تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     26-09-2020

خفیہ ملاقاتوں کا غبار

خفیہ ملاقاتوں کا غبار نوازشریف صاحب کے ایک ٹویٹ سے چھٹ گیا۔ مطلع صاف ہو گیا۔ نشاناتِ راہ، ایک بار پھر واضح ہو گئے۔
تقریر سے تبدیلی آئے گی، یہ تو معلوم تھا لیکن اِس سرعت کے ساتھ، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ دو دن میں برسوں کا فاصلہ طے ہو گیا۔ فریقین اصل صورت میں سامنے آگئے۔ میدان سج گیا۔ سب کی حکمتِ عملی واضح ہوگئی۔ صف بندی ہوچکی۔ لشکریوں نے مورچے سنبھال لیے۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کس کے ترکش میں کیا ہے۔ جو برسوں میں ہونا تھا، وہ دو دن میں ہو گیا۔
بزعمِ خویش سیاسی 'مواحد‘ بت پرستوں پر برس رہے ہیں کہ یہ تو ہیں ہی پرانے پجاری۔ کھوج لگائے جا رہے ہیں کہ کون کب سجدہ ریز ہوا۔ وہ سب سے بلند آہنگ ہیں جو بت کدے کی چاکری کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کو زیادہ خبر بھی ہے کہ برسوں سے اس دہلیز پر بیٹھے ہیں۔ ہر آنے جانے والے پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ کچھ وہ بھی ہیں، غبار اڑانا جن کا فن ہے۔ سیاسی قوتیں اس کام کے لیے ان کی خدمات مستعار لیتی رہتی ہیں۔ تجزیہ کرنے والے ان کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پجاری مطعون ہیں، بت کدے کے مجاور نہیں۔ یہاں بت پرستی جرم ہے، بت گری اور بت فروشی نہیں۔
بت کدے کی آبادی، درست ہے کہ بت پرستی کا جواز نہیں بن سکتی لیکن اگر کوئی توبہ کی طرف مائل ہو تو کیا اسے ماضی کا طعنہ دینا چاہیے؟ اس کا خیرمقدم ہونا چاہیے، اس کے لیے استقامت کی دعا کرنی چاہیے یا اس کی توبہ کے راستے میں حائل ہو جانا چاہیے؟ یہ ممکن ہے کہ سب کچھ محض دکھاوا ہو۔ یہ مان لیا کہ توبہ شکنی کا منصوبہ بھی بغل میں ہو گا۔ یہ مانتے ہوئے بھی، 'موحد‘کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ طعنے دینا؟
یہ رویہ اُس وقت جنم لیتا ہے جب بحث کا دائرہ کسی نظریے یا صداقت کے نہیں، شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔ ہر کسی کو یہ حق ہے کہ وہ نواز شریف صاحب کے شخصی مقاصد کے بارے میں شک کا اظہار کرے لیکن اس سے بیانیے کی صداقت پر کیا حرف آئے گا؟ کیا ریاست سے ماورا بھی کوئی ریاست ہونی چاہیے؟ تجزیہ کرنے والے اس سوال کو کیوں موضوع نہیں بناتے؟ بت پرستی گناہ ہے لیکن بت کدے کی آبادی کیسے ثواب ہو گئی؟
یہ ایک متروک منطق ہے جس سے زمین بوس ہوتے مقدمے کو سہارا دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ نوازشریف صاحب کے ایک ٹویٹ نے اس منطق کو بے اثر کردیا ہے۔ وہ راستے اب بند ہو رہے ہیں جہاں خفیہ ملاقاتیوں کے قافلے رواں رہتے تھے۔ اس راستے پر اب عوامی شعور کی شمعیں آویزاں ہورہی ہیں۔ جو جائے گا، پہچان لیا جائے گا۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی کی دم توڑتی سیاست، اس کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ اب ماضی نہیں، لوگوں کا حال فیصلہ کرے گا۔
حال کیا کہہ رہا ہے؟ نوازشریف صاحب کی اس تقریر کے بعد جو اہم تبدیلیاں آ چکیں، ان پر ایک نظر ڈالیے تو مستقبل کے ابھرتے منظرنامے کے خدوخال واضح ہو نے لگتے ہیں۔ 
ایک تو یہ کہ اب حقیقی سیاسی فریق آمنے سامنے ہیں۔ نام کچھ بھی ہو، اس ملک میں اصل 'سیاسی جماعتیں‘ کون کون سی ہیں، اب اس باب میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ ابہام تو پہلے بھی نہیں تھا لیکن اب معاملہ عین الیقین تک جا پہنچا ہے۔ معلوم ہوگیا کہ حقیقی سیاسی قوتیں دو ہی ہیں۔ ایک مستقل ہے۔ مدِمقابل بدلتا رہتا ہے۔ یہ 1980ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی تھی۔ آج نون لیگ ہے۔ نقاب پوشی کی سیاست اب ختم ہو گئی ہے۔ یہ نوازشریف صاحب کی تقریر کا پہلا نتیجہ ہے جو دنوں میں نہیں، گھنٹوں میں سامنے آ گیا۔
دوسرا یہ کہ عمران خان پلک جھپکنے میں غیر اہم ہو گئے۔ تقریر کی چند ساعتوں بعد ہی ایسا محسوس ہونے لگا گویا اس حکومت کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔ خان صاحب پاور پالیٹکس میں اتنے غیر اہم ہیں، شاید ہی کسی کو اندازہ تھا۔ نوازشریف صاحب کی تقریر نے ان کا بھرم ختم کر دیا۔ یہ سب کچھ لمحوں میں ہو گیا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمران خان کی سیاست کی عوامی بنیادیں نہیں ہیں۔ وہ نوجوانوں میں اب بھی حامیوں کا ایک وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ یہ حلقہ 2018ء میں بھی موجود تھا؛ تاہم ان کی عوامی تائید کا دائرہ اتنا وسیع نہیں تھاکہ وہ نون لیگ کے مقابلے میں حکومت بنا سکتے۔ یوں اقتدار تک پہنچنے کے لیے انہیں سہارے کی ضرورت پیش آئی۔ حکومت میں آنے کے بعدآزادانہ پرواز کے بجائے ان کا انحصار دوستوں اور معاونین پر مزید بڑھتا گیا۔ شاید احساسِ تشکر کے تحت، انہوں نے اپنی منصبی حیثیت پر اصرار نہیں کیا۔ اس انحصار نے انہیں آج غیر متعلق کر دیا۔
ایک سبب ان کی افتادِ طبع بھی ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد اقتدار کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ پارلیمنٹ کو موثر بناتے اور اپوزیشن جماعتوں سے براہ راست معاملہ کرتے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اپوزیشن کے تعاون کو حقارت سے مسترد کیا۔ ان سے بات کرنا گوارا نہیں کیا۔ جب اس کی ضرورت پیش آئی تو معاونین سے ہی مدد کے طلب گار ہوئے ‘ یوں انہوں نے اقتدارہاتھ میں لینے کا موقع گنوا دیا۔
آئی ایس پی آر نے اس خفیہ ملاقات کو علانیہ بنا دیا جو گلگت بلتستان کے معاملے پر، اپوزیشن اور آرمی چیف کے مابین ہوئی۔ کیا یہ معمولی واقعہ ہے کہ وزیراعظم اس عمل کا سرے سے حصہ ہی نہیں تھے؟ اگر وزیراعظم کے منصب کی اس نظام میں کوئی حیثیت ہوتی تو یہ ملاقات وزیراعظم کی صدارت میں ہوتی۔ عمران خان صاحب نے اس بات کو سمجھا نہیں کہ اپوزیشن اس نظام کا ایک ستون ہے جس پر ان کے حکومت کھڑی ہے۔ انہوں نے خود اس کو گرانا چاہا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ محض ایک تقریر نے ان کو غیر متعلق بنا دیا۔
تیسرا نتیجہ سب سے اہم ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو یہ موقع ملا کہ وہ جمعیت کی سیاست کو اس کے ڈیڑھ سو سالہ پس منظر سے مربوط کر دیں۔ سیاسی حرکیات اور تاریخ سے بے خبر لوگوں نے انہیں یہ موقع فراہم کر دیا۔ میرے نزدیک یہ ہماری سیاسی تاریخ کے چند اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ میں اس پر الگ سے لکھوں گا کہ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ یہاں صرف اشارہ کروں گا کہ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کا اتحاد تاریخ کو بدل دینے کی تمام تر صلاحیت رکھتا ہے۔
چوتھا یہ کہ اس وقت جو دو فریق آمنے سامنے ہیں، ان کی قوت کی بنیاد پنجاب ہے۔ اگر خدانخواستہ معاملہ تصادم کی طرف بڑھتا ہے تو پنجاب میدان بنے گا۔ دیگر صوبے اس کے عادی ہو چکے۔ وہاں یہ امکان نہیں تھاکہ تصادم گلی گلی پھیلتا۔ میں اس نکتے کی شرح نہیں کرتا۔ اتنا عرض ہے کہ تھوڑے کو بہت سمجھا جائے۔ 
یہ نوازشریف صاحب کی تقریر کے چند بڑے نتائج ہیں جو اتنی شتابی سے سامنے آئے ہیں۔ میرے لیے باعثِ حیرت ہوگا اگر قوت کے مراکز میں بیٹھے لوگوں کو ان نتائج کا ادراک نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک ایک نکتہ حالات کو غیر معمولی سطح پر متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تجزیے کے نام پر اے پی سی اور نوازشریف صاحب کے خطاب کی اہمیت کو جو لوگ کم کرنا چاہتے ہیں، انہیں حالات کی سنگینی کا قطعاً اندازہ نہیں۔
تاریخی واقعات کے بیان سے تاریخ کا فہم حاصل نہیں ہوتا۔ یہ عرق ریزی کا مطالبہ کرتا ہے۔ آج ہم نے تاریخ کی سمت کو سمجھنا ہے۔ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے تاریخ کے ساتھ ہم قدم ہونا ہے یا اس کے راستے میں مزاحم ہونا ہے۔ دونوں کے نتائج تاریخ کی گزر گاہ پر بکھرے پڑے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved