تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     27-09-2020

دلوں کے زخم کیسے مندمل ہوں گے؟

دل پر لگنے والا گھائو جسمانی زخم سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے ۔ آبروریزی ظلم ہے ‘ اجتماعی زیادتی سفاکیت ہے‘ بچوں کے سامنے ریپ ناقابلِ تصور درندگی ہے ۔ موٹروے پر پیش آنے والے واقعے نے پورے ملک کو مشتعل کردیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا حکومت اور عوام کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ پولیس کی کڑی جانچ ہورہی ہے۔ خوش قسمتی سے اب تک ایک ریپسٹ پکڑا جا چکا ہے اور دوسرے کی گرفتاری اور مجرموں کو مثالی سزا دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ مجرم کوبلا تاخیر گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے ‘تاہم آبروریزی کا شکار ہونے والی مظلوم عورت مزید ذہنی اذیت سے گزر رہی ہے کیونکہ یہ کیس ملک میں سب سے زیادہ موضوع ِ بحث ہے ۔جس دوران بریکنگ نیوز‘ ٹاک شوز اور ڈرائنگ رومز میں بحث جاری ہے‘ کوئی توجہ نہیں دے رہا کہ وہ خاتون کس کرب سے گزر رہی ہو گی اور ابھی مزید گزرے گی۔
پاکستان میں آبروریزی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ عالمی این جی او'' ہیومین رائٹس واچ‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں اوسط ہر دو گھنٹوں میں ریپ کا ایک واقعہ پیش آتا ہے ‘ جبکہ ہر ایک گھنٹے میں ایک پاکستانی عورت اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔اگر ان اعدادوشمار کی تصدیق آسان نہ ہو تو بھی یہ انتہائی کربناک ہے ۔ 2002 ء میں مختاراں مائی کا کیس سامنے آنے کے باوجود اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے غیر سنجیدگی دکھائی اور پولیس اور نظامِ عدل کی حالت بہتر نہ ہوسکی ۔ دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں ہر روز بچوں اور عورتوں کا ریپ ہوتا ہے ۔ ان میں سے کچھ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں کچھ نہیں ہوپاتے۔ موٹر وے کا واقعہ ایک بڑے شہر میں پیش آیا ‘ متاثرہ خاندان متمول تھا‘ سول سوسائٹی اور عوام باہر نکلے اور بھرپور آواز بلند کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ واقعہ اس قسم کا تھا کہ خاموش رہنا ممکن ہی نہ تھا۔جرم اور سزا پر بات ہورہی ہے تو ضروری ہے کہ پائیدار حل کے لیے قابل ِعمل حل کی راہ اختیار کی جائے ۔ اس میں مجرموں کو سزا دینا اور متاثرہ شخص کے زخموں پر مرہم رکھنا بھی شامل ہو۔ 
جرم کا ارتکاب روکنے کے لیے مجرموں کو سخت قوانین‘ فوری انصاف اور مثالی سزائوں کا خوف ہونا لازمی ہے ۔ ان تینوں کی ملک میں حالت انتہائی افسوسناک ہے ۔ قوانین متروک ہیں‘پولیس کا نظام اٹھارہویں صدی کے دور کا ہے ۔ اس نظام کا فوکس کمزور عوام کو دبانا تھا ‘اب دنیا ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوچکی جبکہ قوانین میں تبدیلی کا عمل بہت سست ہے ۔ اس کا مقصد طاقت ور حلقوں کو بچانا ہوتا ہے ۔ کمزور قوانین اور گھن زدہ نظامِ عدل کی ایک افسوسناک مثال یہ ہے کہ موٹر وے واقعے کے ریپسٹ 2013ء سے ایسے گھنائونے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ اس دوران وہ کئی مرتبہ گرفتار بھی ہوئے لیکن ضمانت پر رہا ہوگئے ۔ اسی سے جرم کی شہ ملتی ہے ۔ یہاں پولیس کی بدعنوانی کی دنیا آباد رہتی ہے ‘ جرم کا ارتکاب کرنے والے اکثر ضمانت پر رہائی پا لیتے ہیں۔سیاستدان باہمی اتفاق سے ایسے قوانین بناتے ہیں جن میں کوئی جان نہیں ہوتی ‘ یہاں عام آدمی پس جاتا ہے ‘ درمیانی طبقہ شرمندگی محسوس کرتے ہوئے سامنے آنے سے گریز کرتا ہے جبکہ مجرم سینہ تان کر کسی نئے شکار کی تلاش میں دندناتے پھرتے ہیں۔ 
قوانین اور قانون کا نفاذ جیسے موضوعات پرلا متناہی بحث کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ پولیس کی افسوسناک کارکردگی پر بہت کچھ لکھا جاچکا ۔اس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بہت سی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں لیکن متاثرہ شخص اور واقعے کے بعد اس کی شخصیت پر لگنے والے گھائو پر بہت کم لکھا گیا ہے ۔ یہ صدمہ کبھی زائل نہیں ہوتا‘ یہ نہ صرف مظلوم عورت بلکہ اُس کے خاندان کی زندگی بھی تباہ کردیتا ہے ۔ مختاراں مائی نے ایک دلیر عورت کی مثال پیش کی ۔ اُس نے خود پر ہونے والے ظلم کو زبان دی جبکہ اُس وقت دیگر مظلوم خواتین اس کی ہمت نہیں کرپاتی تھیں۔ اس جرم کے ساتھ عزت داغ دار ہونے کا لیبل نتھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم کا شکار ہونے والی بہت سی خواتین سماجی اور جذباتی طور پر معمول کی زندگی نہیں گزار پاتیں۔ ضروری ہے کہ متاثرہ عورت کی سماج اور خاندان میں بحالی کا منصوبہ بنایا جائے ۔ قانونی مسائل تو قانون سازی سے حل ہوسکتے ہیں لیکن جذباتی اور نفسیاتی چرکے مندمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قانون اور معاشرہ اس کے وقار کا خیال رکھتے ہوئے اس پر پوری توجہ دے ۔ اسے دوبارہ معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی شدید ضرورت ہے :
1۔ خاندان اور معاشرے کی مدد: اس گھائو کو مندمل کرنے کے لیے پہلا ضروری قدم گھر سے اُٹھایا جانا چاہیے ۔ اس معاشرے میں آبروریزی کو عزت پر ایک دھبا اوراس کا شکار ہونے والی عورت کو داغدار سمجھا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں خصوصی تربیت یافتہ افسر ہوں جو اُس خاندان کی نفسیاتی مددکرتے ہوئے اُنہیں اُس صدمے سے نکلنے میں مدد دیں۔ نفسیاتی صلاح کاری اُس خاندان کو صدمے ‘ شرمندگی اور مظلوم عورت کے علاوہ معاشرے سے ناراضی دورکرنے میں مدد دے۔ کچھ والدین تو اتنے صدمے میں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ہی بچی کا ساتھ دینے سے انکار کردیتے ہیں ۔ وہ بے یارومددگار احساسِ ندامت اور شرمندگی کی دلدل میں دھنس جاتی ہے ۔ ضروری ہے کہ والدین کو سمجھایا جائے کہ وہ مظلوم عورت کو دھتکارنے کی بجائے اُس کی ڈھارس بندھائیں۔ اس سانحے میں سب سے اہم کردار شوہر کا ہوتا ہے ۔ اُس پر سماجی دبائو ہوتا ہے کہ یا تو وہ مظلوم عورت کو طلاق دے یا اس کے ساتھ برا سلوک کرتا رہے ۔ تربیت یافتہ ماہرینِ نفسیات اس سوچ کو ختم کرتے ہوئے خاندان کو معمول کی زندگی پر لا سکتے ہیں۔ایسے ہی ایک کیس میں ریپ کا شکار ہونے والی ایک لڑکی نے خود کشی کرلی تھی کیونکہ وہ اپنے باپ کا پریشان اور صدمے سے نڈھال چہرہ اور جھکا ہوا سر نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ 
2۔ صدمے کے بعد کی زندگی: اگر بچے چھوٹے ہیں اور اس صدمے کو نہیں سمجھ سکتے تو بھی وہ بعد میں اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اگر اُن کی نفسیاتی صلاح کاری نہیں کی جاتی تو اُن کی شخصیت مسخ ہوسکتی ہے یا بعض صورتوں میں وہ خود بھی ایسے جرائم کرسکتے ہیں۔ نفسیاتی تھراپسٹ جو ڈرائونے خوابوں ‘ نیند کے مسائل ‘ ذہنی تنائو اور ماضی کے آسیب سے نکلنے میں مدددیتے ہیں‘ کی ان مسائل کے حل کے لیے ضرورت ہوگی ۔ اس نفسیاتی گھائو سے نکل کر وہ خاندان معمول کی زندگی کی طرف لوٹ سکتاہے ۔ 
3۔ قانون سازی اور ضابطے : قانون سازی صرف سخت سے سخت سزا دینے تک ہی محدود نہ ہو‘بلکہ پولیس سٹیشنز پر استعمال کی جانے والی زبان‘ عدالت کے سامنے پیشی‘ تحقیقات کے طریق کار کا بھی احاطہ کرے تاکہ ستم زدہ خاتون مزید کرب اور نفسیاتی اذیت سے نہ گزرے ۔ اس وقت یہ تمام طریق کار اتنا شرمناک ہے کہ 80 فیصد متاثرہ عورتیں کیس کو آگے بڑھانے سے ہی انکار کردیتی ہیں یا عدالت سے باہر ہی صلح صفائی پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ 
ریپسٹ جسم کے تقدس کو پامال کرتے ہیں‘ لیکن بعد میں ہونے والی تحقیقات ذہن کو لہو لہان کردیتی ہیں۔ خاندان کا عدم تعاون بھی اصل مسئلہ ہے ۔ اگر کوئی پالیسی‘ پروگرام یا اصلاحی منصوبہ ان انسانی عوامل کو درست نہیں کرتا تو وہ مظلوم عورت کی داد رسی نہیں کرسکے گا۔ ضروری ہے کہ ہم ستم زدہ عورتوں کو عزت اور وقار دیں‘ اُن پر اعتماد کریں اوراُن کے جسم‘ ذہن ‘ دل اور روح کے تقدس کا خیال رکھیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved