تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-09-2020

سرخیاں، متن، ’’آٹو گراف‘‘ اور نعیم ضرار کی شاعری

حکومت نے ہمارے ہر تعاون کو ٹھوکر ماری: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت نے ہمارے ہر تعاون کو ٹھوکر ماری‘‘ اگرچہ وہ تعاون بھی زبانی کلامی ہی تھا، تاہم ہر تعاون کو ٹھکر مارنا بھی نہایت نامناسب بات ہے اور آدمی کو کوئی ٹھوکر بچا کر بھی رکھنی چاہیے کیونکہ کوئی تعاون ٹھوس اور بامعنی بھی ہو سکتا ہے حالانکہ حکومت کو بہت اچھی طرح سے علم ہے کہ یہ میری آزادی کی آخری چند ساعتیں ہیں اور ظاہر ہے کہ جیل سے تو تعاون کی پیش کش نہیں کی جا سکتی ماسوائے اس کے کہ جیل میں حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے جو باہر سے چلا چلا کر تو ہم تھک گئے ہیں؛ تاہم جیل کی تحریک میں بھی کوئی جان تبھی پڑ سکتی ہے جب بھائی صاحب واپس آ کراسے رونق بخشیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
صوبے کو سیاحت کا مرکز بنائیں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''صوبے کو سیاحت کا مرکز بنائیں گے‘‘ جبکہ سب سے بڑا سیاحتی مقام تو ہم اور ہماری حکومت ہو گی جس کے بعد سیاحوں کو کسی اور سیاحتی مرکز پر جانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کیونکہ یہاں جیہڑا بھنو لال اے یعنی زعمائے حکومت بھی اپنے اپنے طور پر ایک قابل دید سیاحتی مرکز کی حیثیت کے حامل ہیں جبکہ ٹکٹ بھی بالکل معمولی ہوگا اورہر فرد کی پہنچ کے اندر ہوگا، نیز ہر سیاحتی مرکز کے آس پاس کھانے پینے اور دیگر اشیاکی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا اور اسی مد سے اتنے پیسے حاصل ہو جایا کریں گے کہ صوبہ اپنے پاؤں پرکھڑا ہوجائے گا۔ آپ اگلے روز شالامار باغ میں خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے‘‘ حالانکہ حکومت بے چاری کے پاس ہے کیا جو اسے بلیک میل کیا جا سکے بلکہ خود حکومت اپوزیشن کو بلیک میل کرنے کے چکروں میں ہے اور جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو وہ ہماری جانب سے نہیں کیونکہ زمین پر ہر چیز اوپر سے ہی آتی ہے لہٰذا آسمانی تحفوں کا کفران بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لئے اپوزیشن ہوش کے ناخن لے۔ آپ اگلے روز ٹویٹ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
اپوزیشن استعفے دے گی تو وزیراعظم کا
بھی نیا الیکشن ہوگا: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن استعفے دے گی تو وزیراعظم کا بھی نیا الیکشن ہوگا‘‘ اگرچہ اس بات میں کوئی شک اور منطق نہیں ہے لیکن یہ اس لئے کہا ہے کہ پہلے ملک میں سارے کام کس منطق کے تحت ہو رہے ہیں؟ اس لئے اس طرح کا بیان دینے کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے اور اگر موجود نہ بھی ہو تو سیاسی رہنما یہ گنجائش خود نکال سکتا ہے، اوّل تو اپوزیشن کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ استعفے دینا شروع کر دے بلکہ اسے ان نشستوں کو یادگار کے طور پر محفوظ کرنا چاہیے کیونکہ اگلے الیکشن میں تو وہ ان سے بھی محروم رہے گی جبکہ منطقی تقاضا بھی یہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک وڈیو پیغام جاری کر رہے تھے۔
سابق حکمرانوں نے جتنے بگاڑ پیدا کئے‘ اُنہیں
درست کرنے کے لئے وقت درکار ہے: حماد اظہر
وفاقی وزیر برائے صنعتی پیداوار حماد اظہر نے کہا ہے کہ ''سابق حکمرانوں نے جتنے بگاڑ پیدا کئے‘ انہیں درست کرنے کے لئے وقت درکار ہے‘‘ اور جو کچھ ہم کر کے جائیں گے‘ اُسے درست کرنے کے لئے بھی وقت، بلکہ زیادہ وقت درکار ہوگا کیونکہ حکومتیں بگاڑ ہی پیدا کرنے کے لئے ا ٓتی ہیں اور جانے والی حکومت کا بگاڑ ہمیشہ آنے والی حکومت درست کرتی ہے اور ساتھ ساتھ خود بھی بگاڑ پیدا کرتی جاتی ہے کیونکہ آنے والی حکومت نے آخر کچھ تو کرنا ہی ہوتا ہے کہ کوئی حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ تو نہیں سکتی۔ ساری برکت مصروف رہنے میں ہی ہے اور ہر اچھی حکومت کا طرئہ امتیاز بھی یہی ہے۔ آپ اگلے روز اپنے حلقۂ انتخاب میں فری ڈسپنسری کا افتتاح کر رہے تھے۔
حکومت کو خطرہ اپنی کارکردگی اور مہنگائی سے ہے: عطا اللہ
نواز لیگ کے رہنما عطا اللہ نے کہا ہے کہ ''حکومت کو خطرہ اپنی کارکردگی اور مہنگائی سے ہے‘‘ کیونکہ ہمارا تو اپنا برا حال ہے، ہم سے ا سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے، جماعت میں دھڑے بنے ہوئے ہیں، کسی کا منہ کسی طرف ہے توکسی کا کسی طرف، ہماری پارٹی کے قائد عدالت کو مطلوب اور ملک سے باہر مقیم ہیں تو پارٹی صدر سرکاری مہمان بن گئے ہیں جبکہ پارٹی کے اندر آوازیں بلند ہونا بھی شروع ہو گئی ہیں، اس لئے اپوزیشن سے خطرہ محسوس کرنے کے بجائے حکومت کو اپنی کارکردگی درست اور کمر توڑ مہنگائی کا کوئی علاج کرنا چاہیے ورنہ ہم سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
آٹو گراف
یہ سابق ڈی ایس پی غلام عباس کے افسانوں کا مجموعہ ہے جسے فروغِ ادب اکادمی گوجرانوالہ نے شائع کیا ہے۔ کتاب کا انتساب اس کے ٹائٹل پر ہی درج ہے جو عوامی آفیسر جناب رفعت مختار راجہ کے نام ہے۔ سرورق پرہی مصنف کی جوانی کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ ''غلام عباس، سب انسپکٹر سے کہانی نویس تک‘‘ کے عنوان سے اس کا دیباچہ ہمارے دوست منو بھائی کا تحریر کردہ ہے جس میں انہوں نے غلام عباس کے افسانوں کو دلچسپ اور قابلِ مطالعہ قرار دیا ہے، جبکہ محسن نقوی نے بھی اپنی مختصر تحریر میں غلام عباس کو حوصلہ افزائی کی ہے، علاوہ ازیں پس سرورق ستائشی رائے دینے والوں میں جان کاشمیری، انور امان ایم ایس ڈی ایچ کیو ٹیچنگ ہسپتال گوجرانوالہ، عمران عباس چدھڑ، سید انصر سبطین نقوی، میجر شہزاد نیّر اور صالحہ سعید کے قلم سے ہیں۔ کتاب میں کل 19 افسانے شامل ہیں جن کی زبان سلیس اور انداز دلچسپی کا حامل ہے۔
اور‘ اب آخر میں نعیم ضرار کی شاعری:
محشر میں بھی آمادئہ تکرار ہو کوئی
مشکل ہے مرے جیسا گنہگار ہو کوئی
سائے سے کہا ہے کہ پلٹ جائے اُدھر کو
میری طرح شاید پسِ دیوار ہو کوئی
اے دل مرے سینے سے نکل اشکوں کی صورت
آنکھوں کی زبانی ترا اظہار ہو کوئی
ہر روز یہاں دیتا ہوں اُردو کی اذانیں
آ جائے اگر اس کا طلبگار ہو کوئی
میں شہرِ خموشاں میں اُٹھا لایا ہوں اشعار
ممکن ہے یہاں اُن کا خریدار ہو کوئی
٭......٭......٭
شمار میں بھی نہیں تھا شمار تم بھی نہ تھے
مجھے نکال کے جزو قطار تم بھی نہ تھے
ہوا ہے مجھ سے جو اس کا گلہ نہیں کوئی
گلہ تو یہ ہے کہ بے اعتبار تم بھی نہ تھے
ہوا تھا ترکِ تعلق پہ میں بھی کب تسلیم
گریزِ خاص پہ رکھتے اُدھار تم بھی نہ تھے
٭......٭......٭
کاندھے پہ وہ گھر بار کا احساس اُٹھا کر
ہر روز نکل پڑتا ہے تھرماس اُٹھا کر
وہ جرمِ محبت میں گیا اپنی ہی جانب
مفرور کی تفتیش کا کمپاس اُٹھا کر
محفل میں سبھی عام سے لوگوں میں تھا میں بھی
کر ڈالا ہے خود اُس نے مجھے خاص اُٹھا کر
آج کا مطلع
مطمئن عشقِ خوش آغاز کے انجام سے ہیں
خواہشیں کوئی نہ تھیں اس لیے آرام سے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved