تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-09-2020

جتیندر بمقابلہ سجاد حسین

ایک دنیا ہے کہ صلاحیت پر مرتی ہے۔ جس میں کچھ ہوتا ہے‘ وہ بہت کچھ بنتا ہے، بہت کچھ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کسی طور ممکن نہیں مگر کبھی آپ نے اس نکتے پر بھی غور کیا ہے کہ بہت سے لوگ زیادہ باصلاحیت نہ ہونے پر بھی بہت کچھ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ وہ اپنی اِس خامی یا کمزوری کو کسی اور خوبی کے ذریعے اِس طور پورا کرتے ہیں کہ دنیا کا دھیان اُس طرف جاتا ہی نہیں۔
شوبز میں بالعموم وہی چلتا ہے جس میں غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔ دنیا چڑھتے سورج کی پجاری رہی ہے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی میں زیادہ دم نہیں ہوتا مگر وہ میدان میں ڈٹا رہتا ہے‘ ریس میں شریک رہتا ہے اور دوسروں سے بہت پیچھے رہتے ہوئے بھی بہت سوں سے آگے رہتا ہے۔ ممبئی کی فلم انڈسٹری یعنی بالی وُڈ میں ایسی انوکھی اور خاصی نمایاں مثال جتیندر کی ہے۔ جتیندر کا اصل نام روی کپور ہے۔ وہ ممبئی میں پیدا ہوئے اور ایک زمانے تک یعنی شباب کے آنے تک ممبئی کی ایک غریب بستی کے چھوٹے سے مکان میں مقیم رہے۔ اُن کے والد فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے اور شوٹنگز کے لیے مصنوعی زیورات فراہم کیا کرتے تھے۔ والد کے انتقال نے جتیندر کو اُٹھتی جوانی میں کچھ کرنے پر مجبور کیا۔ وہ فلم انڈسٹری میں کچھ لوگوں کو جانتے تھے۔ کسی طور اُنہوں نے فلم میکر وی شانتا رام سے تعلق استوار کیا۔ وی شانتا رام نے جتیندر کو ایکسٹرا کے طور پر بھرتی کیا یعنی کسی بھی منظر میں کہیں دکھائی دو اور دو تین جملے بول دو۔ ماہانہ تنخواہ 105 روپے مقرر ہوئی۔ یہ رقم گھر چلانے کے لیے تو کافی تھی مگر کچھ کر دکھانے کے لیے بڑی تحریک نہیں دے سکتی تھی۔ پھر بھی جتیندر نے حوصلہ نہ ہارا اور میدان میں ڈٹے رہے۔ اس طور ایک سال گزرا۔
وی شانتا رام اچھی طرح جانتے تھے کہ جتیندر میں سٹار میٹیریل نہیں یعنی وہ بڑے، اچھے اور کامیاب اداکار نہیں بن سکتے۔ وہ بولنے کے معاملے میں بھی منجھے ہوئے نہیں تھے۔ پھر بھی ایک خوبی ایسی تھی جس نے وی شانتا رام کو اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ محسوس کرنے لگے کہ جتیندر کسی نہ کسی طور انڈسٹری میں انٹری دے سکتے ہیں‘ یہ خوبی تھی سَر جھکاکر ہدایات ماننے کی۔وی شانتا رام نظم و ضبط کے بہت پابند تھے۔ وہ شوٹنگ یا کسی اور موقع پر کسی کا دیر سے آنا کسی طور برداشت نہیں کرتے تھے۔ کسی اور شہر میں آؤٹ ڈور شوٹنگ کے دوران ایک دن جتیندر کو اجتماعی ڈنر کے لیے پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو وی شانتا رام ناراض ہوئے اور اپنے یونٹ سے کہا کہ اگلے دن کا اُس کا میک اپ نہ کیا جائے اور پیک اپ کرکے ممبئی واپس بھیجا جائے۔اگلے دن شوٹنگ کے لیے صبح نو بجے کی شفٹ تھی۔ جتیندر سوئے نہیں اور صبح سات بجے تیار ہوکر میک اَپ کروانے کے بعد آٹھ بجے لوکیشن پر پہنچ گئے۔ وی شانتا رام اُنہیں دیکھ کر حیران رہ گئے اور اِتنے خوش ہوئے کہ پچھلی رات کی ناراضی بھول گئے۔ جتیندر کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اُنہوں نے ڈنر کے لیے دیر سے آنے پر معافی چاہی اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
تب تک جتیندر ایکسٹرا تھے اور ماہانہ تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔ اُنہیں کوئی بھی ایسا رول نہیں ملا تھا جو محسوس کیا جاتا۔ وی شانتا رام نے کچھ ہی دنوں کے بعد جتیندر کو سَندھیا (جو بعد میں وی شانتا رام کی شریکِ حیات بنیں) کے مقابل ہیرو منتخب کیا۔ یہ انتخاب فلم ''گیت گایا پتھروں نے‘‘ کے لیے تھا۔ اس فلم نے جتیندر کو فلموں میں اچھی انٹری دی۔ فلم تو خیر کامیاب نہ ہوئی مگر فلم میکرز کے کانوں تک یہ بات پہنچ گئی کہ جتیندر میں وقت کی پابندی اور طے شدہ اصولوں کا احترام کرنے کا وصف غیر معمولی حد تک ہے۔ بالی وُڈ میں ایسے فلم میکرز کی کمی نہیں جو کم صلاحیت والے ایسے اداکاروں اور دیگر فنکاروں کو بھی قبول کرلیتے ہیں کہ وہ نظم و ضبط کے پابند ہوں اور کسی کے لیے دردِ سر نہ بنتے ہوں۔''گیت گایا پتھروں نے‘‘ کے بعد جتیندر کو ''فرض‘‘ ملی۔ اس فلم نے جتیندر کو شناخت بخشی۔ وہ اداکاری میں تو تقریباً کورے تھے مگر توانائی اُن میں غضب کی تھی۔ اُچھل کود اُن کے مزاج کا حصہ تھی۔ اس فلم میں اُنہوں نے خود کو توانائی سے بھرپور ڈانسر کے طور پر تسلیم کروالیا۔ ''مست بہاروں کا میں عاشق ‘‘ وہ گانا تھا جس نے جتیندر کو قدم جمانے میں مدد دی۔ اس کے بعد آئی ''جینے کی راہ‘‘ جس نے جتیندر کو غیر معمولی کامیابی کی راہ دکھائی۔ اس فلم کے سارے گانے ہٹ ہوئے اور ''بڑی مستانی ہے میری محبوبہ‘‘ نے تو مقبولیت کے ریکارڈ ہی توڑ ڈالے۔ اس کے بعد جتیندر نے کبھی مُڑکر نہیں دیکھا۔
فلم میکرز نے جتیندر اور ایسے ہی دوسرے بہت سے اداکاروں کو محض اس لیے قبول کیا اور ترجیح دی کہ وہ نہ تو شوٹنگ پر دیر سے آتے تھے اور نہ ہی نخرے دکھاکر یونٹ کو پریشان کرتے تھے۔ اپنا کام وقت پر مکمل کرواکے وہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تحریک دیتے تھے۔ دوسرے، تیسرے اور چوتھے درجے کے فلم میکرز کو ایسے ہی فنکار پسند ہیں جو کسی کے لیے الجھن پیدا کریں نہ سکینڈلز کے چکر میں پڑیں۔ جتیندر کو فلمیں ملتی گئیں اور وہ کام کرتے رہے۔ انہیں اس بات کی کچھ پروا نہیں تھی کہ کوئی ایوارڈ یا اعزاز ملتا ہے یا نہیں۔
جتیندر کی کہانی میں یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ انسان چاہے تو اپنی بہت سی کمزوریوں کو کسی ایک بڑی خوبی سے بخوبی چھپاسکتا ہے۔ بالی وُڈ میں ایسے باصلاحیت اداکار، گلوکار، نغمہ نگار، موسیقار، ہدایت کار وغیرہ بھی گزرے ہیں جو محض اپنے مزاج یعنی بدمزاجی کے باعث کامیاب نہ ہوسکے۔ ایک نمایاں مثال سجاد حسین کی ہے جو انتہائی باصلاحیت موسیقار تھے۔ انہوں نے 1944 میں ''دوست‘‘ کی موسیقی ترتیب تھی جو ہٹ ہوئی تھی۔ بعد میں اُنہوں نے دلیپ کمار اور مدھو بالا کی فلم ''سنگ دل‘‘ میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ اس فلم میں طلعت محمود کا گایا ہوا گیت ''یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی تری اِک ادا پہ نثار ہے‘‘ لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ سجاد حسین انتہائی سَنکی اور بدمزاج تھے۔ ''دوست‘‘ کی شاندار کامیابی کے بعد فلم میکر شوکت حسین رضوی سے اختلافات ابھرے اور سجاد حسین نے قسم کھائی کہ پھر کبھی نور جہاں کے لیے کوئی گیت کمپوز نہیں کریں گے۔ وہ طلعت محمود کو ''غلط محمود‘‘ اور کشور کمار کو ''شور کمار‘‘ کہا کرتے تھے۔ انہوں نے لتا منگیشکر کے فن میں تب کیڑے نکالے جب وہ منجھ کر مثالی نوعیت کی کامیابی حاصل کرچکی تھیں۔ حد یہ ہے کہ سجاد حسین نے موسیقارِ اعظم نوشاد علی کو بھی ''کچا موسیقار‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی! اس بدمزاجی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 33 سال تک بالی وڈ سے وابستہ رہنے کے باوجود وہ صرف 17 فلموں میں موسیقی دے پائے! کے آصف کو سجاد حسین کا کام پسند تھا اور وہ ''مغلِ اعظم‘‘ کے لیے اُنہیں سائن کرنا چاہتے تھے مگر دماغ کے خلل نے یہ عظیم فلم سجاد حسین کے ہاتھ سے نکال دی۔ مدن موہن بڑے موسیقار ہونے کے باوجود وسعتِ قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے سجاد حسین کے فن کا لوہا مانتے تھے مگر سجاد حسین نے اُنہیں بھی ناراض کیا۔
جتیندر نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ کامیابی ملنے پر اور بہت کچھ کمانے کے بعد وہ نرم خُو ہی رہے اور کبھی کسی کے بارے میں توہین آمیز رائے نہیں دی۔ یہ ایک سِرے کی بات ہے۔ دوسرے یا مخالف سِرے پر سجاد حسین تھے جو کم و بیش 70 تا 80 فلمیں دے سکتے تھے مگر صرف 17 فلمیں دے پائے۔ آج کم ہی لوگ اُنہیں یاد کرتے ہیں اور اچھے لفظوں میں تو کوئی بھی یاد نہیں کرتا۔ جتیندر اور سجاد حسین کے موازنے سے سیکھا جاسکتا ہے کہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو جھک کر ملتے ہیں، دوسروں کو تسلیم کرتے ہیں اور اپنی کسی بات سے کسی کو غیر ضروری طور پر تکلیف نہیں پہنچاتے۔ میر انیسؔ نے خوب کہا ہے ؎
بد اصل تکبر کے سُخن کہتے ہیں اکثر
جو صاحبِ جوہر ہیں جُھکے رہتے ہیں اکثر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved