نواز شریف سزا یافتہ نہیں، انتقام یافتہ ہیں: مریم نواز
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور مفرور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف سزا یافتہ نہیں، انتقام یافتہ ہیں‘‘ بلکہ انعام یافتہ ہیں کیونکہ جو کارنامے انہوں نے سر انجام دیئے تھے وہ اسی انعام کے مستحق تھے جس سے وہ سرفراز ہو چکے ہیں۔ چچا جان اور اُن کے اہل خانہ بھی غالباً عنقریب اپنا اپنا انعام حاصل کرنے والے ہیں حتیٰ کہ ان کے علاوہ بھی پارٹی کے کئی بزرجمہر اس سعادت سے فیض یاب ہونے کے منتظر ہیں اور اس میں زیادہ نہیں چند ہفتوں ہی کی دیر ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔[
ابھی ملاقاتیں، فون ڈیٹا لیک کیا تو قیامت آ جائے گی: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ابھی ملاقاتیں بتائی ہیں، فون ڈیٹا لیک کیا تو قیامت آ جائے گی‘‘ اور چونکہ میں جلد ہی یہ کام بھی کرنے والا ہوں اس لیے ہر کوئی اپنا اپنا اعمال نامہ ہاتھ میں پکڑے اور قیامت کا انتظار کرے اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم تو ویسے ہی بخشے ہوئے ہیں‘ اس لیے ہمارے ساتھ تو سوال جواب ہی نہیں ہو گا اور اگر ہوا بھی تو خاکسار دوسروں کی طرف سے بھی ہر سوال کا جواب خود دے گا اور یہ قیامت زیادہ تر اپوزیشن والوں ہی کے لیے ہو گی جنہیں احتساب کے ذریعے سوال جواب کی عادت بھی پڑ چکی ہے اور وہ فرشتوں کی جے آئی ٹی کا بھی سامنا کریں گے۔ آپ اگلے روز مغل پورہ میں شجر کاری مہم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
حکمران عوام کو نچوڑنے ‘گردن مروڑنے میں ماہر : سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمران عوام کو نچوڑنے اور گردن مروڑنے میں ماہر ہیں‘‘ حالانکہ وہ دونوں میں سے ایک کام پر بھی اکتفا کر سکتے تھے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام مناسب ہے جو زیادہ نفاست اور کامیابی سے کیا جا سکتا ہے جیسے کہ میرا کام صرف تقریر کرنا ہے جس کے ذریعے میں حکومت کے چھکے چھڑاتا رہتا ہوں جو اس سے پہلے کوئی نہیں چھڑا سکا تھا، علاوہ ازیں، جب سارا خون ہی نچوڑ لیا جائے، تو پھر گردن مروڑنے کی ویسے بھی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی اور یہی صورتحال گردن مروڑنے کی ہے اور اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی کام کر کے جملہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ آپ اگلے روز منصورہ میں خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن احتساب روکنے کا ایجنڈا چاہتی ہے: فواد چوہدری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن صرف احتساب روکنے کا ایجنڈا چاہتی ہے‘‘ اور اس طرح صرف اپنا وقت ہی ضائع کر رہی ہے کیونکہ احتساب تو خود انہیں بھی بیحد سوٹ کرتا ہے کہ گرفتاریوں اور عدالتوں میں پیشیوں سے ان کی خواہ مخواہ مشہوری ہو رہی ہے جبکہ احتساب اور مقدمات سے بھی ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ قبل از گرفتاری سے لے کر آخر تک وہ ضمانت کے مزے لوٹتے ہیں اور سزایابی کی نوبت بھی کبھی کبھار ہی آتی ہے جس کے خلاف بھی اپیل کے دروازے کھلے ہیں جبکہ اپوزیشن کے لیے اس سے اچھی مصروفیت بھی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ ان کے لیے یہ آم کے آم ہیں اور گٹھلیوں کے دام۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
ڈرانے کی کوشش نہ کی جائے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نیب کے ذریعے ڈرانے کی کوشش نہ کی جائے‘‘ کیونکہ جب سے میرے دستِ راست کو پکڑا گیا ہے اور میرے خلاف رشوت ستانی وغیرہ کا نوٹس جاری ہوا ہے، ہم پہلے ہی کافی خوفزدہ ہیں اور ایک ڈرے ہوئے آدمی کو مزید ڈرانا ایسے ہی ہے جیسے گھوڑے کی کاٹھی پر ایک اور کاٹھی ڈالنے کو کہا جائے جبکہ ڈرانے والے ڈراتے ہی نہیں ساتھ ساتھ دھمکاتے بھی ہیں ‘حالانکہ ایک ڈرے ہوئے آدمی کو دھمکانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ مجھے حکومت کے خلاف تحریک وغیرہ چلا لینے دیتے اور پکڑ دھکڑ کو ذرا ملتوی کر دیتے۔ آپ اگلے روز جیکب آباد میں وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
نواز حکومت اور فوج کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''نواز شریف حکومت اور فوج کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں‘‘ حالانکہ کوئی بھی ایسا نہیں کرنا چاہتا‘اور ہم سچ پوچھیں تو کچھ بھی نہیں کر رہے اور محض عزت کے ساتھ اپنا وقت پورا کر رہے ہیں اور قدرت کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور عوام ہمارا تماشا دیکھ رہے ہیں‘ بلکہ عوام ہمارا اور اپوزیشن دونوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور یہ کہ جس طرح کے عوام ہوں حکمران بھی ویسے ہی ہوتے ہیں ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ڈائریکٹرز نیوز سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
ہوٹل میں
ملگجی جگمگاہٹ
اور لفٹ کی دھیمی روشنی میں
نامانوس مہک کی لپٹیں
گہری نیلی آنکھیں
التفات کے رس میں لرزتے ہونٹ
قدیم آشنائی کی دھمک میں
ساتھ ساتھ چلتے ہوئے قدم
نیم وا دروازہ
اور چاندانی کی لہروں کی طرح
شب بخیر کہتے
ہلتے ہوئے ہاتھ۔۔۔۔
رات کی کروٹوں میں
انتظار کی شکنیں
دراڑیں ڈالتی ہوئی
دیوار کی آواز۔۔۔۔
اور صبح کے ماتھے پر
داغ کی طرح چسپاں
''چیک آئوٹ‘‘ کا کارڈ۔۔۔۔
میں جا رہا ہوں اس ستارے کے تعاقب میں
اجنبی آسمانوں میں
اور اینٹوں جیسی رنگت والے راستوں پر
ٹوٹی ہوئی نیند کا خمار لیے
عمر سے، ہمیشہ کے لیے
جدا ہو جانے والے لمحے کو ڈھونڈھنے
تیز موسیقی میں
بار روم کے فلور پر
ماتم جیسے رقص میں شامل ہو کر۔۔۔۔
خواب کی چوکھٹ پر
توڑ دیئے جانے کی چیز ہے
یہ زندگی!
آج کا مطلع
اونچی آواز میں تھا جس کو پکارا میں نے
نام بھی پھر نہ لیا اُس کا دوبارہ میں نے