تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-09-2020

مٹی سے سونا نکالنے کا ہنر

کچھ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں۔ وہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں تو سونا نکالتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ قسمت کے ایسے دھنی کتنے ہوتے ہیں؟ بہت کم بہت ہی کم۔ زندگی اگر کسی کو بغیر کچھ کیے کچھ دے بھی دیتی ہے تو زیادہ دیر اُس کے پاس رہنے نہیں دیتی۔ دولت‘ عزت اور شہرت اُنہی کے پاس رہتی ہے جنہوں نے اُن کے حصول کے لیے خوب محنت کی ہو اور اُن کا حق ادا کرنے کی صلاحیت و سکت کے بھی حامل ہوں۔ 
مٹی سے سونا نکالنے کا ہنر کوئی بھی سیکھ سکتا ہے۔ قدرت نے کسی بھی انسان کو کامیابی کی طرف بڑھنے سے روکنے والی کوئی رکاوٹ نہیں بنائی۔ اگر ہماری راہ میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ یا تو ہماری اپنی پیدا کردہ ہے یا پھر دوسروں نے ہمیں آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے کچھ انتظام و اہتمام کیا ہے۔ اس الجھن سے نمٹنے کی صلاحیت اور سکت بھی اللہ نے ہمیں خوب بخشی ہے۔ سوال صرف اُنہیں بروئے کار لانے کا ہے۔ کچھ لوگ ہماری راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور کچھ رکاوٹیں حالات کا فطری و منطقی نتیجہ بھی ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے سوچ کے رخ اور نوعیت کی بہت اہمیت ہے۔ اگر ہم ہر مشکل یا رکاوٹ کو سازش کا درجہ دے کر بدگمان و بددل ہو رہیں تو جی چکے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے محض آزمائش کے درجے میں ہوتا ہے۔ 
آن جہانی زگ زگلر کا شمار شخصی ارتقاکے حوالے سے لکھنے اور بولنے والی اہم ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ زگ زگلر کہتے ہیں ''یاد رکھیے کہ ناکامی کوئی انسان نہیں‘ واقعہ ہے‘‘۔ زگ زگلر کے اس ایک جملے میں دانش کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ انسانوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت اُس تعلق سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو کسی انسان اور ناکامی کے درمیان پایا جاتا ہے۔ انسان سے تعلق درست رکھنا اور بگڑی ہوئی بات کو بنانا انتہائی دشوار ہوتا ہے کیونکہ انسانوں میں جذبات بھی ہوتے ہیں اور سوچ بھی۔ انسان کسی بھی معاملے میں خطرناک حد تک بدگمان بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خوش گمانی کے دریا میں غوطہ زن رہ کر اپنے پورے وجود ہی کو ڈبو بیٹھے۔ ناکامی کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ کسی بھی شعبے میں اور کسی بھی مرحلے کی ناکامی سے بہت اچھی طرح نمٹا جاسکتا ہے۔ ایک طرف تو ہمیں ناکامی سے بددل ہوئے بغیر اُس سے دور رہنا ہے اور دوسری طرف اُس سے بہت کچھ سیکھنا بھی ہے۔ ناکامی اور کچھ سکھائے یا نہ سکھائے‘ ایک بات ضرور سکھاتی ہے ... یہ کہ اُسے دہرانے سے بچنا کس طور ممکن ہے! کسی بھی ناکامی کو گلے لگائے رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اور اُسے یکسر دُھتکار دینا بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ہر ناکامی ہم سے غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔ جب ہم پُرسکون ذہن کے ساتھ ناکامی پر غور کرتے ہیں تو اُس کی وجوہ ہماری سمجھ میں آنے لگتی ہیں اور ہم اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں کہ ہم سے کہاں کوتاہی سرزد ہوئی۔ معاملہ صرف تفہیم تک محدود نہیں رہتا یعنی ہم غور کرنے پر ناکامی کے اسباب سمجھنے تک محدود نہیں رہتے بلکہ یہ بھی سیکھتے ہیں کہ اب کیا کرنا ہے اور کسی بھی غلطی کے اعادے سے کس طور بچنا ہے۔ یہی تو ہے مٹی سے سونا نکالنے کا ہنر۔ 
کسی بھی معاملے میں ناکامی سے بد گمان یا بددل ہونے کے بجائے ہمیں اُس کے اسباب پر غور کرنا چاہیے تاکہ اصلاحِ احوال کی صورت نکلے۔ ہر ناکامی ہمارے لیے ایک چیلنج کی طرح ہوتی ہے۔ سوچ مثبت یعنی درست ہو تو ہر غلطی ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور سکھاتی ہے۔ دوسرے بھی ہم پر تنقید کرتے ہیں اور ہماری کارکردگی میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر خیر‘ وہ ہمیں کبھی بتا نہیں سکتے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے۔ ہم سے غلطی کہاں سرزد ہوئی ہے یہ بات صرف ہم جانتے ہیں۔ اور جب ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ غلطی کہاں‘ کیوں اور کیونکر سرزد ہوئی تو پھر ہم سے بڑھ کر کسے معلوم ہوسکتا ہے کہ معاملے کو درست کس طور کیا جاسکتا ہے؟ کسی بھی غلطی اور اُس کے نتیجے میں رونما ہونے والی ناکامی کو محض بدنصیبی قرار دے کر اُس کا رونا رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ غلطی اور اُس کے منطقی نتیجے میں رونما ہونے والی ناکامی صرف اس لیے ہوتی ہے کہ ہم اُس کے بنیادی اسباب پر غور کریں اور اس کے لیے پوری دیانت اور خلوص کے ساتھ کوشاں ہوں کہ اُس کا اعادہ نہ ہو۔ 
ٹامس جے واٹسن کے سنہرے الفاظ پر غور فرمائیے ''کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو کامیابی کا فارمولا بتاؤں؟ یہ بہت آسان ہے۔ اپنی ناکامی کو دگنی کرلیں۔ آپ ناکامی کو کامیابی کا دشمن مان کر چل رہے ہیں۔ در حقیقت ایسا ہے نہیں۔ آپ ناکامی سے حوصلہ بھی پاسکتے ہیں‘ سبق بھی سیکھا جاسکتا ہے۔ آگے بڑھیے اور غلطی کیجیے۔ جتنی بھی غلطیاں آپ کرسکتے ہیں سب کر ڈالیے۔ کامیابی وہیں ہوتی ہے جہاں ناکامی ہوتی ہے‘‘۔ جی جناب‘ حقیقت یہی ہے کہ ہر ناکامی ہمارے لیے کوئی نہ کوئی سبق لاتی ہے اور ہمیں اُس سے چشم پوشی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگانا چاہیے۔ جب ہم اپنی کسی بھی ناکامی کو گلے لگائیں گے تو اُسے سمجھنے میں بھی کامیاب ہوں گے۔ کوئی بھی ناکامی ہماری اپنی کوتاہی کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی سازش کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے مگر ناکامی بجائے خود ہماری دشمن نہیں ہوتی۔ وہ ہمارے لیے ایک نیا راستہ لاتی ہے۔ یہ نیا راستہ ہمیں اُسی وقت دکھائی دے سکتا ہے جب ہم آنکھیں بند کرکے رونے دھونے سے فرصت پائیں اور گِلے شِکوے چھوڑ کر کچھ سوچیں‘ کچھ کرنے کی ٹھانیں۔ جب ہم ہوش و حواس کی حدود میں رہتے ہوئے کسی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں تب ہمیں اپنی ہر کوتاہی کا سبب معلوم ہو پاتا ہے۔ اپنی ناکامی کو سمجھنے میں کامیاب ہونے والے ہی اُس کے اعادے کا سدِ باب بھی کر پاتے ہیں۔ یہ کوئی جادو کا معاملہ نہیں۔ اگر یہ جادو ہے بھی تو آپ سیکھ سکتے ہیں۔ مٹی میں ہاتھ ڈال کر سونا نکالنے کا ہنر اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اپنے وجود کا جائزہ لیں‘ اپنی کارکردگی پر نظر ڈالیں‘ اپنی صلاحیت و سکت کی حدود پہچانیں‘ جہاں تک جاسکتے ہیں وہاں تک ضرور جائیں اور دنیا کو بتائیں کہ ہم کسی بھی صورتحال سے محض بددل اور بیزار ہوکر کونا پکڑنے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ آگے بڑھ کر اپنی اصلاح کرنا اور ناکامی کو کامیابی میں بدلنا چاہتے ہیں۔ 
یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہے کہ مشکلات یا پریشانیاں سبھی کی زندگی میں ہوتی ہیں۔ انتہائی کامیاب افراد کے بارے میں پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے بہت سے ناکامیوں کو پچھاڑنے کے بعد ہی کامیابی کا وہ درجہ حاصل کیا جس نے اُنہیں عزت‘ دولت اور شہرت سے ہم کنار کیا۔ ہر کامیابی کا محل بہت سی ناکامیوں کی قبور پر تعمیر ہوتا ہے۔ ناکامیوں کا سامنا کیے بغیر آج تک کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر لازم ہے کہ آپ اس کے لیے تیار ہوں۔ اس تیاری کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی مرحلے پر اپنی کسی بھی ناکامی سے مایوس نہ ہوں‘ کوشش کا سلسلہ ترک نہ کریں۔ ناکامی سے نظر نہیں چُرانی ہے بلکہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہے تاکہ اُسے سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ ناکامیاں مٹی کا وہ ڈھیر ہیں جن میں سونا موجود ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اس مٹی میں سونے کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔ غیر معمولی کامیابی اور اس کے نتیجے میں بھرپور زندگی بسر کرنے کی تحریک دینے والے مثبت سوچ کو بہت اہم قرار دیتے ہیں یعنی آپ کو اس بات کا پورا یقین ہونا چاہیے کہ ناکامی کی مٹی میں ہاتھ کر کامیابی کا سونا نکالا جاسکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved