدادیں بنا لیں‘ آپ نے چپ رہنا ہے۔ ان کے داماد معمولی دکان سے اٹھ کر اربوں روپوں کے مالک بن جائیں ‘ سلمان شہباز ٹی ٹی ایکسپرٹ ہوجائے تو بھی آپ نے چپ رہنا ہے۔ مریم نواز ٹی وی پر کہہ دیں کہ ان کی لندن چھوڑیں پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں اور چند دنوں بعد ان کی اربوں کی جائیداد نکل آئے تو بھی آپ نے خاموش رہنا ہے ۔ حمزہ شہباز مال بنا لیں‘ شہباز شریف اپنی ایک بیگم کے اکاؤنٹ سے دوسری کیلئے فلیٹس خرید لیں اور وہ پیسے اس اکائونٹ میں بدنام زمانہ ٹی ٹی سے آئے ہوں تو بھی آپ نے چپ رہنا ہے۔ زرداری صاحب کے جعلی اکاؤنٹس سے چالیس ارب روپے کا سکینڈل نکلے تو بھی چپ رہیں ۔
دوسری طرف عمران خان کے وزیروں کے کرپشن سکینڈل آئیں‘ گندم اور چینی ایک ساتھ ایکسپورٹ کرکے اربوں روپے دوستوں کو دے دیں اور اگلے سال باہر سے وہی گندم اور چینی منگوا کر پھر اربوں لگا دیں تو بھی آپ نے انکاری ہوجانا ہے‘ ورنہ آپ نے کسی سے لفافہ پکڑ لیا ہے۔ چینی کی قیمت 52 روپے سے ایک سو روپے عبور کرجائے اور اربوں روپے عوام کی جیب سے نکل جائیں تو بھی آپ نے ہونٹ سی کر رکھنے ہیں ورنہ آپ لفافہ ہیں ۔ یہ سب سیاستدان ‘ ان کے قابلِ رحم بچے‘ غریب داماد‘ بے چارے وزیر کچھ بھی کماتے رہیں آپ نے ہر حال میں ان کی حمایت جاری رکھنی ہے کیونکہ یہ سب مل کر جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمارے فارن کوالیفائیڈ دانشوروں کے نزدیک بغیر کرپٹ اور کرپشن کے نہ کوئی جمہوریت ہوتی ہے اور نہ ہی جمہوری کلچر‘ اس لیے اس ملک میں جو بھی اس کرپٹ ایلیٹ کے کرتوت سامنے لائے گا وہ شرطیہ ''بوٹ پالشیا‘‘ ہوگا یا ''لفافہ‘‘۔ یہ'' بوٹ پالش‘‘ اور'' لفافے‘‘ اکٹھے کرنے کا حق صرف سیاستدانوں کو ہے‘ وہ جب چاہیں کریں یا پھر عوام کی جیب پر ڈاکے مار کرپانچ براعظموں میں جائیدادیں بنا لیں‘ آپ نے ہر حال میں خاموش رہنا ہے ورنہ آپ بوٹ پالشیے ہیں ‘ آپ لفافے ہیں!