آج مجہول سیاست پر بات نہیں کریں گے‘ نہ ہی لچھے دار بیانات اور ان کی چسکے دار توجیہات پر کوئی بات ہوگی۔ ان سبھی موضوعات سے بچ بچا کر ایک انتہائی اہم اور فکر انگیز ایشو پر بات کرنے جارہا ہوں۔ اکثر قارئین کی بوریت اور بوجھل پن کا احساس عین متوقع ہے۔ دنیا بھر میں وطنِ عزیز کے سفیر بن کر مسیحائی کے جھنڈے گاڑنے والے اس پروفیشن کی ساکھ اور بقا کی بات کرنے جا رہا ہوں جسے بدقسمتی سے حکومتی پالیسیوں نے تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ نجانے کون سے سقراط اور بقراط کہاں بیٹھ کر پالیسیاں بناتے ہیں جن کا نہ کوئی عملی تجربہ ہے اور نہ ہی اُن کے ان فیصلوں کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ نہ انہیں اپنے فیصلوں کی معقولیت کی پرواہوتی ہے اور نہ ہی مقبولیت کا احساس۔ ان سبھی سے بے نیاز یہ پالیسیاں میڈیکل ایجوکیشن کو نہ صرف متنازع بنانے کا باعث بن رہی ہیں بلکہ طلبا میں بددلی اور بے چینی کا رجحان بھی بڑھتا چلا جارہا ہے۔
مزے کی بات یہ کہ اربابِ بست و کشاد ہر تنقید‘ مزاحمت اور عوامی ردعمل سے بے نیاز نجانے کون سے ایجنڈے پر گامزن ہیں کہ انہیں یہ احساس بھی نہیں کہ ان کی یہ پالیسیاں بین الاقوامی سطح پر ہمارے میڈیکل پروفیشن پر کیسے کیسے منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ میڈیکل ایجوکیشن کو ریگولیٹ کرنے کے لیے 56 برس سے پی ایم ڈی سی کے نام سے ایک ادارہ بطور ریگولیٹر کام کر رہا تھا۔ اس سسٹم سے ڈاکٹر بن کر نکلنے والوں نے یورپ امریکہ سمیت دنیا بھر میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا نہ صرف لوہا منوا رکھا ہے بلکہ کورونا سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ہر اول دستے کے طو رپر ملک و قوم کا نام بھی روشن کیا ہے۔ اسی طرح ان مسیحائوں نے اندرونِ ملک بھی کم وسائل کے باوجود کورونا وبا کے حالات میں گراں قدر جذبے کے ساتھ جس غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ وہ نہ صرف قابلِ تعریف بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ اسی قابلیت اور مہارت کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی ڈاکٹروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
دیارِ غیر میں کام کرنے والے یہ مسیحا نہ صرف ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں بلکہ خطیر زرِمبادلہ کی صورت میں معاشی استحکام میں بھی معاون و مددگار ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدرِ پاکستان نے پاکستان میڈیکل کمیشن کے بل پر دستخط کر کے پی ایم ڈی سی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن ہو یا پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل دونوں کی حیثیت ریگولیٹر کی ہے لیکن کچھ ''کاریگروں‘‘ نے کمالِ مہارت سے نام بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی نکال ڈالی ہے۔ عملی تجربے سے عاری اور زمینی حقائق سے بے نیاز حکومتی چیمپئنز نے دو مرتبہ پی ایم ڈی سی کو تالے لگوائے اور ایک ایسا امریکن سسٹم اٹھا کر میڈیکل پروفیشن پر لاگو کر دیا جو امریکہ میں صرف اس لیے کامیاب ہے کہ وہاں قانون اور ضابطوں کا راج ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں شخصی اجارہ داری اور پسند ناپسند کا تصور ہی نہیں ہے اس کے برعکس ہمارے ہاں سارے فیصلے من مرضی اور ذاتی پسند ناپسند کے گرد گھومتے ہیں۔
پی ایم ڈی سی کو ہر دور میں آرڈیننسوں کے اتنے ٹیکے لگائے گئے کہ اس کے اصل ڈھانچے کی چولیں بھی ہلا کر رکھ دی گئی تھیں۔ اس کے ساتھ کس دور میں کیسے کیسے کھلواڑ ہوا‘ ا س کیلئے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے 1964ء تک میڈیکل پروفیشن کو ویسٹ انڈین میڈیکل ایکٹ کے تحت ریگولیٹ کیا جاتا تھا۔ 1964ء میں پارلیمنٹ نے ایک ہی دن میں تین بل پاس کیے: (1): پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل‘ (2):کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز‘ (3): پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل۔ ریسرچ کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ریسرچ کونسل بنائی گئی جبکہ ایم بی بی سی کے بعد سپیشلائزیشن کیلئے کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز قائم کیا گیا اور میڈیکل ایجوکیشن اور پروفیشن کو مجموعی طور پر ریگولیٹ کرنے کیلئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل بنائی گئی۔
2012ء میں پہلی مرتبہ پی ایم ڈی سی میں قانونی ترمیم کے علاوہ کھلی سیاسی مداخلت شروع کی گئی۔ آصف علی زرداری کے معتمدِ خاص ڈاکٹر عاصم حسین کو پہلے ممبر اور پھر نائب صدر بنایا گیا۔ اسی طرح نواز شریف کے دور میں بھی مداخلت اور ترمیمی بل کا سلسلہ جاری رہا اور آرڈیننس کا ایسا دروازہ کھلا کہ پی ایم ڈی سی کو ''ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی کے تحت چلایا اور تماشا بنا کر رکھ دیا گیا۔ اسی طرح میڈیکل ایجوکیشن میں داخلہ پالیسی کو نت نئے تجربات کر کے کیسا کیسا ٹیلنٹ ان تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ نجی میڈیکل کالجز میں دورانِ تعلیم طلبا کو کیسی کیسی ذہنی اذیت اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ اکثر واقعات میں طلبا کے تعلیمی مستقبل کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا گیا۔ بعض اقدامات کی وجہ سے میڈیکل ایجوکیشن متنازع بن کر رہ گئی اور طلبہ میں بے چینی کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک بھی ہمارے تعلیمی معیار کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا۔ کبھی حکمرانوں کی ضد تو کبھی اقربا پروری‘ کبھی متنازعہ پالیسیاں تو کبھی ہٹ دھرمی اور مصلحت پسندی‘ ان سبھی نے میڈیکل ایجوکیشن کے معیار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ نجی میڈیکل کالجز میں زیر تعلیم طلبا کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو بھی شدید تحفظات لاحق ہیں کہ آئے روز بدلتی پالیسیاں کہیں ہمارے بچوں کا مستقبل نہ لے ڈوبیں۔
میڈیکل فیکلٹی اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سمیت دیگر تنظیمیں پی ایم ڈی سی ختم کر کے پی ایم سی کے قیام پر شدید تحفظات کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ایم ڈی سی بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ رکھتی تھی اور اہمیت منوا چکی تھی۔ اس ادارے کی ہیئت اور نام بدلنے سے بین الاقوامی سطح پر ہمارے میڈیکل پروفیشن کو سخت نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ دنیا بھر میں ٹیکنیکل اداروں کو چلانے والی انتظامی باڈی بذریعہ انتخابات منتخب ہو کر آتی ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوتے ہیں تاکہ کسی بھی اعتراض کی گنجائش باقی نہ رہے جبکہ انصاف سرکار کا نیا شاہکار پی ایم سی صوابدیدی نامزدگیوں کے ذریعے چلایا جائے گا۔
انتہائی دلچسپ اور اہم ترین معلومات بھی شیئر کرتا چلوں کہ پی ایم ڈی سی جیسے تاریخی ادارے کے قیام کا سہرا لیفٹیننٹ جنرل (ر) واجد علی برکی کے سر ہے اور اس ادارے کے دھڑن تختہ میں پیش پیش نظر آنے والوں میں ان کا اپنا لختِ جگر ڈاکٹر نوشیرواں برکی بھی شامل ہے۔یہاں یہ امر بھی انتہائی اہمیت کے قابل ہے کہ پی ایم ڈی سی کے قیام کے چند سال بعد ملک دو لخت ہوگیا‘ کتنے ہی حکمران بدل گئے‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ ضیا الحق‘ نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو‘ پرویز مشرف‘ شوکت عزیز‘ آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور پھر تیسری بار نواز شریف کے بعد شاہد خاقان عباسی جیسے مختلف الخیال حکمران آتے جاتے رہے لیکن کسی حکمران نے کسی بھی دور میں اس ادارے کو توڑنے کا ارادہ تو درکنار‘ ایسا سوچا بھی نہیں۔
صوابدیدی نامزدگیوں پر قائم کیا گیا نیا ادارہ پاکستان میڈیکل کمیشن کس طرح غیر متنازع رہ سکتا ہے؟ تعجب ہے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے طویل ترین جدوجہد کا ریکارڈ رکھنے والی پنجاب کی وزیر صحت کس طرح خاموش ہیں‘ جبکہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کسی طور پی ایم سی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ پی ایم اے کے سرکردہ عہدیدار بھی وزیر صحت کی اس خاموشی پر خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ملک بھر میں تمام سٹیک ہولڈر اس ادارے پر شدید تحفظات کے ساتھ ہر ممکن مزاحمت پر آمادہ ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ ایشو ٹاپ ٹرینڈ بن جائے حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرلینی چاہیے تاکہ ایک اور جگ ہنسائی نہ ہو اور یوٹرن سے بھی بچا جاسکے۔