تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     28-09-2020

وہ لگا ہوا ہے کیمرہ

گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی میں زندگی کا حسن بری طرح متاثر ہوا ہے۔کبھی کبھی توایسا لگتاہے کہ اس عہد کے انساں کی زندگی ایک طوفانِ بدتمیزی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ایک شخص ہے‘ جو کسی گھر کا دروازہ کھٹکھٹا تا ہے۔ اس سے پہلے مختلف زاویوں سے کیمرے نصب کر کے، اس پورے واقعے کو اچھی طرح ریکارڈ کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ دروازہ کھٹکھٹانے والا جوگی کے روپ میں ہے اور اس کے ساتھ ایک پیشہ ور سپیرا بین بجا رہا ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور ایک بوڑھی خاتون باہر جھانکتی ہے۔ جوگی کے بھیس میں تنومند آدمی کہتا ہے: اماں ہمارا ایک کوبرا سانپ آپ کے گھر میں گھس آیا ہے، ہمیں اندر جا کر سانپ پکڑنے دیجیے۔ حیرت زدہ بوڑھی عورت اس کی طرف دیکھتی ہے۔ پھر وہ کہتی ہے: یہاں کوئی سانپ نہیں۔ دروازہ تو بند تھا، سانپ کہاں سے اندر داخل ہوا؟ جوگی نما بہروپیا کہتاہے: نہیں نہیں، ہمارا سانپ یہیں گھسا ہے۔ سانپ کے منہ میں سگریٹ بھی تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ سپیرے کو بین بجانے کا اشارہ کرتاہے اور خود گلی میں ناچنا شروع کر دیتاہے۔ بوڑھی عورت بے چارگی سے یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ اس کے دروازے پر دو عدد کیمرے نصب ہیں، جن سے اندر والے دروازے تک کا منظر نظر آرہا ہے۔اسے معلوم نہیں تھا کہ اسے تادیر دروازے میں کھڑے ہو کر ایک لمبا مکالمہ کرنا پڑے گا۔ شاید وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی اور اس نے مناسب دوپٹہ بھی اوڑھ نہیں رکھا۔اس وقت کوئی مرد بھی گھر میں نہیں۔ کچھ دیر کے لیے وہ گھبرا جاتی ہے کہ شاید واقعی کوئی سانپ گھر میں گھس آیا ہے۔ اندر اس کے پوتے پوتیاں کھیل رہے ہوں گے، سانپ کسی کو کاٹ نہ لے۔ لیکن اسے شک بھی ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ لوگ بہروپیے ہیں ورنہ گلی میں ناچ کیوں رہے ہوتے وہ سوچتی ہے کہ شاید یہ مجھ سے کچھ پیسے ہتھیانا چاہتے ہیں۔ وہ سختی سے انہیں اندر آنے سے منع کرتی ہے۔ 
اگلے پندرہ بیس منٹ اسے اچھی طرح زچ کرنے،اس کی پرائیوسی کا بیڑہ غرق کرنے، گلی میں ناچنے اورسب لوگوں کو اس گھر کا تماشا دکھانے کے بعد بہروپیا انکشاف کرتا ہے ہم تو ''پرینک‘‘ کر رہے تھے۔ انتہائی جوش و خروش کے ساتھ وہ کہتاہے ''وہ لگا ہوا ہے کیمرہ! ہاتھ ہلا دیں‘‘۔ اس وقت اس بیچاری خجل بوڑھی عورت کے چہرے پر لکھا ہے کہ کاش میں اس کیمرے کو آگ لگا سکتی! اُس کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے خود میں وہ سمٹ سی جاتی ہے، جس نے ا س کے گھر کے اندر تک زوم کر رکھا ہے۔ چار مشٹنڈے مردوں سے وہ بیچاری کیا الجھ سکتی ہے۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔
اس بوڑھی عورت کو ہراساں کرنے والوں نے کسی سے کوئی اجازت حاصل نہیں کی۔ کسی سے انہوں نے یہ اختیار حاصل نہیں کیا کہ وہ گھروالوں کی مرضی کے بغیر انہیں فلمبند کریں گے۔کسی سے انہوں نے یہ اجازت حاصل نہیں کی کہ بعد ازاں وہ اس وڈیو کو یوٹیوب پر چڑھا دیں گے کہ جو چاہے اسے بار بار دیکھتا رہے۔ بوڑھی عورت نسبتاً سمجھدار تھی لیکن اگر زیادہ عمر رسیدہ ہوتی تو شاید حقیقت اور مذاق کے درمیان فرق نہ کر سکتی اور اس خوف سے ہی زمیں بوس ہو جاتی کہ گھر میں سانپ گھس آیا ہے۔اس وقت ان چار مشٹنڈوں کی تمام تر خواہش یہ تھی کہ کسی طرح اس عورت کو زیادہ سے زیادہ خوفزدہ یا مشتعل کر دیا جائے۔ شکار کا ردعمل جتنا زیادہ ہوگا، اتنی ہی ریٹنگ زیادہ آئے گی۔ 
میرا سوال یہ ہے کہ گھر والوں کی مرضی کے بغیر کیمرے نصب کر کے‘یہ کہتے ہوئے اندر گھس جانا کہ گھر میں سانپ داخل ہو چکا ہے، کیا جرم نہیں؟ ہمارے معاشرے میں بوڑھی عورتیں کہاں یہ پسند کرتی ہیں کہ انہیں فلمایا جائے۔ اس پرینک کا اختتام یوں ہوتاہے کہ بوڑھی عورت اندر سے دروازہ بند کر دیتی ہے۔ اس پر سو کلو کا یہ لحیم شحیم شخص سپیرے کے منہ سے بین چھین لیتاہے اور دروازہ بجا کر بار بار کہتاہے: آنٹی یہ بین لے جائو۔ آنٹی یہ تھوک والا بین لے جائو۔یہ سب نہ صرف یوٹیوب چینل پر نشر کیا جائے گا بلکہ ایک مقامی ٹی وی چینل بھی اسے نشر کرے گاکہ ریٹنگ بہت ہے۔ ریٹنگ کی یہ دنیا کس قدر بدصورت ہے۔ ایسا لگتاہے کہ جیتے جاگتے اور اخلاقیات رکھنے والے انسانوں کا نہیں‘ یہ عہد تو ریٹنگ کا ہے۔ریٹنگ اب وہ واحد پیمانہ ہے،جس پر زندگی کو پرکھا جائے گا۔رہی اخلاقی قدریں، تو وہ بھاڑ میں جائیں۔ 
ایسے ہی ایک اور منظر میں دیکھا کہ ایک شخص، جس نے ایک چھوٹا سا بچّہ اٹھایا ہوا ہے، اپنی تصویر اتروانے ایک سٹوڈیو میں داخل ہوتاہے۔ کمرہ مین اسے سٹوڈیومیں کھڑا کرتاہے۔ پھر کیمرے سے اس کی تصویر اتارنے کے بجائے ایک کاغذ پر پنسل سے اس کا چہرہ بنانا شروع کر دیتاہے۔ حیرت زدہ شخص اسے کہتاہے کہ مجھے توکیمرے سے تصویر اتروانا ہے، پنسل سے سکیچ نہیں بنوانا۔ وہ اس کی بات سنی اَن سنی کر کے پنسل سے اس کاچہرہ نقل کرنے کی کوشش جاری رکھتاہے۔ اس دورا ن ان دونوں میں تلخ کلامی ہوجاتی ہے۔ وہ شخص غصے میں آکر زور زور سے بولنا شروع کردیتاہے۔ کیمرہ مین تو چاہتا ہی یہی ہے۔اس کے چھوٹے سے دماغ میں ریٹنگ پھنسی ہوئی ہے۔ اس وقت بچّہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے باپ کی کیمرہ مین سے لڑائی ہو گئی ہے۔ وہ ڈر کے رونا شروع کر دیتا ہے۔ 
ماشاء اللہ اب تو پچپن سالہ بزرگ بھی پرینک کرتے پھر رہے ہیں، جن کی عمر اب اللہ اللہ کرنے کی ہے۔ انتی عمر کے شخص کے لیے ویسے اس سے بڑی بے عزتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ پندرہ بیس سالہ نوجوانوں سے الجھ کر ان کی وڈیوز بنا کرانٹرنیٹ پہ چڑھاتا ہوا پایاجائے۔ گاہے اس دوران یہ سب لوگ نوجوانوں کے ہاتھوں باقاعدہ جسمانی چھترول سے بھی گزرتے رہتے ہیں۔ ایک شخص اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جلدی کہیں پہنچنا چاہتا ہے، انہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔یہ اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جائیں گے۔ اسے تنگ کرتے رہیں گے ؛حتیٰ کہ وہ مشتعل ہو جائے اور انہیں ریٹنگ مل جائے۔ یہ کسی تنہا خاتون سے ذو معنی گفتگو کریں گے، جو ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ اس کا چہرہ ٹی وی پر دکھایا جائے۔ اس کے خاندان میں اسے برا سمجھا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک شخص آتے جاتے لوگوں کے کانوں میں ایک زور دار باجا بجا کر ان کا ردّعمل ریکارڈ کیا کرتا تھا۔ پھر ایک غصیل نوجوان نے جواباً اس کا اپنا باجا بجا دیا۔ روہانسا ہو کر کہنے لگا: میں مذاق کر رہا تھا بھائی۔ ان سب کے ساتھ یہ ہو چکا ہے اور ایک سے زائد بار۔ فی الوقت تو ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں لیکن اعصاب بالآخر ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایک خاص حد تک ہی وہ دبائو سہہ سکتے ہیں اور ان کی ایک عمر ہوتی ہے۔آپ یقین کریں، یہ جو تماشا دکھا رہے ہیں‘ اس کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ 
یہ لوگ پولیس کا روپ دھا ر کر لوگوں کو راستے میں روکتے اور ان سے تفتیش کرتے ہیں۔ انہیں دھمکاتے اور زمین پر بیٹھ جانے پہ مجبور کرتے ہیں۔ جتنی مجھے قانون کی سمجھ ہے، یہ تو ایک باقاعدہ جرم ہے کہ آپ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے بھیس میں لوگوں کو ہراساں کریں۔یہ لوگ دندان ساز اور عینک ساز بن کے لوگوں کے دانتوں اور آنکھوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔ ایک بیچارہ بوڑھا اپنی آنکھیں چیک کروانے آیا ہے اور یہ اس کی آنکھوں سے کھیل رہا ہے،اس میں سے مزاح بر آمد کرنا چاہتا ہے۔
یہ کون لوگ ہیں، جو ڈائنا سار والے عہد کے بجائے کیمرے والے اس دور میں پیدا ہو گئے ہیں؟ ان کا علاج ہے کیا اور کرے گا کون؟ اس حوالے سے کچھ گزارشات پھر کسی دن!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved