تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     25-09-2020

نواز شریف کی سیاست

آل پارٹیز کانفرنس میں ہونے والی دھواں دھار اور نام نہاد انقلابی تقریروں کی گھن گرج ابھی الیکٹرانک میڈیا پر اپنے بامِ عروج پر تھی‘ مشترکہ اعلامیے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہو پائی تھی‘ انقلابیوں کے ہم خیالوں کا عام تاثر یہی تھا اور یہ بیانیہ بنانے کی بھرپور کوشش بھی کی جارہی تھی کہ یہ پارلیمانی سیٹ اپ بس اب گرنے کوتیار کھڑا ہے اور بڑے بڑے عہدوں پر براجمان‘سول ہوں یا عسکری‘ سب کو گھر بھیجنے کا روڈ میپ بھی جاری کردیا گیا‘ لیکن عین اس وقت یہ پردہ اٹھ گیا کہ اس کل جماعتی کانفرنس سے چند روز پہلے پسِ چلمن کیا کچھ ہورہا تھا‘ کون کس سے ملاقاتیں کررہا تھا‘ کس کا پیغام کس کو پہنچایا جارہا تھا ۔کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد اور راولپنڈی میں اقتدار کے سیاسی اور غیر سیاسی ایوانوں میں کیا چل رہا تھا‘ کسی کے علم میں نہیں تھا اور جب اس ناچیز نے پچھلے '' بین السطور‘‘ میں کچھ بیان کیا تونام نہاد انقلابیوں کے فرنٹ مین مغلظات کے ساتھ حملہ آور ہوئے‘ لیکن کوئی بات نہیں ہر قاری کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے ‘ہمارے لیے سب قابلِ احترام ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ کہ ہمارے قارئین کرام میں وہ بھی شامل ہیں جو ہماری تحریروں کو پسند نہیں کرتے لیکن پڑھتے بھی ہیں اور اپنی رائے کا بے باکی سے اظہار بھی کرتے ہیں۔ اپنے ناقدین سے یہی عرض ہے کہ میں چونکہ بنیادی طور پرایک رپورٹر ہوں اور ربع صدی سے یہی کام کر رہا ہوں‘ خبروں کا حصول‘ خبروں کی تہہ تک پہنچنا اور ان خبروں اور معلومات کو اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچانا اپنا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے‘ اس لیے جانتا ہوں کہ ایک خبر کبھی بھی سب کو خوش نہیں رکھ سکتی۔ ایک فریق کے لیے خبر اچھی ہوتی ہے اور دوسرے کے لیے بری‘ یہ ایک فطری عمل ہے اس لیے آپ ہم سے ناراض نہ ہوا کریں؛ البتہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سخت سے سخت بات اچھے طریقے سے کی جاسکتی ہے۔'' بین السطور‘‘ میں خبروں کا یہ سلسلہ البتہ جاری رہے گا۔
بات ہورہی تھی آل پارٹیز کانفرنس کی تقریروں اور اعلامیے کی‘ جس میں خاص طور پر نواز شریف کی تقریر ‘ جسے دوستوں نے صحیح سمجھا اور پھر ایک بے بنیاد عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی ‘لیکن جلد ہی ایسی خبروں کی بھرمار ہوگئی اور معلوم ہونے لگا کہ نوازشریف کی تقریر میں اتنی زیادہ نفرت‘ غصے اور اداروں کے خلاف زہر افشانی کی اصل وجہ کیا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ماضی میں چلے جائیں تو سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے بدلتے ہوئے خطے کے سکیورٹی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی سے متعلق ایک ادارے کی تشکیل کی تجویز دی‘ تجویز بہت اچھی تھی‘ جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اہم قومی سلامتی کے امور اوپن فورم پر سول ملٹری قیادت کے درمیان زیربحث آئیں اور ان ملاقاتوں اور فیصلوں کا ریکارڈ بھی ہو‘ لیکن وزیراعظم نوازشریف نے ان سے استعفیٰ لیا اور جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا‘ پھر انہیں دوسرا عہدہ بھی دے دیا گیا‘ لیکن ان کے ساتھ بھی لڑائی جاری رکھی ‘پھر کیا ہوا سب نے دیکھا۔ پھر تمام اپوزیشن جماعتوں نے اے آرڈی بنائی اور نوابزادہ نصراللہ خان کی سربراہی میں بحالیٔ جمہوریت کی جدوجہد عروج پرتھی کہ محترمہ کلثوم نواز ان اجلاسوں میں دن میں شرکت کرتی تھیں اور رات کی تاریکیوں میں بھیس بدل کر کالے شیشوں والی گاڑی میں بیٹھ کر ریٹائرڈ فوجی افسروں کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کو اپروچ کیا جاتا تھا اور منت ترلا کیا جاتا تھا ۔ ایک روز قبل اے آر ڈی کا اجلاس ہوا‘ نوابزادہ نصراللہ خان نے بھرپور پریس کانفرنس کی اور ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا‘محترمہ کلثوم ان فیصلوں میں شریک تھیں‘ لیکن اُسی رات پرویز مشرف سے ڈیل فائنل ہوگئی اور نواز شریف راتوں رات سرور پیلس جدہ میں منتقل ہوگئے۔ واضح رہے کہ سرور پیلس جدہ کی تزئین و آرائش چندہفتے پہلے ہی کی جاچکی تھی۔ اتفاق سے مجھے بھی سرور پیلس جدہ میں میاں نواز شریف سے مسلسل تین برس ملاقات کا موقع میسر آیا ۔ان ملاقاتوں کا احوال پھر کسی دن عرض کروں گا‘ نواز شریف کے جدہ جانے کے بعد اے آرڈی کا اگلا اجلاس ہوا تو اس اجلاس میں جدوجہد کی تحریک جن کے لیے چلائی جانی تھی وہ موجود نہیں تھے‘ باقی سب جماعتیں اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ وہ وہاں بحالیٔ جمہوریت کی بات کررہی تھیں اور دل ہی دل میں یہ کہہ رہی تھیں کہ میاں صاحب سب کو جُل دے کر نکل گئے اور بیگم صاحبہ نے بھی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔بڑے لوگ ہمیشہ بڑے ہی ہوتے ہیں۔ اعلیٰ ظرف اور وضع دار نواب زادہ نصراللہ خان نے اگلی پریس کانفرنس میں نواز شریف سے متعلق ایک سوال پر برملا اعتراف کیا اور کہا کہ '' بر خوردار میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے نواز شریف کو پہچاننے میں غلطی کی ‘میری ساری زندگی سیاسی لوگوں‘ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ گزری اور سیاسی لوگوں سے پالا پڑا اور میں نواز شریف کو بھی سیاستدان سمجھ بیٹھا تھا‘‘۔ پھر نوابزادہ نے نواز شریف کے بارے میں تاریخی جملہ بولا ''لیکن افسوس کہ جس کو میں سیاستدان سمجھ کر اس کی رہائی کے لیے جدوجہد کررہا تھا وہ نواز شریف ایک تاجر نکلا اور ایک ڈکٹیٹر سے اپنا سودا کرکے باہر چلا گیا ‘‘۔ نوابزادہ نے ایک آہ بھری اور دل ہی دل میں کہا ہوگا کہ اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ ِزیبا لے کر ۔
یہ تاریخی واقعہ بیان کرنے کا مقصد تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ آج بھی جب پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ کا اعلان کیا جارہا تھا اور نواز شریف ایک انقلابی تقریر کررہے تھے‘ عین انہی دنوں جب آل پارٹیز کانفرنس کی تاریخوں کا تعین کیا جارہا تھا اور (ن) لیگ سے اے پی سی کی تاریخ مانگی جارہی تھی اور( ن) لیگ بلکہ شریف فیملی اے پی سی کی تاریخ نہیں دے رہی تھی ‘پس پردہ انہی دنوں شریف فیملی مصالحت کاروں کے ذریعے عسکری قیادت سے ڈیل کی کوشش میں مصروف تھی۔ این آر او مانگا جارہا تھا‘ منت ترلا‘ معافی تلافی‘ ماضی کی غلطیاں معاف کرنے کی استدعا کی جارہی تھی‘ عدالتوں سے ریلیف لے کر دینے کی درخواست کی جارہی تھی‘ لیکن یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ ہمارا کوئی لینا دینا نہیں‘ آپ جانیں اور آپ کے مقدمات۔ جب یہ جواب آخری بار سات ستمبر کو مل گیا تو پھر فوری طور پر اے پی سی کی تاریخ بھی دے دی گئی اور انقلابی تقریر بھی کردی گئی۔ لیکن اس بار ماضی سے حالات مختلف ہیں‘ وضع دار نوابزادہ نصر اللہ خان کی جگہ ''ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ لے چکے ہیں اور عسکری قیادت بھی ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے بعد اب مزید ڈسوانے کے لیے تیار نہیں۔ پانامہ سے جو سفر شروع ہوچکا وہ آج تک جاری ہے اور یہ جاری رہے گا ‘بیرونی ممالک کا دباؤ اب بھی ہے‘ لیکن پاکستان بڑا ہوچکا ہے۔ اپنے دوستوں دشمنوں کو پہچانتا ہے۔ شریف فیملی نے ایک بار پھر اے پی سی کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی‘ لیکن جو خبریں اب آچکی ہیں اورجو کچھ پاک فوج کے ترجمان بیان کرچکے ہیں اب منہ چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی۔ یہ تمام خبریں ملاقاتوں کی تفصیل پیپلزپارٹی کو مل چکی‘ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ اے پی سی میں انقلابی تقریر انکار کے بعد دباؤ بڑھانے کے لیے تھی‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آنے والے دنوں میں احتساب کا عمل مزید سخت ہونے جارہا ہے۔ نواز شریف نے جو کردیا شاید اب واپسی نہ ہوسکے۔ گلگت بلتستان کا پانچواں صوبہ بننا بہت ضروری ہے‘ پاکستان کے دشمن پاکستان کو گھیرنا چاہتے ہیں اور شریف فیملی قومی سلامتی کے معاملات میں بھی وہ بیانیہ لے کر آرہی ہے جس سے دشمن تو خوش ہوسکتا ہے لیکن اس سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved