تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     29-09-2020

جواب آں غزل

جواب آں غزل کے لیے پہلے حکومت نے اپنے وزیروں اور مشیروں کی فوجِ ظفرموج میدان میں اتاری جن میں شعلہ بیاں پروفیسر شہباز گل سے لے کر دھیمے سروں میں نرم دمِ گفتگو جناب شبلی فراز تک موجود تھے۔ مگر جواب آں غزل بن پڑا نہ بات بن سکی۔ یہ دیکھ کر حکومت نے میڈیا کے رستم زماں جناب شیخ رشید احمد کو اکھاڑے میں اتارا۔ شیخ صاحب جب کبھی ایسے مواقع پر للکارتے ہوئے اکھاڑے میں اترتے ہیں تو اُن کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ اکیلے ساری اپوزیشن پر بھاری ہیں۔ اس بار جناب شیخ روایتی کشتی کے دائو پیچ آزمانے کے بجائے فری سٹائل پر اتر آئے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو کوسنے دیے اور اُن سے ایک دو گفتنی اور بہت سے ناگفتنی سوالات کر ڈالے۔ جناب شیخ نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ اُن کے سوالوں کی زد کہاں کہاں پڑے گی اور کیا ایسے سوالات سرعام کیے بھی جانے چاہئیں یا نہیں۔ جناب شیخ نے جو کچھ فرمایا اس پر پنجابی کا یہ محاورہ ہی صادق آتا ہے کہ 
گھر دا زیاں جگ دی شہرت
جنابِ شیخ سے بھی بات نہ بن سکی اور وہ میاں نواز شریف کی ''چارج شیٹ‘‘ کا دلیل اور دستور کی زبان میں جواب دینے کے بجائے طعنہ زنی پر اتر آئے۔ ہم جیسے شیخ رشید احمد کے مداح یہ سوچ رہے تھے کہ شیخ صاحب میاں نواز کے مصرع طرح پر کوئی ایسی دل تڑپا دینے والی گرہ لگائیں گے کہ لوگ واہ واہ کر اٹھیں گے مگر اس کے بجائے جناب شیخ نے بھی جوابی و الزامی چارج شیٹ پیش کرنے پر اکتفا کیا۔کم از کم میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی کہ اپنی فوج کے سربراہ یا دیگر متعلقہ افسران سے اس طرح کی انفرادی یا اجتماعی ملاقاتوں میں ایسا کیا تھا کہ جس پر طوفان اٹھا دیا جائے۔ ایسی میٹنگز کوئی نئی روایت نہیں۔ یہ ملاقاتیں اہم ملکی معاملات کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔ ایسی دوطرفہ ملاقاتیں باہمی اعتماد کی ضرورت ہیں۔ جس طرح حسبِ ضرورت حکومتی سیاست دان فوج کے اعلیٰ عہدہ داران سے ملاقاتیں کرتے ہیں اسی طرح اپوزیشن والے بھی فوج کے بلانے پر بغیر کسی تحفظ کے چلے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی عیب ہے اور نہ ہی یہ کوئی نامناسب بات ہے۔
پاک فوج کے سربراہ سے پارلیمانی قائدین کی جو حالیہ میٹنگ زیر بحث ہے یہ 16 ستمبرکوہوئی۔ انہوں نے تمام پارلیمانی قائدین کو اس میٹنگ میں مدعو کر رکھا تھا۔ ان قائدین میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف‘ بلاول بھٹو زرداری‘ سینیٹر سراج الحق‘ محترمہ شیری رحمن‘ اسعد محمود ابن مولانا فضل الرحمن وغیرہ اور حکومتی بنچوں کی طرف سے شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید احمد بھی موجود تھے۔ یہ میٹنگ گلگت بلتستان کے نئے دستوری سٹیٹس کے بارے میں تھی۔ حکومت اور اپوزیشن کی کئی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی خواہش کے مطابق اسے پاکستان کا ایک صوبہ بنا لیا جائے۔ اتنا بڑا فیصلہ اپوزیشن کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کے لیے تمام پارلیمانی قائدین کو مدعو کیا گیا تھا۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ اس میٹنگ میں قائدِ ایوان جناب عمران خان بھی بنفس نفیس شریک ہوتے یا وہ اپنے پاس سب کو مدعو کرتے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ جناب عمران خان اپوزیشن کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ اُن کا خیال یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی ملاقات ہو گی تو اپوزیشن این آر او مانگ لے گی۔ اس لیے وہ باہمی ملاقات کا رسک ہی نہیں لیتے۔ اب سکیورٹی معاملات‘سرحدی تنازعات یا اہم نوعیت کی دستوری اصلاحات کے کام کو مؤخر تو نہیں کیا جا سکتا ‘اسی لیے یہ ضروری کام خودسپہ سالار کو انجام دینا پڑا۔
16 ستمبر بروز بدھ ہونے والی اس میٹنگ کے بارے میں حکومت‘ آئی ایس پی آر یا اپوزیشن قائدین نے کوئی خبر جاری نہیں کی تھی اس لیے مکمل خاموشی اور لاعلمی تھی۔ چارسو خامشی کی اس فضا میں مجھے یہ خبر قدرے تفصیل کے ساتھ 19 ستمبر بروز ہفتہ دوپہر کے وقت ایک ثقہ ذریعے سے معلوم ہو گئی تھی۔ اس تفصیل کے مطابق تقریباً سبھی جماعتوں نے گلگت بلتستان کو صوبے کا سٹیٹس دینے کی حمایت کی اس شرط کے ساتھ کہ ایسی دستوری ترمیم گلگت بلتستان میں ہونے والے نومبر کے انتخابات کے بعد کی جائے۔ البتہ پاک فوج کے سربراہ نے جناب سراج الحق سے کہا کہ ہمیں آپ کی جماعت کا مؤقف معلوم ہے‘ آپ گلگت بلتستان کے صوبہ بنانے کے حق میں نہیں ۔ 18 ستمبر کو رکن آزاد کشمیر اسمبلی اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سینئر رہنما جناب رشید احمد ترابی نے ایک میسج ارسال کیا۔ ترابی صاحب کے بقول ''گلگت بلتستان تاریخی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ وہاں کے مجاہدین آزادی نے لازوال قربانیوں سے اسے آزاد کروایا تھا اور معاہدہ کراچی کی رو سے حکومت آزاد کشمیر نے عارضی طور پر اس کا انتظام و انصرام حکومت پاکستان کے سپرد کیا۔ کشمیری قیادت اور حریت کانفرنس کو اعتماد میں لیے بغیر اس کے آئینی سٹیٹس میں تبدیلی بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے بارے میں ہمارے تاریخی مؤقف کو بھی متاثر کرے گی۔ اس لیے عجلت میں فیصلے کرنے کے بجائے اصل سٹیک ہولڈرز سے ملاقات کا بندوبست کیا جائے‘‘۔ میرے ایک سوال کے جواب میں ترابی صاحب نے بتایا کہ امیر جماعت اسلامی نے گلگت بلتستان کے بارے میں جماعت کا اصولی مؤقف بیان کیا ہے۔
اس میٹنگ کا رسمی ایجنڈا تو گلگت بلتستان تک محدود تھا‘ مگر جس طرح کسی جگہ پر متعدد شعرائے کرام جمع ہوں تو وہاں ''کلام شاعر بزبان شاعر‘‘ سنا اور سنایا جاتا ہے۔ اسی طرح سے جہاں اتنے سیاست دان اکٹھے ہوں گے وہاں حالِ دل بیان تو کیا جائے گا۔ بقول امیر مینائی؎ 
امیر جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے
پھر التفات دلِ دوستاں رہے نہ رہے
لہٰذا وہاں بھی گلگت بلتستان کے علاوہ سیاست پر بھی گفتگو ہوئی ہو گی۔ بعض ذرائع کے مطابق وہاں مقتدر حلقوں کے انتخابات میں مداخلت اور احتساب پر بھی بات ہوئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپوزیشن قائدین پر واضح کیا کہ فوج کا سیاست میں کوئی دخل نہیں۔ نیب کے سربراہ اور الیکشن کمشنر کا تقرر سیاست دان کرتے ہیں فوج نہیں کرتی۔20 ستمبر تک اس میٹنگ کے بارے میں مکمل خاموشی رہی اور دوطرفہ افہام و تفہیم کی فضا بھی برقرار رہی‘ مگر جب مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اے پی سی کی میٹنگ میں دھواں دھار تقریر کر ڈالی تو ہر چیز بدل گئی۔ حکومت کے بعض مشیروں وزیروں نے اس میٹنگ کو فوج کے ساتھ پسِ پردہ رابطوں کا رنگ دے دیا اور پھر ایک نہیں کئی ملاقاتوں کے ''رازوں‘‘ سے خود ہی پردہ بھی اٹھا دیا۔ گلگت بلتستان کے بارے میں اپوزیشن مخالف حکومتی بیانوں کے نتیجے میں افہام و تفہیم کی فضا بگڑ گئی۔ اس لیے ان امور پر بلائے گئے سپیکر کے اجلاس کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اسی بائیکاٹ کی روشنی میں سپیکر نے یہ اجلاس ملتوی کر دیا۔ جہاں تک میاں نواز شریف کی تقریر کا تعلق ہے تو اس پر مختصر تبصرہ تو یہ کیا جا سکتا ہے کہ Not the whole Truth۔ البتہ تقریر میں جو قانونی‘ دستوری‘ انتخابی اور بالخصوص اقتصادی و عالمی امور کے حوالے سے نکات اٹھائے گئے ہیں اُن کے بارے میں کسی ترجمان نے کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی اس معاملے میں ایوان کے اندر اور ایوان کے باہر کسی سنجیدہ علمی و سیاسی مکالمے کا آغاز ہو سکا ہے۔ اگرچہ جناب شیخ نے دوغزلہ اور سہ غزلہ تو کہہ ڈالے ہیں ‘مگر اُن کی طرف سے بھی ابھی تک جواب آں غزل نہیں آیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved