27ستمبر کو دنیا بھر میں سیاحت کا دن منایا جاتا ہے۔اس بار اس کا موضوع ہے'' سیاحت اور دیہی علاقوں کی ترقی‘‘۔کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی اور سیاحتی سرگرمیاں مانند پڑگئی تھیں‘ لیکن اب بہت سے ممالک معمول کی زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔پاکستان میں بھی سیاحتی مقامات دوبارہ کھل رہے ہیں اورسیاح بڑی تعداد میں شمالی علاقہ جات کا رخ کررہے ہیں۔پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہت خوبصورتی سے نوازا ہے۔ ایک طرف قراقرم ‘ ہمالیہ اور ہندوکش موجود ہیں تو دوسری طرف کھیت کھلیان اور دریا ہیں۔ ایک طرف ریگستان ہیں تو دوسری طرف جھیلیں ‘ آبشاریں اور سمندر ہیں۔چار موسم یہاں موجود ہیں‘ سردی‘ گرمی ‘بہار اور خزاں۔پاکستان میں قدیم تہذیب کے آثار بھی موجود ہیں جن میں ہڑپہ‘ گندھارا اور موہنجو داڈو شامل ہیں ۔شمالی علاقوں میں نایاب نسل کے جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں جبکہ گرم مرطوب علاقوں میں ہجرتی پرندے آتے ہیں۔اس کے ساتھ یہاں کے پکوان اور یہاں کی میزبانی بھی اپنی مثال آ پ ہے۔
آزادی سے پہلے بہت سی اقوام کی یہاں حکمرانی رہی‘ اس دور کی بھی سی نشانیاں بھی یہاں موجود ہیں۔ یونانی‘ ترک‘ عرب‘ مغل‘ ہندو‘ سکھ‘ افغان اور برطانوی یہاں پر حکمران رہے اور ان کی تعمیرات یہاں موجود ہیں۔ یہ اولیا کرام کی سرزمین ہے یہاں پر اسلام صوفیا کرام نے پھیلایا ‘ان کے مزارات بھی عوام کیلئے کشش رکھتے ہیں۔پاکستانی عوام متنوع ثقافت کے حامل ہیں‘ یہاں کا طرزِبودوباش ‘ادب‘ موسیقی‘ رسومات‘ کھانا پینا کثیر القومی ہے۔اس خطے میں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں اور لوک گیت اور رقص ثقافت کا حصہ ہیں۔اسی ثقافتی تنوع کو ہم اپنے ملک کی سیاحتی صنعت کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ست رنگی ثقافت اورفنونِ لطیفہ سب یہاں موجود ہے بس ہمیں علاقائی تنوع کے انضمام کی ضرورت ہے جس سے ہم پاکستانی کہلاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل یوٹیوبر Drew Binsky پاکستان آئے اور انہوں نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی۔ ان کے ایک اعشاریہ 89 ملین فالورز ہیں‘ اس ویڈیو کا عنوان تھا پاکستان میں سب کچھ فری کیوں ہے؟ Drew Binsky اور ان کی ٹیم جہاں جہاں گئے ان سے پاکستانی تاجروں نے پیسے نہیں لئے‘ انہوں نے بڑے مال سے کپڑے لئے‘ سڑک کنارے سے کھانے پینے کی اشیا لیں ‘لیکن تاجروں نے انہیں یہ بطور تحفہ دیں۔ڈریو نے کہا: میں نے 28000روپے جیب میں رکھے اور آٹھ دن گزرنے کے باوجود یہ پیسے میری جیب میں ہیں۔پاکستان کی میزبانی بہترین ہے ‘نہ مجھ سے کوئی کھانے کے پیسے لے رہا ہے نہ کوئی آئس کریم کے۔پشاور میں تاجروں نے مجھ سے پیسے نہیں لئے ‘ یہاں تک کہ کھیوڑہ کی کان دیکھنے کے بعد ہم نے لیمپ خریدے تو ہم سے پیسے نہیں لئے گئے۔انہوں نے کہا :پاکستان واحد ملک ہے جہاں سب مفت ہے اور اس کی وجہ پاکستانی کی اعلیٰ روایات ہیں۔پاکستانی بہت خوش اخلاق اور ہنستے مسکراتے لوگ ہیں۔اسی طرح Rosie Gabrielle اور Mark Wiens پاکستان آئے‘ دونوں کو پاکستان بہت اچھا لگا۔مارک وین مشہور فوڈ بلاگر ہیں‘ انہوں نے پاکستان کے تمام کھانوں کو عالمی دنیا میں متعارف کروایا ‘وہ پاکستان کے تمام صوبوں اور شمالی علاقوں میں گئے‘ وہاں کے کھانے کھائے بھی اور ان کا طریقہ بھی یوٹیوب اور فیس بک صارفین کو دکھایا۔اسی طرح جب شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ پاکستان آئے تو وہ بھی شمالی علاقہ جات کی سیر کیلئے گئے‘وہاں کے ثقافتی لباس پہنے اور کھانوں سے لطف اندوز ہوئے۔
پاکستان کے سیاح زیادہ تر شمالی علاقوں کا رخ کرتے ہیں‘ سب سے زیادہ لوڈ اس وقت مری پر ہے‘اس لئے حکومت کو دوسرے سیاحتی مقامات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔شمالی علاقوں کو جانے والی سڑکوں کو ٹھیک کیا جائے اور وہاں قیام و طعام کی اچھی سہولیات ہونی چاہئیں۔خیبر پختونخوا کے جو سیاحتی مقامات ہیں ان پر بھی توجہ دی جائے‘خاص طور پر جہاں بدھ تہذیب کے آثار ہیں‘تاکہ اس مذہب سے تعلق رکھنے والے سیاح یہاں آئیں۔جس طرح سکھ برادری کیلئے کرتار پور کھولا گیا ہے اسی طرح بدھ مت کے پیروکاروں کیلئے ان کی عقیدت کی جگہیں بھی کھولی جائیں اور وہاں پر قیام و طعام کی اچھی سہولیات دی جائیں۔ سیاحوں کیلئے سب سے اہم سہولت کھانا پینا‘ رہائش اور باتھ روم ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ انٹرنیٹ کی فراہمی اورسکیورٹی بھی ضروری ہے۔ جنوبی پنجاب ‘ سندھ ‘ بلوچستان اور کشمیر میں سیاحتی مقامات بنائیں کہ سیاح یہاں گھومنے پھرنے آسکیں ۔
سیاحت کے ساتھ ہینڈی کرافٹس اور لوکل موسیقی کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ سیاحتی مقامات پر ایسے سٹالز اور دکانیں ہونی چاہئیں جہاں سے سیاح مقامی دستکاریاں خرید سکیں۔ دستکاریوں کو آن لائن فروخت کیلئے بھی پیش کیا جائے۔کبھی کبھی میرا اتنا دل کرتا ہے کہ تقریب میں بلوچی سوٹ پہنوں‘ اجرک پہن کر جاؤں اور گھر پر سندھ کی ثقافتی رلیاں سجاؤں ‘لیکن یہ چیزیں ہر شہر میں دستیاب نہیں ہوتیں۔حکومت کو اپنے پورٹل پر لوکل اور غیر ملکی صارفین کیلئے رعایتی داموں پرپاکستان کی دستکاریوں کو فروخت کیلئے پیش کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ پاکستان کے پھل‘ میوہ جات اور سوغاتیں بھی آن لائن ملنی چاہئیں۔سرکاری ریسٹ ہاؤس عوام کی دسترس میں بھی ہونے چاہئیں۔تمام سیاح مہنگے ہوٹل نہیں افورڈ کرسکتے ‘اس لئے سیاحت کو حکومتی سطح پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔حکومت نے کچھ اہم سرکاری عمارتوں کو ریسٹ ہاؤس میں تبدیل کیا تھا ‘لیکن انکا رینٹ اتنا ہے کہ عام لوگ وہاں نہیں جاسکتے۔
اسلام آباد کی انتظا میہ نے حال ہی میں ثقافتی بس سروس شروع کی ہے جوکہ احسن اقدام ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ایسی سروس ہونی چاہیے تاکہ سیاح آرام سے شہر گھوم سکیں۔اس کے ساتھ شہروں میں موجود سیاحتی مقامات بھی بار بار تزئین و آرائش مانگتے ہیں‘جیسے اگر ہم اسلام آباد میں فیصل مسجد کو دیکھیں تو اسکو تزئین و آرائش کی ضرورت ہے۔مرغزار سے جانور جارہے ہیں اس لئے وہاں بھی نئے سرے سے تفریح گاہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر اسلام آباد کے ان پارکس کی بات کریں جو سیکٹرز میں بنے ہیں‘ ان میں اکثر کے جھولے ٹوٹ گئے ہیں اور بینچ بھی بیٹھنے کے قابل نہیں‘ اس لئے بڑے اور چھوٹے پارک حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں۔ اس وقت پاکستان کے مقامات موہنجوداڑو‘ٹیکسلا‘تخت بائی کے بدھ آثار‘شاہی قلعہ اور شالا مار باغ لاہور‘مکلی قبرستان ٹھٹھہ ‘قلعہ رہتاس جہلم‘ عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔ جو سیاحتی مقامات یونیسکو کے ثقافتی ورثے میں شامل ہیں ان کے پروٹوکول کا مکمل خیال کیا جائے‘ان میں عوامی یا نجی تقریبات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ سیاحتی مقامات کا خیال رکھیں اور گندگی مت پھیلائیں‘ثقافتی ورثے کو نقصان نہ پہنچائیں‘سیاح سب کا احترام کریں اور مقامی روایات کا خیال رکھیں۔پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے ہم سب کو مل کر اس کی خوبصورتی کو اجاگر کرنا ہوگا‘ ہمیں اپنی ثقافت کو دنیا کے سامنے روشناس کروانا ہوگا۔حکومت سیاحوں کیلئے اچھے انتظامات کرے اور شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں اور دنیا کو پاکستان کے تفریحی مقامات دیکھنے کیلئے اُکسائیں ۔یہاں پر حسین بلند و بالا چوٹیاں ہیں ‘ دیومالائی کہانیوں جیسی وادیاں ہیں ‘ دریا ہیں‘ جھلیں ہیں‘ آبشاریں اور سمندر ہیں‘ یہاں پر خوبصورت میدان اور ریگستان ہیں۔دنیا کی اہم تہذیبوں کے آثار یہاں پر موجود ہیں‘ اس کے ساتھ اہم تاریخی مقامات بھی یہاں ہیں۔پی ٹی وی اس ضمن بہت اچھا کردار ادا کرسکتا ہے ‘پاکستان کی ثقافت پر ڈاکیومینٹریز دکھائی جائیں۔علاقائی کہانیاں‘ لوک کرداروں اور ہیروز کو اجاگر کیا جائے۔قوم کی پہچان اس کی ثقافت‘ تہذیب و تمدن‘ زبان ‘رہن سہن اور رسوم و رواج ہیں۔ہم سب کو ان روایتوں کو آگے لے کر چلنا ہوگا۔ تو دیر کس بات کی‘ اب تو کورونا بھی تھوڑا کم ہوگیا ہے‘ کیوں نہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ سیاحت کی جائے۔