ناجائز اثاثوں کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''منی لانڈرنگ اور ناجائز اثاثوں کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے‘‘ آخر کپڑوں کی لانڈرنگ اور منی لانڈرنگ میں کیا فرق ہے؟ اور یہ ہر شہر میں درجنوں لانڈریاں کیا کر رہی ہیں؟ ان کے خلاف بھی مقدمات بنائے جائیں بلکہ انہیں بند کیا جائے اور اگر کالے روپے کو سفید کرنا جرم ہے تو دیواروں پر سفیدی کے پلستر کس لیے کیے جاتے ہیں اور جہاں تک ناجائز اثاثوں کا تعلق ہے تو یہ اصطلاح ہی غلط ہے کیونکہ اثاثوں جیسی چیز جو اتنی محنت سے بنائی جاتی ہے‘ ناجائز کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے جسے سیدھا کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام کی خدمت مشن‘ اب گھر بیٹھے شکایت کا ازالہ ہو گا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''عوام کی خدمت مشن‘ اب گھر بیٹھے ہر شکایت کا ازالہ ہو گا‘‘ لیکن اس کے لیے عوام کو چوبیس گھنٹے گھر بیٹھنا ہو گا کیونکہ شکایت کے ازالے کی گھڑی کسی وقت بھی آ سکتی ہے یعنی ایسا نہ ہو کہ ادھر ہم ازالے کا آغاز کرنا چاہیں اور اُدھر شکایت کنندہ اپنے گھر میں موجود ہی نہ ہو، اور ازالہ ٹیم کو بے نیلِ مرام واپس آنا پڑے، نیزواضح رہے کہ ازالہ ٹیم شکایت کنندہ کے گھر ایک ہی بار جائے گی کیونکہ اس نے 22 کروڑ عوام کی شکایات کا ازالہ کرنا ہوتا ہے اس لیے تاکید کی جاتی ہے کہ جس کسی کو بھی شکایت کا ازالہ مطلوب ہو‘ جب تک وہ شکایت رفع نہ ہو جائے وہ گھر سے باہر قدم نہ نکالے۔ آپ اگلے روز وزیراعظم آفس میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
لیگی ارکان آئندہ عسکری قیادت سے نہیں ملیں گے: نواز شریف
مستقل نا اہل، مفرور، سزا یافتہ مجرم اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ''نون لیگی ارکان آئندہ عسکری قیادت سے خفیہ اور اپنے طور پر نہیں مل سکیں گے‘‘ میری گستاخیوں کی معافی مانگنی ہو یا کوئی منّت ترلا کرنا ہو تو میری ہدایات لے کر ہی ملاقات کی جائے؛ اگرچہ اے پی سی کے موقع پر کی جانے والی میری تقریر کے بعد اب ایسی چیزوں کا کوئی امکان باقی نہیں رہا ہے اور میں تو اپنی کشتیاں جلا چکا ہوں اور ایک بھی کشتی باقی نہیں بچی جس پر بیٹھ کر وطن واپس آ سکوں۔ آپ اگلے روز لندن سے ایک ٹویٹ پیغام نشر کر رہے تھے۔
نواز شریف ضیاء الحق کی گود میں جوان ہوا
آج فوج کو آنکھیں دکھا رہا ہے: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''نواز شریف ضیاء الحق کی گود میں جوان ہوا، آج فوج کو آنکھیں دکھا رہا ہے‘‘ جبکہ اگر انہیں آنکھوں میں کوئی مسئلہ تھا تو کسی کلینک کا رخ کرنا چاہیے تھا کیونکہ آنکھیں تو بینائی میں خرابی ہونے پر ہی دکھائی جاتی ہیں جبکہ خود اُن کے پاس لندن میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر موجود ہے، نیز میں نے اپنے اعلان کے مطابق آج پھٹنا تھا لیکن اس کام کو اب مؤخر کر دیا ہے اور نہ ہی آج کوئی پیش گوئی کی ہے جو میرے معمولات کے خلاف ہے۔ جس دن میں پیش گوئی نہ کروں میرا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے، سوائے اس کے کہ ایک اپنی پرانی پیش گوئی کو دہرا دیا ہے کہ شہباز شریف کی شین لیگ معرضِ وجود میں آنے والی ہے ۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت مولانا فضل الرحمن کے خلاف
ہتھکنڈوں سے باز آ جائے: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت مولانا فضل الرحمن کے خلاف ہتھکنڈوں سے باز آ جائے‘‘ جبکہ ان کے دستِ راست موسیٰ خاں کو ناجائز اثاثوں کی تحقیقات کے لیے گرفتار کر لیا ہے حالانکہ ان کے اپنے خلاف جو کرپشن کی انکوائری ہو رہی ہے‘ ان کے لیے وہی کافی تھی، اسی طرح والد صاحب کے کسی دستِ راست کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور ایک ایک کر کے سب کو لپیٹ رکھا ہے جبکہ اثاثے بنانے کی ہمیں پوری پوری آئینی آزادی ہے، نیز اثاثے بنانے کے لیے ہُنر مندی درکار ہوتی ہے، اس لیے اس پر پکڑ دھکڑ کے بجائے اس کی داد دینی چاہیے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
بدعنوانی پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا: فواد چوہدری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ''بدعنوانی پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا‘‘ اور صرف انہی معاملات پر سمجھوتا کیا جا سکتا ہے جن کی فہرست حکومت نے جاری کر رکھی ہے لہٰذا اپوزیشن کو چاہیے کہ چادر سے زیادہ پائوں پھیلانے کی کوشش نہ کرے، البتہ اگر وہ کسی اور معاملے پر بھی سمجھوتا کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اس معاملے کو قابلِ سمجھوتا بنائے تا کہ اس پر غور کیا جا سکے اور جس کے لیے ضروری ہے کہ بدعنوانی کو خوش عنوانی کے طور پر پیش کیا جائے کیونکہ ہر کام کسی سلیقے اور قرینے کا متقاضی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سچ تو یہ ہے
یہ ڈاکٹر صفدر محمود کی تصنیف ہے جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے چھاپا ہے۔ انتساب شہدائے پاکستان کے نام ہے۔ یہ کتاب قائداعظم اور تاریخِ پاکستان کے حقائق مسخ کرنے والوں کو تاریخی شواہد کی بنا پر ایک مدلل جواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ بیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف، مؤرخ، محقق اور کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود کی علمی و ادبی پہچان، پاکستانیات، قائداعظم اور روحانیت کے حوالے سے نمایاں حیثیت کی حامل ہے، تعلیم و تدریس سے سول سروس تک‘ انہیں تاریخ و سیاست کے مختلف پہلوئوں کو قریب سے دیکھنے، مطالعہ اور تجزیہ کرنے کا موقع ملا ہے اور اس اعتبار سے ان کا مطالعہ اور معلومات زیادہ وسیع اور مستند ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پا کستان کے بارے میں لکھی جانے والی شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو گی جس میں ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریروں کے حوالے نہ ملتے ہوں۔ سلیس اور رواں اردو میں لکھی گئی یہ کتاب نہایت عمدہ گیٹ اَپ میں شائع کی گئی ہے۔
اور‘اب آخر میں نیلم ملک کی غزل:
نُور بھری پر جب راتیں بے نُور ہوئیں
چاند کی پریاں مرنے پر مجبور ہوئیں
ایک چُھؤن میں ٹھنڈی پوریں جاگ اٹھیں
بے رس آنکھیں جیون سے بھرپور ہوئیں
شہر میں چلتے پھرتے تجھ کو دیکھ لیا
مجھ پر یہ پتھریلی سڑکیں طُور ہوئیں
دُور سے آتی دھم دھم کی آواز میں گم
کان جھڑیں گے ڈھولکیاں جب کُور ہوئیں
شہنائی کے رس میں رسنے والوں پر
ماتھا پیٹتی زرد رُتیں رنجور ہوئیں
چڑیاں پنکھ پسارے اُن پر خوب ہنسیں
تیتریاں پنجروں میں جب محصور ہوئیں
دیوی موتی پھانکے، کرچیں دان کرے
داسی کو کرچیں بھی موتی چُور ہوئیں
ساتویں دُھن میں شعر کہا مستانی نے
چھ جہتیں جب اس کی خاطر پُور ہوئیں
آج کا مقطع
کچھ ظفرؔ نے کیا بھی نہیں ہے
پھر بھی شاید پڑیں ہاتھ مَلنا