تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-09-2020

نئے انتخابات ناگزیر کیوں؟

''جو مقدمہ 2014ء میں غلط تھا، وہ آج بھی غلط ہے۔ اگر 2014ء میں ایک منتخب حکومت کو گرانے کا کوئی جواز نہیں تھا تو یہ جواز آج کیسے پیدا ہو گیا؟‘‘
یہ اُس استدلال کا خلاصہ ہے جو بعض سنجیدہ حلقے پیش کرتے اور اپوزیشن کے مطالبات کو بلا جواز قرار دیتے ہیں۔ تحریکِ انصاف تو ظاہر ہے کہ یہ مقدمہ قائم نہیں کر سکتی۔ اس نے احتجاج کے نام پر جن انتہاؤں کو چھوا، ان تک شاید ہی کوئی سیاسی جماعت پہنچ سکے۔ یہ مقاماتِ بلند سب کے مقدر میں کہاں؟ یہاں ان لوگوں کا مقدمہ زیرِ بحث ہے جو دونوں نقطہ ہائے نظر کو یکساں طور پر غلط کہتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ موازنہ بوجوہ درست نہیں۔
2013ء کے انتخابات پرجو اعتراضات ہوئے، ان کے جائزے کیلئے ایک عدالتی کمیشن بنا۔ اس کمیشن نے منظم دھاندلی کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ یوں یہ اعتراضات اپنی اخلاقی بنیاد کھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ بھی، جس نے کھلی آنکھوں کے ساتھ، دونوں انتخابات کا جائزہ لیا، اس کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ دونوں کے نتائج کو یکساں قرار دے سکے۔
2013ء کے سیاسی منظر کا تقابل، ذرا 2018ء کے حالات سے کیجیے۔ 2013ء میں ہر جماعت کو انتخابات میں شرکت کے مساوی مواقع حاصل تھے۔ ہر کسی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ کسی کو کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ یہی نہیں، سیاسی رہنماؤں کے اخلاقی رویے بھی کہیں بہتر تھے۔ عمران خان ایک حادثے کا شکار ہوئے تو نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کو روک دیا۔ یہ اس بات کا علامتی اظہار تھا کہ انتخابی عمل ایک بہتر جمہوری ماحول میں آگے بڑھ رہا ہے۔
2018ء کا منظرنامہ یکسر مختلف تھا۔ نون لیگ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے۔ جو پس آئینہ ہوا، اس کا ذکر نہیں، جو سرِ آئینہ دکھائی دیا، یہ اس کا بیان ہے۔ حنیف عباسی کا قصہ کیا بھلایا جا سکتا ہے؟ اس قوم نے کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا کہ میدان کو خالی کرا لیا گیا۔ اس کے باوجود اگر نون لیگ ایک کروڑ تیس لاکھ ووٹ لے گئی تو اسے معجزہ سمجھنا چاہیے۔ مجھے حیرت ہو گی کہ جس نے دونوں انتخابات کو دیکھا، وہ ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں کو، اگر ایک جیسی سندِ جواز عطا کرے گا۔
خان صاحب کو جو غائبانہ امداد ملی، اس کی داستانیں وہ لوگ بھی بیان کر چکے جو ان کی حمایت میں سب سے بلند آہنگ تھے۔ ایک طرف راستے بند ہو رہے تھے اور دوسری طرف لطف و کرم کی انتہا تھی۔ پھر انتخابات کے دن جوکچھ ہوا، جس طرح مشینیں بند ہوئیں، اس کے احوال بھی ہم سب پر کھلے ہیں۔ اس لیے کوئی انصاف پسند دونوں انتخابات کے نتائج کو یکساں قرار نہیں دے سکتا۔اب آئیے ان واقعات کی طرف جو انتخابات کے بعد پیش آئے۔ 2013ء میں جو حکومت قائم ہوئی، اس نے قومی معاملات پر اپوزیشن جماعتوں کو شاملِ مشاورت کیا۔ حکومت نے آگے بڑھ کر انتخابات کی تلخی کو کم کر نے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کو وہ عزت دی، جس کی وہ مستحق تھی۔ نوازشریف عمران خان کے گھر گئے اور انہیں ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ خاں صاحب نے اسی ملاقات میں فرمائش کی کہ ان کے گھر کی سڑک بنائی جائے جو بنوا دی گئی۔
پھر دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدام کیلئے، نواز شریف صاحب نے ساری سیاسی قیادت کو جمع کیا۔ وزیراعظم ہاؤس میں اے پی سی بلائی۔ سب کے مشورے سے نیشنل ایکشن پلان بنا اور دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاقِ رائے پیدا ہوا۔ اس کی وجہ سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹی اور ہم سے روٹھا ہوا امن واپس آنے لگا۔
اسی پر بس نہیں، ہر اہم مسئلے پر اپوزیشن کو ساتھ لے کرچلنے کی کوشش ہوئی۔ یمن میں فوج بھیجنے کے مسئلے کو پارلیمنٹ میں لایا گیا۔ جو قرارداد منظور ہوئی، اس میں تحریکِ انصاف کے مطالبے پر ایسے الفاظ شامل کیے گئے جو ایک دوست ملک کی طبعِ نازک پر گراں گزرے اور بعد میں نواز شریف کو تنہا اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ انتخابی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنی جس کی سربراہی تحریکِ انصاف کے پاس تھی۔ اس کمیٹی نے اپنا اسی فیصد کام مکمل کر لیا تھاکہ اس کو عمل کو سبوتاژ کر دیا گیا۔
2018ء کے بعد کیا ہوا؟ ایک دن بھی اپوزیشن کے وجود کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ مشاورت تو دورکی بات، خان صاحب نے اس سے گفتگو کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ وزراتِ عظمیٰ پہلے ہی دن سے خود پسندی کے حصار میں تھی۔ اس کی جھلک خان صاحب نے پارلیمنٹ سے اپنے پہلے ہی خطاب میں دکھا دی۔ اس کے بعد بھی اپویشن کی تذلیل کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف انتخابی نتائج کے بارے میں اپنے تحفظات کے باوجود، اپوزیشن تعاون کا ہاتھ پھیلائے کھڑی رہی۔ آصف زرداری اور شہباز شریف، دونوں نے پارلیمنٹ میں تعاون کی پیشکش کی۔ یہی نہیں، مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا ساتھ نہیں دیا کہ حکومت کو موقع ملنا چاہیے۔ برسرِ اقتدار ٹولے نے ایسی ہرکوشش کا تمسخر اڑایا۔ قانون سازی کے مواقع پر بھی‘ جب اپوزیشن کے ووٹوں کی ضرورت تھی، اس کی توہین کا عمل رکنے نہیں پایا۔
آج ہر آدمی بچشمِ سر دیکھ سکتا ہے کہ اپوزیشن کودیوار سے لگا دیا گیا اور اس کے ہاتھ پاؤں ایسے باندھ دیے گئے ہیں جیسے 2018ء کے انتخابات سے پہلے باندھے گئے تھے۔ ملک میں یک جماعتی نظام کو رواج دیا جا رہا ہے اور اختلافِ رائے کے سب دروازے بند ہورہے ہیں۔ کیا اس کے بعد کوئی ذی شعور یہ کہہ سکتا ہے کہ 2014ء اور 2020ء کے حالات ایک جیسے ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے پر قیاس کیا جانا چاہیے؟ 
مشکوک انتخابی نتائج کے باوجود، اس نظام کے چلتے رہنے کی بات کی جا سکتی تھی اگر جمہوری روایات کی کچھ بھی پاسداری کی جاتی۔ اپوزیشن کو کام کر نے کا موقع ملتا۔ میڈیا کوآزاد رکھا جاتا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یک جماعتی نظام وجود میں آ چکا اور اس پر آئینی مہر لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔
میں نے معاشی اور سماجی محاذوں پر حکومت کی تاریخی ناکامیوں کا دانستہ ذکر نہیں کیا کہ کچھ لوگ انہیں بھی حکومت کے خاتمے کیلئے بطور جواز پیش کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک مضبوط دلیل ہے لیکن اس ناکامی کے باوجود، میں اس حکومت کے باقی رہنے کے حق میں ہوتا اگر جمہوری روایات آگے بڑھتی دکھائی دیتیں۔ افسوس کہ ایسی کوئی شہادت موجود نہیں۔
میری نظر میں موجودہ سیاسی نظام اپنا اخلاقی جواز پوری طرح کھو چکا۔ گزشتہ چند دن کی پیش رفت نے ہر نقاب الٹ دیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ یہ نظام کتنا نمائشی ہے اور اس میں وزارتِ عظمیٰ جیسے منصب کی کیا اہمیت ہے۔ حیرت در حیرت یہ کہ خان صاحب اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ اس نظام پر اصرار اداروں کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنے گا۔ ناگزیر ہو چکا کہ ملک میں نئی حکومت آئے اور ایک ایسے شفاف انتخابی عمل کے نتیجے میں، جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ سیاسی استحکام کی یہی واحد راستہ ہے۔
خان صاحب کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بھی نئے انتخابات ہی سہارا دے سکتے ہیں۔ جس دن وہ انتخابات کا اعلان کریں گے، ان کے زوال کا عمل تھم جائے گا۔ اگر وہ کسی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں حکومت چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں تو مستقبل قریب کی سیاست میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ 1977ء میں مولانا مودودی نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اِس مشورے پر کان نہیں دھرا اور پھر ان کے اقتدار کی ناؤ بیچ منجدھار ڈوب گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved