تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-09-2020

’’اب ان کی کوئی ضرورت نہیں‘‘

8 اگست کی رات جودھ پور راجستھان میں پاکستان سے گئے بھیل قبیلے کے ہندو شرنارتھیوں کے گیارہ افراد پر مشتمل بدھو رام کا گھرانہ ایسا سویا کہ پھرکبھی اٹھ نہ سکا۔ ان کے پاس رکھے کاغذ پر لکھا تھا کہ وہ سب اجتماعی خود کشی کر رہے ہیں۔ جودھ پور راجستھان کے پولیس سٹیشن ریچھو کے ایک چھوٹے سے گائوں لودت میں یہ ہندو خاندان چند ہفتوں کے ویزے پر پاکستان سے بھارت پہنچا تھا۔ یہ ویزے انہیں ایک ویزہ ایجنٹ نے بغیر کسی معاوضے کے دلوائے تھے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والایہ بھیل خاندان جودھ پور میں چند روز اپنے رشتہ داروں کے پاس رہا اور ایک صبح جیسے ہی انہوں نے ہندوئوں کے مقدس مقامات پر جانے کاا رادہ کیا تو گائوں کے مکھیا نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ ابھی شہر سے سرکار کے کچھ افسر تمہیں کیمپ میں لے کر جائیں گے جہاں تم لوگوں سے جو بھی سوال کریں‘ کوئی بات پوچھیں تو تم نے انہیں وہی بتانا ہے جو تمہیں سمجھایا ہو گا ۔ انہیں سبز باغ دکھائے گئے کہ انہیں چند دن اس کیمپ میں رہنا پڑے گا اس کے بعد سرکار کے خرچے پر ان کو سب یاترائیں کروائی جائیں گی‘ بس انہیں کیمپ میں چند روز ہی رہنا پڑے گا جہاں سب کی اچھی طرح دیکھ بھال ہو گی۔کیمپ پہنچنے کے اگلے روز وہاں صبح شام میڈیا کے کیمروں کا میلہ لگ گیا جن کے سامنے انہیں ''پاکستان میں ہندوئوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی خوفناک کہانیاں‘‘ سنانے کا کہا جاتا ۔انہیں چند روز کا کہہ کر کیمپ میں لایا گیا تھا لیکن انہیں زبردستی دوسال تک اس کیمپ میں رکھا گیا جہاں نہ بجلی تھی اور نہ ہی ان کے نہانے یا رفع حاجت کیلئے کسی قسم کا بندوبست تھا۔ دو سال بعد بدھو رام کو راجستھان کے اس گائوں میں بھیج دیا جہاں اسے کچھ زمین اور جھونپڑی دی گئی‘ کچھ عرصہ گزرا تو انہیں کھیتوں کو پانی دینے کیلئے چھوٹی موٹریں اور ڈیزل مفت میں دیا جانے لگا‘ لیکن جیسے ہی نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس دوبارہ انتخابات جیت گئی تو دوسرے ہی ماہ ان کی پانی کی موٹریں اور ڈیزل سمیت سب کچھ واپس لے لیا گیا۔ بدھو رام کی جوان سال بیٹی لکشمی‘ جو نرس تھی‘ نوکری کے حصول کیلئے جودھپور جانے لگی تو پولیس اس سے سوالات کرنے لگی اور جب وہ واپس آتی تو مکھیا اسے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتاجس پر اس خاندان نے سخت مزاحمت کی لیکن یہ سلسلہ نہ رُکا۔ خود کشی سے ایک دن پہلے دو کانسٹیبل لکشمی کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے لگے جس پر اس کے بھائی کیول رام کا پولیس سے جھگڑا ہو گیا‘ جس پر مکھیا کے کہنے پر پولیس کیول را م کو اپنے ساتھ لے گئی ‘لیکن جاتے ہوئے لکشمی کو کہہ گئے کہ کل دوبارہ آ رہے ہیں اور اگر اپنے بھائی کو چھڑوانا ہے تو تھانے آ جانا ‘جس پر لکشمی نے دھمکی دی کہ اگر اسے مجبور کیا گیا تو وہ میڈیا کو سب کچھ بتا دے گی ‘ جس پر پولیس کا ان کی جھونپڑی پر پہرہ لگا دیا گیا اور زبان کھولنے پر انہیں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ شام کو خفیہ ایجنسی کے لوگوں نے ان کے کھانے میں بے ہوشی کی دوا ملا دی اور پھر ان سب کو زہریلے انجکشن لگا کر موت کی نیند سلا کر مشہور کر دیا کہ ان سب نے خود کشی کر لی ہے۔اس فیملی کا صرف کیول رام ہی زندہ بچا جو بھاگ کر شام کو کھیتوں میں چھپ گیا تھا ۔وہ جان گیا تھا کہ اب انہیں مار دیا جائے گا‘ ان سے کام لینے کے بعد ان کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔ 
پاکستان سے انڈین ہائی کمیشن کے ویزہ ایجنٹوں کے ذریعے بھارت بھجوائے جانے والے صرف ایک بدھو رام کی کہانی نہیں بلکہ سندھ سے انڈین ہائی کمیشن اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مفت ویزوں کا لالچ دے کر سینکڑوں ہندو خاندانوں کو بھارت لے جا کر وہاں کیمپوں میں رکھ کر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرواتا ہے تاکہ دنیا کو بتا یا جائے کہ پاکستان میں ہندوئوں کے ساتھ مذہبی طو رپر ظلم کیا جا رہا ہے۔ 70 سالہ بدھو رام جواس بھیل خاندان کے سربراہ تھے ‘انہیں جب پولیس اور انتظامیہ نے زمینیں اور جھونپڑی کیلئے جگہ دینے کی حامی بھری تو وہ وہی کچھ کہنے پر تیار ہو گئے جو انہیں کہا گیا تھا‘ بد قسمتی دیکھئے کہ جیسے ہی ان ہندو خاندانوں کے انٹرویو بھارتی میڈیا میں اچھلنا شروع ہوئے تو پاکستان میں کچھ مخصوص این جی اوزنے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے سندھ میں بسنے والے ہندوئوں کے خلاف ناروا سلوک جیسے الزامات کو نمک مرچ لگا کر ہوا دینا شروع کر دی۔ دوسری جانب غیر ملکی میڈیا کو بھی بھارتی ایجنسیاں اوردفتر خارجہ کے لوگ جودھپور کیمپ میں لا کر ان نام نہاد ہندو شرنارتھیوں سے خوفناک ظلم و ستم کی نت نئی داستانیں سنواتے ۔یہ سلسلہ اس قدر بڑھا دیا گیا کہ انسانی حقوق کی کچھ عالمی تنظیمیں بھی بھارتی پراپیگنڈے میں بہہ کر پاکستان کے خلاف کارروائی کا مطا لبہ کرنا شروع ہو گئیں‘ جن میں امریکی سینیٹ کے چنداراکین بھی شامل ہو گئے۔ 
مودی کے راشٹریہ ٹولے نے اس سے دو مقاصد حاصل کئے‘ جن میں ایک مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر بھارتی فوج کے ظلم و ستم سے عالمی توجہ ہٹاکر پاکستان میں اقلیتوں اور خاص طو ر پر ہندوئوں کے ساتھ ظلم و زیا دتی اور انسانی حقوق کی پامالی تو دوسرا اگلے عام انتخابات میں ہندو ووٹروں میں پاکستان کے خلاف انتہا پسندی کا جنون بڑھا کر پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کرنا شامل تھا۔ ان کا یہ حربہ کامیاب رہا اور جیسے ہی نریندر مودی دوسری مرتبہ کامیاب ہوگیاتو دوسرے ہی ماہ ان ورغلائے ہوئے ہندو شرنارتھیوں کیلئے مقرر کئے گئے ماہانہ وظیفے بند کر دئیے گئے اور ان کی زمینوں کیلئے ٹیوب ویلوں کوڈیزل کی مفت سپلائی بھی بند کر دی گئی‘ نتیجہ یہ نکلا کہ ان سب کو جانوں کے لالے پڑ گئے‘ نہ ان کی فصلیں اُگ رہی تھی اور نہ ہی سال میں دو مرتبہ بیج دیا جا رہا تھا۔ وہ کبھی کسی دفتر دھکے کھاتے تو کبھی کسی دفتر‘ لیکن کوئی بھی ان کی سننے والا نہ تھا ۔
ابھی10 ستمبر کی بات ہے گھوٹکی سندھ کا رہنے والا نانک رام اپنے خاندان کے آٹھ افراد کے ہمراہ کسی نہ کسی طریقے سے گرتا پڑتا پاکستان واپس پہنچا ‘اسے بھی ایک ویزہ ایجنٹ نے لالچ دیا تھا کہ اسے بھارت میں ہندوئوں کے مقدس مقامات کی یاترا کروانے کیلئے آسانی سے بھارت کا ویزہ دلوا یا جاسکتا ہے ۔ گھوٹکی سندھ کانانک رام اور اس کے خاندان کے لوگ مقدس مقامات پر ماتھا ٹیکنے کیلئے بھارت چلے گئے لیکن انہیں بھی وہاں پر شرنارتھیوں کے نام نہاد کیمپ میں ڈال دیا گیا جہاں دنیا بھرکے میڈیا کو بلا کر ان کو پاکستان کے خلاف رٹائے گئے بیانات سنانے کو کہا جاتا ۔نانک رام ہر آٹھ دس دن بعد کیمپ کے نگرانوں سے پوچھتا کہ انہیں وشنو مندر کب بھیجا جائے گا ؟جس پر اسے کہا جاتا کہ تم لوگوں کو ابھی کچھ عرصہ اور اسی کیمپ میں رہنا ہے ‘کیونکہ تم لوگوں کے ٹی وی انٹرویو پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں دیکھ چکی ہیں‘ اگر تم لوگ واپس گئے تمہیں اُٹھا لیا جائے گا ‘لیکن نانک رام جو بھارت کی اصل خباثت جان چکا تھا‘ کئی ماہ کی سر توڑ کوششوں کے بعد بھارت کے منہ پر تھوکتے ہوئے 10 ستمبر کو اپنے وطن پاکستان واپس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا‘ جہاں اس نے اپنی برادری اور گائوں والوں کو بھارت میں ان سے کئے جانے والے بد ترین سلوک سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں مفت میں ویزے دلوانے والوں سے آئندہ ہوشیار رہنے اور حکومت سے ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطا لبہ کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved