تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     25-09-2020

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور جماعت اسلامی

صرف 76 سالہ زندگی کہ جس میں سفر و حضر بھی ہے، خورونوش بھی ہے، آرام و سکون بھی ہے، کبھی ریل اور کبھی جیل بھی ہے اور جس میں خلق خدا سے میل جول بھی ہے۔ اس مختصر زندگی میں ایک فردِ واحد کارِ عظیم نہیں متنوع نوعیت کے کارہائے عظیم کیسے انجام دے سکتا ہے؟ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ موددی اس عالم رنگ و بو میں 25 ستمبر 1903ء کو آئے اور 22 ستمبر 1979ء کو رخصت ہو گئے۔ مولانا کے کام اور اس کے وسیع تر اثرات کا آپ جتنا جائزہ لیتے جائیں گے اتنے ہی حیرت زدہ ہوتے جائیں گے۔ اس خاکدانِ ارضی میں ایک سے بڑھ کر ایک باکمال شخص نمودار ہوتا ہے، اپنا کمالِ ہنر دکھاتا ہے اور پردۂ سکرین سے غائب ہو جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ اُن شخصیات میں سے ہیں جن کی زندگی کے مختلف شعبوں میں اثرات آنے والے زمانوں تک نہ صرف باقی رہتے ہیں بلکہ پھلتے پھولتے‘ ایک عالم کو مہکاتے اور لوگوں کو آمادۂ عمل کرتے رہتے ہیں۔ بیسویں صدی میں جن مسلم مفکرین و قائدین نے دنیاکو اسلام سے بحیثیت ایک زندہ و متحرک قوت کے متعارف کرایا اور اُن کے خیالات نے اسلام کی عظمتِ رفتہ سے دنیاکو منور کرانے کی نوید سنائی اور انہوں نے مسلمانوں کو ولولہ تازہ عطا کیا ہے، مولانا بلاشبہ ان عظیم شخصیات کی صف اوّل میں نہایت نمایاں ہیں۔ مغربی تہذیب نے گزشتہ کئی صدیوں کے دوران جو بت تراشے، ان بتوں میں ایک دین و سیاست کی جدائی کا بت تھا۔ یہ وہی بت ہے جس کے بارے میں مرشد اقبال نے فرمایا تھاع
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مولانا مودودیؒ نے اپنے علم کی گہرائیوں اور اپنے قلم کی جولانیوں سے اس بت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ مولانا مودودیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ تو میں یہ کہوں گا: اپنے دور کے معاشروں کو توحید کا حقیقی شعور دینا۔ انہوں نے نہ صرف نکتۂ توحید بیان کیا بلکہ اس کی عملی تفسیر و تعبیر کیلئے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کر دیا۔ سیّد اپنی منزل کی طرف تنہا چلے تھے اور پھر زمانہ اُن کے ساتھ چلنے لگا۔
مولانا مودودیؒ کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ عہدِ جدید کاکوئی مسئلہ ایسا نہیں جس پر انہوں نے روشنی نہ ڈالی ہو اور اسلام کا نقطۂ نظر کھول کر بیان نہ کیا ہو۔ یہ مولانا مودودیؒ کے قلم کا ہی اعجاز ہے کہ مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ الحاد، کمیونزم اور مغربی تہذیب کے فریب سے نکل کر اسلام کی صراطِ مستقیم پر واپس آگیا۔ کوئی آدمی یقین نہیں کر سکتا کہ ایک انسان مفسر قرآن بھی ہو اور ہزاروں صفحات پر مشتمل تفسیر اپنے خونِ جگر سے رقم کرتا ہو، زندگی کا رُخ بدل دینے والی درجنوں کتابوں کا مصنف ہو اور جدید خطوط پر ایک تحریک کا بانی ہو۔ وہ نہ صرف اس کا بانی ہو بلکہ ایک مثالی قائد کی حیثیت سے اس کی قیادت بھی کر رہا ہو۔ ایک طرف وہ دستوری جنگ لڑرہا ہو اور قراردادِ مقاصد منظور کروانے کے لیے سارے ملک کے دورے کر رہا ہو دوسری طرف نظریاتی محاذ پر کمیونزم اور سرمایہ کاری سے برسرپیکار ہو، تیسری طرف وہ سیاسی محاذ پر بھی سرگرم عمل ہو اور ''دینی حلقوں‘‘ کی طرف سے آنے والے تیروں کے سامنے سینہ سپر بھی ہو۔ اس چومکھی جنگ میں بھی وہ ہر وار اخلاقی حدودوقیود کے اندر رہ کر کرتا ہو اور کسی معاملے میں کوئی غیراخلاقی یا غیرمعیاری قدم اٹھانے سے مکمل طور پر اجتناب کرتا ہو۔ اس تاریخ ساز شخصیت کا نام سید ابوالاعلیٰ مودودی ہے۔
مولانا مودودیؒ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اُن کی حوصلہ افزائی کرنے والے حضرات میں مولانا محمد علی جوہر اور علامہ محمد اقبالؒ جیسی شخصیات شامل تھیں۔ 1928ء کے لگ بھگ ہندوئوں نے ہندوستان میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں نہایت دردمندی کے ساتھ اس ضرورت کا اظہارکیا کہ کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں وہ ختم ہو جائیں۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک معرکہ آرا کتاب لکھی۔ اس وقت مولانا کی عمر صرف 24 برس تھی۔ اس کتاب کے بارے میں حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا ''الجہاد فی الاسلام - اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے‘‘۔
اسلامی دنیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں اور اسلامی سیاسی جماعتوں نے مولانا مودودیؒ کے افکار کو پڑھا اور عملاً اس سے بے پناہ استفادہ کیا۔ ترکی، تیونس، مصر اور الجزائر وغیرہ میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی میں مولانا مودودیؒ کے لٹریچر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مصر میں وہاں کی آمریت نے صدر محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ اسی طرح الجزائر میں بھی ہوا تھا؛ تاہم ترکی اور تیونس میں اسلامی جماعتوں کی حکومتیں نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے بنفس نفیس پاکستان میں جماعت اسلامی کی قیادت کی اور کلمۂ حق بلند کرنے کی پاداش میں انہیں 1953ء میں ایک فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ اس موقع پر مولانا مودودیؒ کا جو مومنانہ اور جرأت مندانہ کردار سامنے آیا اس پر دنیا اش اش کر اُٹھی۔ آج کی نوجوان نسل مولانا کی اس عظمتِ کردار سے زیادہ آگاہ نہیں۔ مولانا کو 1953ء میں جیل کی بیرک سے پھانسی گھاٹ کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ایسے میں کچھ لوگ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیاکہ آپ ہمیں رحم کی اپیل دائر کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر کہاکہ میری طرف سے کوئی شخص رحم کی اپیل نہیں کرے گا۔ رحم کی اپیل تو وہ کرے جس نے کوئی جرم کیا ہو۔ کلمۂ حق کہنے کی پاداش میں اگر یہ مجھے پھانسی دے دیں تو یہی شہادت عین مطلوب و مقصود مومن ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا نے یہ تاریخی جملہ بھی فرمایا کہ زندگی و موت کے فیصلے زمینوں پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ ساری دنیا سے بالعموم اور عالمِ عرب سے بالخصوص پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالا گیاکہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے۔ حکومت کو اس دبائو کے سامنے جھکنا پڑا۔ مولانا جب تک جماعت اسلامی کے امیر رہے باطل قوتوں سے برسرپیکار رہے۔ 25 ستمبر 1979ء کو مولانا مودودی کی نمازِ جنازہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں ادا کی گئی جس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے تھے۔ سیّد مودودی کو یہ منفرد اعزاز بھی نصیب ہواکہ اُن کی غائبانہ نمازِ جنازہ خانہ کعبہ میں ادا کی گئی۔ 
مولانا نے بلا مبالغہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ پیدا کیے جن کی دیانت و امانت کی شہادت زمانہ دیتا ہے۔ مولانا کی کتب اور اُن کی دلکش شخصیت کا کرشمہ ہے کہ گزشتہ تین نسلوں کی ذہن سازی اور شخصیت سازی کا عملِ خیر جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے کراچی میں میئر عبدالستار افغانی منتخب ہوں یا نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ‘ عوام و خواص پاکستانی حکمران اور عالمی ادارے اُن کی دیانت، ذہانت، محنت اور لگن کی تعریف کرتے ہیں۔ اگر جماعت اسلامی کے جناب سراج الحق خیبر پختونخوا میں وزیر مالیات اور عنایت اللہ وزیر بلدیات منتخب ہوتے ہیں تو اُن کی بہترین کارکردگی اور شفاف مالی معاملات کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ سینیٹر سراج الحق کے بارے میں تو عدالت عظمیٰ کے ریمارکس یہ تھے کہ اگر دستور کی شق 63-62 کو سختی سے لاگو کریں گے تو پھر صرف سینیٹر سراج الحق ہی اس معیارِ مطلوب پر پورا اتریں گے۔ تاہم جماعت اسلامی کو سوچنا چاہئے کہ اتنی عوامی پذیرائی کے باوجود انہیں وسیع تر انتخابی کامیابی کیوں نہیں حاصل ہوتی۔ اس سوال کے حقیقت پسندانہ جواب میں ہی جماعت اسلامی کی انتخابی کامیابی کا راز مضمر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved