تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     28-09-2020

پاکستان میں سائنسدان اورفلسفی کیسے پیدا ہوں گے؟

ایک سوال مدت سے علمی اورسائنسی حلقوں میں زیربحث ہے ۔ گزشتہ دنوں یہ سوال وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے بھی ایک تقریب میں اٹھایا۔ سوال یہ تھا کہ پاکستان میں سائنسدان کیوں پیدا نہیں ہوتے ؟ یہ ایک دلچسپ مگرتکلیف دہ سوال ہے۔ اگرکوئی اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دے سکے تواس سے پاکستان کے سترفیصد سے زائد مسائل خودبخود حل ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کا ایک سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں سائنسدان اس لیے نہیں پیدا ہوتے کہ ہمارا نظام تعلیم درست نہیں۔ اس کے ساتھ دوسراسوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارانظام تعلیم درست کیوں نہیں ہے ؟ اس سوال کاایک بہت عام اوررٹارٹایاجواب ہے کہ ہم غریب ملک ہیں‘ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں جوایک ایسا نظام تعلیم قائم کرنے کیلئے درکارہوتے ہیں‘ جس کے اندرسائنسدان پیدا کرنے کی صلاحیت ہو۔ یہ جواب اکثرسننے کوملتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وسائل کی کمی محض ایک روایتی بہانہ ہے ۔ پاکستان کی تاریخ کے کسی بھی بجٹ پرنظرڈالی جائے تویہ جھوٹ خود بخودبے نقاب ہوجاتا ہے ۔ کسی بھی ملک کا بجٹ اس ملک کے حکمرانوں اورپالیسی سازوں کی ترجیحات کاعکاس ہوتا ہے۔1947ء سے اب تک ہرسال پاکستان میں تعلیم کیلئے جوبجٹ مختص کیا جاتا ہے وہ اس حقیقت کوآشکار کرتا ہے کہ تعلیم کبھی بھی اس ملک میں فیصلہ سازوں کی ترجیح نہیں رہی ؛ چنانچہ یہ وسائل نہیں‘ سوچ‘ پالیسی اورترجیحات کے تعین کا سوال ہے ۔ جہاں تک وسائل کی بات ہے توپاکستان تب بھی تیسری دنیا کا ایک غریب اورپسماندہ ملک تھا‘ اوراب بھی ہے ۔ یہاں مسئلہ وسائل کا نہیں ہے ۔ اگر کوئی رہنما یہ سوچ لیتا کہ کسی بھی قوم کی ترقی‘ خوشحالی اوربقا کیلئے ایک بہترین نظام تعلیم ناگزیرہوتاہے اورتعلیم کوترجیح بنالیاجاتا توآج تک یہ ملک اس میدان میں اس قابل ہوچکاہوتا کہ اس میں سائنسدان پیداہورہے ہوتے ۔ وسائل اس کے راستے کی رکاوٹ نہ بنتے ۔ یہ ترجیح اوروسائل کو درست جگہ استعمال کرنے کا مسئلہ ہے ۔ اورجب تک پاکستان کے پالیسی سازوں کی ترجیحات اس طرح کی رہیں گی‘ اس وقت تک تعلیم سمیت دوسرے مسائل دن بدن سنگین ترہوتے جائیں گے ۔ 
اگر ہمیں سائنسدان پیدا کرنے کی خواہش ہے تو ہمارے لیے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جہاں سائنسدان پیدا ہوتے ہیں وہاں کا تعلیمی و فکری ماحول کیسا ہوتا ہے ۔ اس کیلئے اگردنیا کے ان پہلے دس ملکوں پرنظرڈالی جائے جن میں اس وقت سب سے زیادہ سائنسدان پیدا ہورہے ہیں توآپ کواپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ سائنسدان ریاستہائے متحدہ امریکہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگرامریکہ میں اس وقت اتنی بڑی تعداد میں سائنسدان پیدا ہورہے ہیں تواس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس ہارورڈ اور سٹینفورڈ جیسی یونیورسٹیاں اور میسی چیوسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اورنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ جیسے ادارے موجود ہیں۔ اس کے ایک ایک ادارے کا ریسرچ کا بجٹ ہمارے پورے تعلیمی نظام کے خرچے سے زیادہ ہے ۔ سائنسدان پیدا کرنے میں اس وقت دنیا میں چین کا نمبردوسرا ہے ۔ اس کے پاس چائنیزاکیڈمی آف سائنسز‘ پیکنگ یونیورسٹی‘ اوریونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسے مؤقرادارے ہیں۔ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے باب میں تیسرے نمبرپرجرمنی ہے ‘ جس کے پاس مکس پلانک جیسے بڑے ادارے ہیں۔ چوتھا نمبربرطانیہ کا ہے ‘ جس کے بارے میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے پاس کیمبرج‘ آکسفورڈ اوریونیورسٹی کالج لندن جیسے شہرہ آفاق ادارے ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹوکیو‘ کیوٹواوراوسا کا یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں کی وجہ سے جاپان کا نمبراس وقت پانچواں ہے ۔ اس کے بعد فرانس‘ کینیڈا‘ سوئٹزر لینڈ‘ شمالی کوریااورآسٹریلیا کا نمبرآتا ہے ‘ جن کے پاس عالمی معیارکے ادارے ہیں۔ دنیا کی ان عظیم درسگاہوں کا اربوں ڈالرکا بجٹ ہے ۔ ان میں دن رات ریسرچ ہورہی ہوتی ہے ۔ کروڑوں کی تعداد میں پیپرلکھے جا رہے ہوتے ہیں۔ ان کی لیبارٹریزمیں تجربات ہورہے ہوتے ہیں اوراس وقت ان ممالک میں ہزاروں سائنسدان پیداہورہے ہیں۔ اگرہم نے سائنسدان پیداکرنے ہیں تو پھرہمیں بھی اپنی درس گاہوں کوانہی خطوط پرچلانا ہوگا جن پریہ ادارے چل کر کامیاب ہوئے ہیں۔
اس مقصد کے لیے صرف وسائل یا بڑا بجٹ ہی کافی نہیں ہمیں اس کے لیے سب سے پہلے پاکستان میں مروجہ علم دشمن مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا۔ سائنس اورسائنسی علوم کے بارے میں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ سائنسدان پیدا کرنے کے لیے محض اتنا ہی کافی نہیں کہ آپ کے پاس ایک بڑی درس گاہ ہو‘ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ درگاہ کس قسم کے ماحول میں واقع ہے ۔ کیا ملک کے اندرسوچ اور فکر کی آزادی ہے ؟ اظہارِ رائے کی آزادی ہے ؟ کیا مجموعی طورپرملک میں ایسی فضا موجود ہے جہاں سائنسی فکراورنظریات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے؟ کیا ملک کے اندرسائنسی وعقلی خیالات کولے کربحث مباحثے کا ماحول موجود ہے ؟
جب مائنڈ سیٹ کی بات آتی ہے تو قدرتی طور پر ہماراخیال ہمارے ابتدائی نظام تعلیم اوربنیادی درس گاہوں کی طرف جاتا ہے ‘ جہاں بچوں کی اکثریت اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرتی ہے ۔ ان درس گاہوں کا ماحول علم دشمن اورسائنس دشمن ہے ۔ یہاں بسا اوقات بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ سائنس بے شک پڑھیں‘ مگراس پریقین مت کریں۔ سائنسدان بننے کے لیے سائنس پریقین کرنا لازم ہے ۔ جن درسگاہوں میں بچے ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ وہاں پراساتذہ کی تعلیمی صلاحیت اورتربیت کامعیارکیا ہوتا ہے ؟ کیا اس معیارکولے کران بچوں سے سائنسدان بننے کی توقع حقیقت پسندانہ ہے؟ سائنسی ترقی کیلئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بہترسہولیات توخیربنیادی اورکلیدی ضرورت ہے ‘ لیکن ایک اوراہم ترین بات اکیڈمک فریڈم ہے ۔ ہماری یونیورسٹیوں میں کسی سائنسی اورعقلی مباحثے کی گنجائش نہیں ہے ۔ اکیڈمک فریڈم کا اس وقت جومعیارہماری یونیورسٹیوں میں مروج ہے ‘ وہ دسویں اورگیارہویں صدی کی مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقہ کی درس گاہوں کی سطح پراٹکا ہوا ہے بلکہ تنوع اورعلمی نقطہ نظرکے حوالے سے اپنے وقت کے حساب سے وہ یونیورسٹیاں ہم سے بہترتھیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں آزادی سے پڑھانے اورآزادی سے پڑھنے کے حق کو عملی طورتسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اس اعتبارسے ہماری یونیورسٹیاں تربیت گاہیں توشاید ہوں مگرعلم گاہیں نہیں ہیں۔ اس وقت پوری دنیا کے کامیاب ممالک کی یونیورسٹیوں میں اکیڈمک فریڈم کے حوالے سے 1940 ء کے مشہوراعلامیے کے تین نکات کوتسلیم کیاجاتا ہے ‘ اس میں پہلا اصول یہ ہے کہ اساتذہ کو پوری آزادی سے ریسرچ کرنے اور ریسرچ کومنظر عام پر لانے کیلئے شائع کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں ریسرچرز کویونیورسٹی کے حکام کے علاوہ کسی کی اجازت یا رضامندی کی ضرورت نہیں ہوناچاہیے ۔ اس اعلامیے کا دوسرا اصول یہ ہے کہ اساتذہ اپنی کلاس میں اپنے مضمون پرپوری آزادی سے گفتگو کرنے کے حقدار ہیں۔ بس انہیں اتنی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ایسا متنازع موضوع نہ زیربحث لائیں جوان کے مضمون سے متعلق نہیں ہے۔ اعلامیے کا تیسرا بڑا اصول یہ ہے کہ کالج اوریونیورسٹی اساتذہ ایک فاضل پیشے سے وابستہ ہیں اورتعلیمی ادارے کے آفیسرزہیں‘ جب وہ لکھیں یا بولیں توان پر ادارے کی طرف سے سنسرشپ نہیں لگائی جانی چاہیے ۔ ان معاملات میں خوداساتذہ کومتعین کردہ حدوداوراخلاقیات کی پاس داری کرنا ہوتی ہے۔ہمارے ہاں نہ ان اصولوں کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ ہی مجموعی طور پر ہمارے سماج میں اتنا کھلا پن اوررواداری ہے جس میں ساتذہ اورطلبا کوپڑھنے اورپڑھانے کی آزادی ہو‘ جس کے بغیرسائنس دان اورفلسفی نہیں پیداہوتے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved