جب کووڈ19کی طرح کی وبا پھیل جائے تو ریاستی سرحدیں بے معنی ہو جاتی ہیں‘ لہٰذا ایسی وبا کے سدِباب کے لئے منصوبہ کرتے ہوئے اس کے عالمی سطح تک پھیل جانے کی خاصیت کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ کووڈ19 کے تباہ کن اثرات کو ریاست اور معاشرے کے لئے غیر فوجی خطرے کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ یہ اثرات داخلی سکیورٹی‘ سماجی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام ‘ سب کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ اگر ایسی وبا کا مناسب سدِ باب نہ کیا جائے تو اس کے تباہ کن اثرات ایک ملک کے کسی دوسرے ملک پر حملے کے نتیجے میں ہونے والے اثرات سے کسی طور کم نہیں ہوتے۔ کورونا وائرس تمام ممالک کی قومی سلامتی کو لاحق ایسا ہی ایک خطرہ ہے۔
جب نومبر 2019میں چین کے علاقے ووہان میں کورونا وائرس کے پھیل جانے کی خبر پہلی بار سنی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ جلد ہی باقی ساری دنیا کیلئے بھی ایک بڑا خطرہ بن جائے گا اور دنیا بھر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد عالمی وبا کی زد میں آ جائے گی۔ اس کے تیزی سے پھیل جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فروری‘ مارچ 2020 میں جب اس وائرس نے دوسرے ممالک کو متاثر کرنا شروع کیا تو کچھ ممالک کی حکومتوں نے ابتدائی طور پر اسے سنجیدگی سے نہ لیا؛ تاہم مارچ کے آخر تک واضح ہو چکا تھا کہ انسانیت کو ایک مہلک طبی چیلنج کا سامنا ہے‘ جس سے موثر طریقے سے نمٹنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وبا ان ممالک میں بھی تیزی سے پھیلی‘جہاں بہترین طبی سہولیات موجود تھیں‘ ان غریب ممالک کی تو بات ہی کیا کی جائے‘ جہاں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات نہایت محدود ہیں۔ چونکہ اس وائرس سے تحفظ کے لئے کسی قسم کی کوئی ویکسین موجود نہیں تھی‘ چنانچہ زور اس بات پر دیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ حفاظتی اقدامات کئے جائیں‘ جیسے شہروں اور قصبوں میں لاک ڈائون‘ سماجی فاصلہ اختیار کرنا‘ گھروں میں بند رہنا اور سینی ٹائزر و فیس ماسک کا استعمال کرنا۔
کورونا وائرس کا پہلا بڑا حملہ تقریباً ختم ہو چکا ہے‘ لیکن بہت سے ممالک میں یہ لوگوں کی زندگیوں کیلئے اب بھی خطرہ ہے اور ان ممالک میں حکومتیں اورعوام حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ کچھ ممالک اب اس عالمی وبا کی دوسری لہر کا سامنا کررہے ہیں۔ غالباً ہمیں اگلے سال کی پہلی سہ ماہی تک اس خطرے کا مسلسل سامنا کرنا پڑے گا۔ چونکہ یہ ایک بین الاقوامی خطرہ ہے؛ چنانچہ اس کے تباہ کن مضمرات سے نمٹنے کے سلسلے میں ریاستوں اور حکومتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ناگزیر ہے۔
کووڈ 19نے بہت سے ممالک کو بڑھتی ہوئی بیروزگاری‘ غربت اور ترقی کی رفتار میں کمی جیسے گمبھیر معاشی چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے‘ حتیٰ کہ مغرب کے ترقی یافتہ مما لک میں بھی عوام کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو چکی ہے‘ یا ان کے کاروباروں کو لاک ڈائون کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یورپ اور شمالی امریکہ کے امیر ممالک میں بھی کم از کم چار ماہ سے ہوٹل‘ ریسٹورنٹس‘ ٹورازم‘ ٹریولنگ سے متعلق کاروبار اور کیٹرنگ سروسز ٹھپ ہو چکی ہیں۔ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں صورتحال بت حد گمبھیر ہو چکی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں لاک ڈائون کی وجہ سے کاروبار اور کمرشل سرگرمیوں کی بندش نے عام لوگوں کیلئے شدید مالی مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ سب سے زیادہ مشکلات ان لوگوں کیلئے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرتے ہیں یا پھر ان کیلئے جو غیر روایتی اکنامک سیکٹرز میں کام کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو براہ راست یا بالواسطہ تعلیمی عمل سے منسلک ہیں یا وہ جو اشیا کی نقل و حرکت کے ذمہ دار ہیں‘ سب بیکار بیٹھے ہیں۔ ایسے زیادہ تر ممالک میں پہلے پہل بیروزگار آبادی کیلئے حکومت کی جانب کوئی مالی امداد فراہم نہیں کی گئی۔ ان کا انحصار اپنے خاندان یا دوستوں پر ہے یا پھر یہ اپنے اخراجات کیلئے قرضہ حاصل کر رہے ہیں؛ تاہم بعد ازاں ریاست کی جانب سے ان کی تھوڑی بہت مالی مدد کی گئی۔ مخیر حضرات اور متعدد غیر سرکاری گروپوں نے بھی ان کی مدد کی اور انہیں راشن فراہم کیا۔
امیر صنعتی ممالک کو کورونا وائرس کی وجہ سے مرتب ہونے والے منفی معاشی اثرات سے نکلنے کے سلسلے میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے ایک مثبت پیش رفت یہ ہے کہ عالمی بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ چین کے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک(اے آئی آئی بی) ‘ کچھ مغربی ممالک نے ذاتی حیثیت میں اور جاپان نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کی مالی مدد کی تاکہ وہ کورونا وائرس سے ہونے والے اپنے نقصانات پر قابو پانے کے قابل ہو سکیں۔ ان ممالک اور اداروں نے تری پذیر ممالک کو نئے قرضے دئیے‘ اقتصادی گرانٹس فراہم کیں‘ اپنے قرضوں کی واپسی کو ملتوی کیا اور تحفے کے طور پر طبی آلات فراہم کئے ہیں۔ اس امداد سے ترقی پذیر ممالک میں امن اور استحکام برقرار رکھنے میں مدد ملنے کی توقع ہے۔مدد نہ کی جاتی تو یہ ممالک معاشی بحرانوں کا شکار ہو جاتے‘ ان میں غربت بڑھ جاتی اور ترقی کی رفتار ست پڑ جاتی۔ اس کے منفی اثرات ترقی یافتہ صنعتی ممالک پر بھی مرتب ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں غریب اور ترقی پذیر ممالک کی مدد کرکے ترقی یافتہ ممالک نے دراصل اپنی ہی مدد کی ہے۔ کورونا وائرس نے قومی سلامتی کاجامع انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت بھی اجاگر کی ہے۔ سرحدوں پر سکیورٹی پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی بہبود کا خیال رکھنا بھی لازم ہے۔ سماجی و معاشی بہبود کو نظر انداز کیا جائے تو معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ کورونا وائرس نے اس ضرورت کو اجاگر کیا ہے کہ ریاستوں کو صحت اور معاشرتی بہبود کیلئے مزید وسائل مختص کرنے چاہئیں۔ کسی ریاست کی قومی سلامتی کیلئے داخلی امن اور ہم آہنگی اہم ہے۔
کورونا وائرس کا معاملہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان سیاسی مخاصمت کا باعث بھی بن چکا ہے۔ امریکی صدر کورونا وائرس کے بجائے اسے چائنا وائرس کہتے ہیں تاکہ اس کے پھیلائو کا الزام چین پر آئے۔ امریکہ نے عالمی ادارہ صحت سے محض اس بنا پر الگ ہونے کا فیصلہ کیا کہ اس نے کورونا وائرس کی وبا کے پھوٹ پڑنے کے بارے میں امریکی موقف کی تائید نہیں کی تھی۔ پھر امریکہ‘ چین‘ روس اور برطانیہ میں اس وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی بھی دوڑ لگی ہوئی ہے۔جو ملک بھی سب سے پہلے ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو گا‘ اسے دوسرے ممالک پر ڈپلومیٹک برتری حاصل ہو جائے گی کیونکہ پوری دنیا کے ممالک اس کی طرف رجوع کریں گے تاکہ جتنا جلد ممکن ہو سکے اپنے عوام کے لئے ویکسین حاصل کر سکیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چین اور روس ویکسین کے سلسلے میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے اب تک کئے گئے کام کی تفصیلات چرانے کی کوشش میں ہیں۔
اس وبا کا ایک اور اثر یہ ہے کہ امسال بہت کم سربراہانِ مملکت و حکومت اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کیلئے نیو یارک گئے ہیں۔ زیادہ تر اپنے اپنے دارالحکومتوں میں بیٹھ کر کمیونی کیشن کی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے چلنے والی جدید انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجیز پر کام کرنے والی امریکی کمپنیوں نے انٹرنیٹ کے تحت اجلاس‘ کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کرانے کے رجحان سے خاصا فائدہ اٹھایا ہے۔یہ وبا انسانی روابط کے معاملات میں بہت سی دور رس تبدیلیوں کا باعث بنی ہے اور ان تبدیلیوں نے وبا کے بعد کی دنیا کو وبا سے پہلے کی دنیا کی نسبت مختلف بنا دیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے چلنے والے سسٹمز کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ براہ راست فوجی مداخلتوں کے خطرات نچلی سطح پر رہیں گے‘ لیکن غیر فوجی چیلنجز‘ قدرتی یا انسانی پیدا کردہ آفات‘ زیادہ بڑا خطرہ ثابت ہوں گے۔ ان حالات میں وہی ریاستیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں گی‘ جو اپنی معیشتوں کو پھیلتا پھولتا رکھیں گی ‘ انسانی ترقی پر زیادہ وسائل خرچ کریں گی اور داخلی سماجی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کیلئے کام کرتی رہیں گی۔