تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     28-09-2020

سب دیکھتے رہے ‘وہ نڈر بولتا رہا

پوٹھوہاری زبان کے مشہور محاورے کا ترجمہ ہے ‘گھڑے میں منہ ڈال کر بولنا۔ اس کی زندہ تصویریں آپ تین جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ کامیاب لوگو ں کے خلاف بول کر دل کا غم ہلکا کرنے والے ناکام دوستوں کی محفل۔ دوسری جگہ ‘جابر سلطان کے سامنے اس سے پوچھ پوچھ کر بولنے والے پائے جاتے ہیں‘جبکہ تیسری جگہ سیاست دانوں کے وہ گلوبل فورمز ہیں جہاں سارے لوگ کان تو رکھتے ہیں لیکن منہ میں سچ بولنے والی زبان کو 100 فیصد کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ عالمی فورمز پر ذاتی مفادات کو بچانے کے لیے زبان پر قابو رکھنے والے لیڈر ایک راز سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ راز یہ ہے کہ ایسے لیڈروں کی اپنی قوم کو پتہ ہو یا نہ ہو‘ لیکن کیپیٹلز آف منی لانڈرنگ کے منیجرز کو پتہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کون کتنا بڑا چور ہے اور کس نے اپنے ملک سے چوری کر کے اربوں ‘کھربوں ڈالر کس شہر کے کس بینک کے کس لاکر میں چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ اسی لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت سچ بولنے والی آوازیں کبھی کبھی سنائی دیتی ہیں۔سچ کی ایک زور دار آواز تین دن پہلے دنیا کو UNGAکے ورچوئل اجلاس میں گونجتی ہوئی سنائی دی۔ اس جان دار آواز کی طرف بعد میں جائیں گے کہ وہ آواز کون سی تھی پہلے یہ دیکھ لیں کہ اس آواز نے دنیا کے سامنے کیا کیا کھول کر رکھ دیا۔ وہ عالمی مسائل جن پر ایشین ریجن اور مسلم ملکوں کے بلاک کو تو جانے دیں‘کہیں سے بھی کوئی نہیں بولتا ‘اس آواز نے بے خوفی سے بول کر سب کو متوجہ کرلیا۔
اُس نے کہا میں سچ کہوں گا خوف کے بغیر
بولا تو سچ ہی بارِ دگر بولتا رہا
پہلا مسئلہ یہ اُٹھایا کہ کورونا وبا کے نتیجے میں عالمِ انسانیت کے متحد ہونے کی ضرورت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ انسانوں نے دیکھ لیا کہ وہ ملکوں یا بر اعظموں کو تقسیم کرنے والے بارڈرز کے ذریعے اس وبا سے نہیں بچ سکتے۔ دنیا کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ اسی طرح کے اور مسائل بھی ہیں جن کو حل کرنے کے لیے انسانیت کا اتحاد ضروری ہے۔کورونا کے حوالے سے پاکستان کے کامیاب حکمت عملی اور رد عمل کی دنیا معترف ہے۔
دوسرا مسئلہ ساری دنیا میں بسنے والے 1ارب90کروڑ مسلمانوں کے خلاف پھیلایا جانے والا اسلاموفوبیا ہے۔اس لیے جنرل اسمبلی کو چاہیے کہ وہ اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے عالمی دن کا اعلان کرے۔
تیسرا مسئلہ بھارت کے 9لاکھ فوجیوں کے ذریعے جموں و کشمیر کی وادی پر ناجائز قبضے کا ہے۔بہادر کشمیری کبھی بھارتی قبضے اور بے رحم فوجی مظالم کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
چوتھا مسئلہ 5اگست 2019ء کا وہ بھارتی اقدام ہے جو اقوام متحدہ کے منشور‘ سکیورٹی کونسل کی قراردادوں اور انٹرنیشنل لاز کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پانچواں مسئلہ: مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی قابلِ مذمت اورجاری مہم ہے۔ اسے یو این فوری طور پر روکے ۔
چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے 72سال سے بھارت نے جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔زبردستی کا یہ قبضہ نہ صرف کشمیری عوام کی خواہش کے خلاف ہے بلکہ سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی بھی مسلسل خلاف ورزی ہے۔یہ خود انڈیا کی اپنی کمٹمنٹ کے بھی خلاف ہے۔
کشمیر گونجتا رہے گا ہر ایوان میں 
یہ باکمال شخص اگر بولتا رہا
ساتواں مسئلہ:مسلمانوں کی اپنی سیاسی شناخت کا اُٹھایا ۔وہ بھی اس طرح کہ اس سے پہلے شاید ہی کسی نے دنیا کے حکمرانوں‘ میڈیا اور دوسرے طبقات کو اس طرح مخاطب کیا ہو۔
آٹھواں مسئلہ:یہ تھا نئے پاکستان کا تصور ‘ جس پر کہا کہ یہ تصور پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی قائم کردہ ریاستِ مدینہ پر ہے۔ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ریاستِ مدینہ کے ماڈل کے حصول کیلئے ہمیں امن کے ساتھ ساتھ استحکام کی بھی ضرورت ہے۔دنیا پر واضح کیا کہ بین الاقوامی تعلقات میں ریاست ِمدینہ کے قیام کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فوکس اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنا ہے اور ہر قسم کے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ۔
نواں مسئلہ بین الاقوامی برادری کو درپیش دو چیلنجز کا اُٹھایا‘ جن کو انصاف اور انسانی اقدار کہا جاتا ہے۔ ریاست مدینہ کے تصورِ انصاف اور اعلیٰ انسانی قدروں پہ مبنی ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جہاں حکومت کی تمام پالیسیوں کا مرکزی نقطہ اپنے شہریوں کو غربت سے نکالنا اور منصفانہ نظم و نسق قائم کرنا ہے۔
سب اُس کے سامنے اُسی کے رعب میں رہے
جو لاالہ کے زیر اثر بولتا رہا
دسواں مسئلہ گلوبل ڈپلومیسی کے بجائے گلوبل کانفلِکٹ کا اُٹھا یا ۔کہا کہ بین الاقوامی تعلقات میں ٹکرائو اور قوت کا استعمال کرنا بند کریں ۔ بین الاقوامی قانون اور معاہدوں کے تحت بنائے گئے اصولوں کے مطابق ایک دوسرے سے ریاستی تعاون لازمی ہے۔
گیارہواں مسئلہ انڈیا میں تشدد پسندانہ اقدامات کے بڑھتے ہوئے ٹرینڈ کا اُٹھایا۔ دنیا کو بتایا کہ انڈیا کا ایجنڈا جموں اور کشمیر کے مقبوضہ علاقوں میں RSS +BJP کے غیر انسانی ''Final Solution‘‘ کو مسلط کرنا ہے‘ جس کے تحت فوجی محاصرے کے بعد اب اس مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ کشمیر کی منفرد پہچان کو مٹایا جاسکے اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اس فیصلے کو رد کیا جائے کہ کشمیریوں کا اپنی مرضی کے تحت خود ارادی کا حق اور اس کا نتیجہ بدلا جاسکے۔
بارہواں مسئلہ بھارت کے اندر مسلمانوں کی 20کروڑآبادی اور دوسری مذہبی اقلیتوں کے خاتمے کی کوشش والا اُٹھایا۔ بڑے پُر اثر انداز میں عالمی برادری پر واضح کیا کہ مودی کی ایسی کوششیں ‘گاندھی اور نہرو کے سیکولر ازم نظریے کے برعکس ہیں کیونکہ اب مودی بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ خطے اور دنیا دونوں کے لیے خطرناک بات ہوگی۔
تیرہواں مسئلہ بھارت جیسی آمرانہ حکومتوں کے بڑھتے ہوئے اقلیت کش رجحان کا تھا۔ا س پر کہا کہ اس رجحان کی وجہ سے نسلِ انسانی کو پہلی اور دوسر ی عالمی جنگوں سے کہیں زیادہ بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ بھارت میں ہندوتوا کے نظریے کا ہدف 30کروڑ سے زائد مسلمانوں‘عیسائیوں اور سکھوں کو محدود کرنا ہے ۔
چودہواں معاملہ قبلہِ اول کا اُٹھایا۔ روح میں اُترنے والے دلائل کے ساتھ کہا کہ فلسطین ایک بگڑتا ہوا زخم ہے۔ مڈل ایسٹ اور باقی دنیا کے لیے اس کی منصفانہ اور دیرپا سیٹلمنٹ نا گزیر ہے۔فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضہ‘غیر قانونی کالونیوں کی تعمیر ‘فلسطینی شہریوں پہ غیر انسانی حالات زندگی مسلط کرناخاص طور پر غزہ میں‘یہ سب کبھی بھی مشکلات میں گھرے ہوئے خطے میں امن نہیں لاسکتا۔ اس کا حل بین الاقوامی طے شدہ اصول کے مطابق 1967ء سے پہلے کے بارڈرز پر واپسی ہے اور القدس الشریف ایک متحد ‘ ملحق اور آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو۔ اسی آواز نے پیرس معاہدے کے تحت 100 ارب ڈالر جمع کرنے کے ہدف کو ہر صورت پورا کرنے‘سے لوٹی ہوئی دولت کی فوری واپسی یقینی بنانے ‘منی لانڈرنگ روکنے‘ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے‘افغان امن عمل پورا کرنے سمیت وہ سب کہا جسے سننا مغرب کم ہی پسند کرتا ہے۔
سب دیکھتے رہے‘ وہ نڈر بولتا رہا 
اُٹھتی رہی صدا‘ وہ مگر بولتا رہا
یہ سب بولنے والا عمران خان صاحب کے علاوہ اور ہے کون ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved