تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     26-09-2020

نیشنل سکیورٹی اورمزاحمتی تحریکیں

توقع کے عین مطابق‘ اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں حکومت مخالف تحریک چلانے پہ اتفاق رائے کے بعد سیاسی کشیدگی میں شدت آ گئی ہے۔ حکومتی وزرا کی شعلہ بیانیوں سے قطع نظر‘ طاقت کے مراکز کی طرف سے براہِ راست جاری ہونے والے جوابی بیانیے نے اس جدلیات کی سنگینی کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ خاص طور پہ شریف خاندان پہ عائد مبینہ سیاسی پابندیوں کو نرم کرانے کی خاطر سابق گورنر سندھ زبیرعمرکی آرمی چیف سے دو ملاقاتوں کی آئی ایس پی آر کی طرف سے تصدیق اس تناظر کی نہایت اہم پیش رفت دکھائی دیتی ہے۔ اے پی سی کے فوری بعد نیب کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے دست راست کی گرفتاری کے علاوہ خود مولانا کے نیب میں طلبی نوٹس کی بازگشت نے سیاسی فضا کو پوری طرح سرشار کر دیا، حتیٰ کہ ریاستی اتھارٹی کے اس برق رفتار ردعمل نے احتساب کے اداروں کی ساکھ کو گزند پہنچانے کے علاوہ ایک قسم کے منفی تاثر کو جنم دینے میں بھی مدد دی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اپوزیشن کی اے پی سی کوئی اتنی بڑی سیاسی سرگرمی تو نہیں تھی جس سے حکومت کو فوری خطرات لاحق ہو جاتے بلکہ اس تحریک کی قوتِ رفتارکو بڑھانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو مناسب وقت اور وسیع جدوجہد درکار تھی لیکن حکومتی وزرا کی لن ترانیوں اورسرکاری اداروں کے متعین ردعمل نے مہمیز دے کر اسے آناً فاناً تند و تیز بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ نوازشریف کی جارحانہ تقریر کی مرکزی دھارے کے میڈیا میں کوریج روکنے کا اعلان اور بعدازاں اس مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے یہی تاثر ملا کہ ذرائع ابلاغ سمیت سیاسی عمل پہ گورنمنٹ کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ یہی نفسیاتی پسپائی اپوزیشن پارٹیوں کے حوصلے بڑھانے کا سبب نہ بن جائے۔ پرویز مشرف کے آخری ایام میں بھی میڈیا سمیت سیاسی گروہوں کی بے خوف مزاحمت ہی نے بالآخر مطلق العنان آمر کی طاقتور حکومت کو زوال کی دلدل میں دھکیلا تھا۔ 
وہ باتیں‘ جنہیں پہلے لوگ سوشل میڈیا پہ کرنے سے گھبراتے تھے‘ آج مین سٹریم میڈیا پہ ببانگ دہل دہرائی جا رہی ہیں۔ جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری کی طرف سے آزادی مارچ کے دوران خفیہ ملاقاتوں کی تفصیلات کا نجی ٹی وی چینلز پہ افشا کرنا اسی رجحان کی نمایاں مثال ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس سے قبل 16 ستمبر کو آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اور دو وفاقی وزراء سمیت کم و بیش ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی لیڈر شپ سے خفیہ ملاقات کا ایجنڈا اگرچہ گلگت بلتستان کے متوقع الیکشن سے جڑے نیشنل سکیورٹی ایشوز پہ قومی اتفاق رائے کا حصول تھا لیکن بدقسمتی سے سابق وزیراعظم نوازشریف کی تقریر کے غیر معمولی اثرات نے نیشنل سکیورٹی سے وابستہ کوآرڈی نیشن جیسے نازک عمل کو بھی تنازعات کی گرد میں لپیٹ دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی سلامتی پالیسی ملک کو درپیش خطرات کے وسیع تجزیے اور ان کے تدارک کی جامع منصوبہ بندی پہ محیط رہتی ہے؛ تاہم یہاں قومی سلامتی پالیسی کی تشکیلِ پیہم اور اس پر عمل درآمد کے لئے رہنمائی کا میکنزم ہمیشہ تنازعات میں الجھا رہا ہے ۔
اس پوری جدلیات کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی ٹائمنگ کافی اہمیت کی حامل تھی۔ گلگت بلتستان کے مقدر کا فیصلہ ہونے کے موقع پہ سیاسی تنازعات کی دھار کو تیز کرنا نہایت سمارٹ مگر خطرناک پیش دستی ثابت ہوئی؛ چنانچہ اے پی سی کی سرگرانی نے جی بی کے متوقع انتخابات کو زیادہ حساس بنا دیا ہے۔ اب ہم سب کی بھلائی اسی میں ہو گی کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے بعد ہی وہاں نئے الیکشن کرانے کا منصوبہ تیار کرے‘ بصورتِ دیگر جلدی میں کرائے گئے انتخابات کے غیر متوقع نتائج ریاست کی مشکلات بڑھا دیں گے۔
ہماری سیاست کے قومی دھارے میں چونکہ جی بی کی کوئی آواز موجود نہیں ہے اس لئے وہاں کے سیاسی گروہوں کی اصل سوچ سے ہم واقفیت نہیں رکھتے‘ لہٰذا ہم سب کی بھلائی اسی میں ہو گی کہ گلگت بلتستان میں انتخابات کے عمل کو ملک میں قومی اتفاقِ رائے کے حصول کے ساتھ منسلک رکھا جائے کیونکہ الحاق کے عمل کی تکمیل کے لئے صرف جی بی اسمبلی کے انتخابات میں مطلوبہ نتائج کا حصول ہی کافی نہیں ہو گا بلکہ ان تمام معاملات کو آخر کار پارلیمنٹ میں بھی لانا پڑے گا اورکسی آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے دوتہائی اکثریت لینے کی خاطر پھر انہی دونوں بڑی جماعتوں کی حمایت درکار ہوگی جنہیں سسٹم نے منقارِزیر پر رکھا ہوا ہے؛ چنانچہ ان حالات میں اتفاقِ رائے کا حصول پہلے سے زیادہ دشوار ہو جائے گا۔ حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ صرف جی بی ہی نہیں پھر آزاد کشمیر کا انضمام بھی ناگزیر ہو جائے گا لیکن ان نازک معاملات کو سلجھانے کی خاطر وسیع تر قومی اتفاق رائے کا امکان بتدریج گھٹتا جا رہا ہے۔
ہمارے ماحول کے تلخ حقائق یہ بھی ہیں کہ ایک ایسی ریاست، جہاں قومی تعلقات کمزور ہیں اورجسے وسائل اور انسانی صلاحیتوں کی کمی کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر معاشرتی اور معاشی اکائیوں کی سمت کے تعین کا بحران بھی درپیش ہو‘اسے ایک جدید قومی ریاست کے طور پہ کیسے ابھارا جائے؟ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہو گی کہ جب فیصلہ سازوں کو علم ہو کہ سماجی و سیاسی ابلاغ کو ہموار بنانے، باصلاحیت رجال کار کی تیاری کا ہدف حاصل کرنے اور قوم کی نظریاتی حدودکا تعین ہمیں استبداد سے نجات دلا سکتا ہے تو وہ قومی اتفاق رائے تک پہنچنے میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں۔ علی ہٰذا القیاس! 
اس اذیت ناک کشمکش کا ایک مثبت پہلو بھی ہے ‘ وہ یہ کہ اپوزیشن کی سیاسی تحریک جس پہ مذہبی تنازعات کا رنگ غالب دکھائی دیتا تھا‘ اب جمہوری نعروں کی نرماہٹ میں ڈھل رہی ہے، بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے حکومت مخالف تحریک کو مذہبی تعصبات کے غلبے سے بچانے کی خاطرمولانا فضل الرحمن کو قائل کر کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو معمول کے سیاسی وظائف کی طرف لانے میں کامیابی پا لی ہے۔ بظاہر اس حکومت مخالف تحریک کے غیر مذہبی نام کے تعین پہ اتفاق رائے اور پی ڈی ایم کی تخلیق کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمن کے لب و لہجہ میں جمہوریت کی چاشنی ہماری سیاست میں خوشگوار پیش رفت ثابت ہو گی۔ جے یو آئی جو شدت کے ساتھ اپنی تحریک کو مذہبی نعروں سے سنوار رہی تھی‘ اب اپنی قوت کو صرف سیاسی جدوجہد پہ مرتکز کر کے قوم کو مزید تقسیم ہونے سے بچا لے گی۔ 
پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی ٹائمنگ کافی اہمیت کی حامل تھی۔ گلگت بلتستان کے مقدر کا فیصلہ ہونے کے موقع پہ سیاسی تنازعات کی دھار کو تیز کرنا نہایت سمارٹ مگر خطرناک پیش دستی ثابت ہوئی؛ چنانچہ اے پی سی کی سرگرانی نے جی بی کے متوقع انتخابات کو زیادہ حساس بنا دیا ہے۔ اب ہم سب کی بھلائی اسی میں ہو گی کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے بعد ہی وہاں نئے الیکشن کرانے کا منصوبہ تیار کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved