اے پی سی کا انعقاد بذاتِ خود کوئی معمولی بات نہیں تھی، اپوزیشن جماعتیں اعلیٰ ترین سطح پر اکٹھی ہوئیں، اور اپنے مخالفوں کو حیران کر گئیں، لیکن ان کے اجتماع سے بڑا دھماکہ یہ ہوا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے طویل خطاب کیا، اور اس میں وہ سب کچھ کہہ ڈالا، جو کہنا چاہیے تھا یا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اپنے بیانیے کو نہ صرف دُہرایا، بلکہ مزید زور دار بنایا۔ ریاست کے اندر ریاست سے بات بڑھا کر ریاست کے اوپر ریاست تک پہنچا دی، اور دور و نزدیک اپنے وجود کا احساس دِلا دیا۔ اس کے بعد عسکری قیادت سے سیاست دانوں کے رابطوں کی تفصیلات منظر عام پر آنے لگیں، ''میدانِ خطابت کے جرنیل‘‘ شیخ رشید احمد میدان میں آ نکلے، اور یکے بعد دیگر انکشاف کرتے چلے گئے۔ خفیہ ملاقاتوں کی کچھ باتیں بتائیں، کچھ مزید بتانے کی دھمکی دی۔ یہاں تک کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی یہ اعلان کرنا پڑا کہ سندھ کے سابق گورنر صاحب نے‘ جو مسلم لیگ (ن) کے سرخیلوں میں شمار ہوتے ہیں، یکے بعد دیگرے دو ملاقاتیں چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے اپنی خواہش پرکیں، اور ان کے سامنے اپنے لیڈروں کے معاملات رکھے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ معاملات قانون کی عدالت میں طے ہوں گے یا سیاست کی عدالت میں کہ جسے پارلیمنٹ کہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی زیر بحث آ گئے، شیخ صاحب نے ان کی طرف بھی انگلی بلکہ انگلیاں اٹھا دیں تو ان کے سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری ٹی وی سکرین پر اترے اور بتایا کہ ان کے آزادی مارچ کے موقع پر مولانا اور ان کے رفقا کی ملاقات براہِ راست ہوئی تھی، واقعات کو طشت از بام کرنے کا آغاز جو کچھ سوچ کر کیا گیا تھا، وہ تو شاید پورا ہو گیا ہو، لیکن معاملہ بہت آگے بڑھ گیا تھا۔ یہاں تک کہ جناب شیخ نے مولانا فضل الرحمن کو ''بڑا بھائی‘‘ قرار دیتے ہوئے سلسلۂ انکشاف کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
عسکری قیادت سے پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوں کی ملاقات کی خبر اگرچہ جاری نہیں کی گئی لیکن اسے خفیہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ سب کچھ سب کے سامنے تھا۔ تین گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات کا بنیادی مقصد تو گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے تبادلۂ خیال تھا۔ وہاں موجود انتظامی صوبے کے حوالے سے مبینہ طور پر بے اطمینانی پائی جاتی ہے، عرض یہ کیا گیا کہ اس علاقے کے درجات کی بلندی کے لیے جو کچھ بھی کیا جائے، وہاں نومبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد کیا جائے۔ ایک وفاقی وزیر اس ارادے کا اظہار کر چکے تھے کہ وزیر اعظم عمران خان انتظامی صوبے کو آئینی بنانا چاہتے اور یوں گلگت بلتستان کا ''احساسِ محرومی‘‘ دور کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی اعلان انتخابی عمل کو متاثر کرنے کا سبب گردانا جا سکتا، اور اسے ''پری پول رگنگ‘‘ کا نام دیا جا سکتا تھا، اس لیے اس معاملے کو مؤخر کرنے پر زور دیا گیا۔ کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں، اس لیے ان کا سٹیٹس مستقل طور پر تبدیل کرنا مسئلہ کشمیر کو الجھانے کے مترادف ہو سکتا ہے، اسے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بھارتی عزائم کی توثیق سمجھا جا سکے گا، اس لیے الفاظ کے چنائو میں احتیاط کی جائے۔ جو کچھ بھی ہو، عارضی اور عبوری ہو... (ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ ریفرنڈم کرایا جائے، دوسرا موقف یہ ہے کہ نومنتخب اسمبلی اس حوالے سے قرارداد منظور کرے)... اس ملاقات میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر تو موجود تھے، لیکن آزاد کشمیر کی بڑی اور بنیادی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کا کوئی نمائندہ نہیں تھا۔ اس کمی کا احساس بھی کیا جانا چاہیے تھا، بہرحال جو ملاقات گلگت اور بلتستان کے معاملے کو سلجھانے کے لیے ہوئی تھی، اس میں پاکستان کے سیاسی معاملات بھی زیر بحث آ گئے، بقول سراج الحق جہاں سیاست دان ہوں گے، وہاں سیاست بھی ہو گی۔ اگر کوئی کہے کہ وہ سیاست پر بات نہیں کریں گے تو یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کہا جائے کہ عورتوں کی ایک محفل میں مکمل خاموشی تھی۔
اس مشاورت کے چند روز بعد اے پی سی کی دھواں دھار تقریریں اور اعلامیہ سامنے آیا، تو پھر یہ بتانے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ مقتدرہ سے سیاست دانوں کی ایک مشاورتی مجلس منعقد ہوئی تھی اور یہ کہ وہاں واضح کر دیا گیا تھا سیاسی معاملات سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات یوں بھی درست ہے کہ سیاسی جماعتوں کے بارے میں عوام کی پسند، ناپسند تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ عوام ایک وقت میں زندہ باد، اور دوسرے وقت میں مردہ باد کے نعرے کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے بلند کر سکتے ہیں، لیکن فوج قومی ادارہ ہے، اس کے لیے سب کی پسند ہمیشہ یکساں رہنی چاہیے۔ اس کے لیے صرف زندہ باد ہے، کسی اور نعرے کے بھنور میں اسے پھنسانا یا الجھانا حب الوطنی کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب قومی ادارہ سیاست سے الگ بلکہ بالاتر رہے۔ دستور کے تحت قائم حکومت کی تو اسے حمایت (بلکہ اطاعت) کرنا ہوتی ہے، لیکن اس کا مطلب برسر اقتدار سیاسی جماعت کی حمایت نہیں ہے۔
ملاقاتوں کی جو باتیں ہونٹوں سے نکل کر کوٹھوں چڑھی ہیں، ان پر اعتراض اُس وقت کیا جا سکتا ہے جب وہ وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر یا اس کے علی الرغم ہو رہی ہوں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وزیر اعظم اپنے سیاسی حریفوں سے بات کرنے کا یارا رکھتے ہیں نہ ارادہ، اس لیے انہوں نے یہ معاملہ مقتدرہ کے سپرد کر رکھا ہے کہ یوں ان کی راہ ہموار ہوتی رہے۔ انتخابات کے بعد کسی بھی قومی مسئلے پر اپوزیشن رہنمائوں کی وزیر اعظم سے بامعنی مشاورت ممکن نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپوزیشن کے بارے میں چور اور ڈاکو کی گردان جاری رکھی ہے، جو کچھ طے پاتا رہا، وہ ان کی ''غیر حاضری‘‘ ہی میں طے پایا۔ وزیر اعظم اپنی سیاسی اور آئینی ذمہ داریاں براہِ راست پورا کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اب طبلِ جنگ بج رہا ہے‘ اپوزیشن سڑکوں پر آنے کے پروگرام بنا رہی ہے۔ وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اپوزیشن کا دماغ درست کرنے کے لیے دوسرے موجود ہیں، وہ خود اس سے نمٹ لیں گے۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم کو دستور کے تحت پانچ سال تک حکومت کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ بھی نظر انداز نہ کیا جائے کہ انہیں سو فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں اکیاون فیصد نشستیں حاصل کرنے والے انچاس فیصد کو حزبِ اختلاف کے بینچوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس عددی اکثریت کو مختارِِ کل بننے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے 16,903,703 ووٹ حاصل کیے تھے، جبکہ مسلم لیگ (ن) 12,934,589 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھی۔ پیپلز پارٹی کو 6,924,356 ووٹروں کو تائید حاصل تھی۔ ایم ایم اے (مولانا فضل الرحمن) کے 2,573,939 ووٹ آئے تھے۔ گویا کل ڈالے گئے ووٹوں کا 31.82 فیصد تحریک انصاف، 24.35 فیصد مسلم لیگ (ن)، 13.03 فیصد پیپلز پارٹی اور 4.85 فیصد مولانا فضل الرحمن نے حاصل کئے تھے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ کوئی حکومت محض عددی اکثریت کے بل پر بلا شرکتِ غیرے معاملات چلا سکتی اور اپوزیشن کے ساتھ جو بھی سلوک چاہے روا رکھ سکتی ہے، تو یہ ایسا خیال ہو گا، جس کا خام ہونا ہماری تاریخ میں بار بار ثابت کیا جا چکا ہے۔ وزیراعظم پر لازم ہے کہ وہ اپنے منصب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنا کام آپ کریں، دوسرے اداروں کو اس میں نہ الجھائیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)