وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی سے اپنے وڈیو لنک خطاب میں کشمیریوں کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو یاد دلایا کی وہ کشمیر کے حوالے اپنی ذمہ داری نہیں نبھا سکا۔ انہوں نے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا اور بھارت میں اسلامو فوبیا کی آڑ میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے ٹھوس شواہد بھی پیش کئے۔ یقینا وزیراعظم کا یہ جرأت مندانہ اقدام قابلِ تحسین ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی بنیاد پر جنرل اسمبلی کو بھارتی جنونیت روکنے کا کوئی حتمی فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جائے بصورت دیگر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کی جا سکتی۔ افسوس تو یہ ہے کہ گزشتہ برس بھی اس عالمی پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر وزیراعظم پاکستان نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑا تھا مگر اقوام عالم کے دکھ درد کے مداوا کا واویلا مچانے والی عالمی برادری کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور مقبوضہ وادی سے ایک روز کے لئے بھی کرفیو اٹھایا نہ جا سکا۔ وزیراعظم نے متعدد بار اقوام متحدہ کو پکارا مگر جواب ندارد!۔ نائن الیون کے وقت ہمیں پوچھا گیا تھا: Are you with us or not?۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہی سوال ہم دنیاسے پوچھیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھلے عام کشمیریوں کی حمایت کرنے پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے بھی ہم شکر گزار ہیں کہ انہوں نے غاصب بھارت کی مسلم دشمنی کو دنیا کے سامنے لاتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھا کر صحیح معنوں میں مسلم امہ کے لیڈر کا کردا ر ادا کیا۔ صدر اردوان نے اسے پاکستان یا کشمیریوں کا نہیں‘ انسانیت کا مسئلہ قرار دیا اور اقوام متحدہ کو مسلمانوں کے حوالے سے دہرے رویے پر آئینہ بھی دکھایا۔ دوسری جانب چین کے صدر نے بھی امریکا کو خوب آڑے ہاتھوں لیا، صدر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ اقوام متحدہ ناانصافی کے خاتمے، قانون کی حکمرانی کے نفاذ، تعاون کو فروغ دینے اور وبا کے بعد کے دور میں کیے جانے والے اقدامات پر توجہ مرکوز کرے۔1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد جنگ عظیم کے دوران پیش آنے والے ہولناک مظالم اور انسانی مصائب سے بچنا اور ایک ایسا ڈھانچہ ترتیب دینا تھا، جس سے بین الاقوامی تنازعات کو پُرامن طور پر حل کیا جا سکے۔ ایسے میں جب عالمی ادارہ اپنی 75ویں سالگرہ منا رہا ہے‘ پورا کرۂ ارض شورش اور مختلف النوع مسائل سے دوچار ہے۔ کووڈ 19 کی وبا ہو یا ماحولیات کا مسئلہ‘ نسلی تعصب ہو یا بڑھتی ہوئی عدم مساوات ‘ ہماری آج کی دنیا میں ایک انتشار کی کیفیت ہے۔ ایسے میں عالمی ادارے کے ایوانوں میں محض بیان بازی اور تقریروں سے مقصد کا حصول کی امید ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔
پہلی جنگ عظیم میں شدید تباہی کے بعد ''لیگ آف نیشنز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد مختلف ملکوں کے درمیان تنازعات کو رفع کرنا تھا تاکہ جنگوں کی نوبت نہ آئے اور انسانی جان و مال کا اتلاف نہ ہو۔ مگر یہ لیگ دوسری جنگ عظیم کو برپا ہونے سے نہ روک سکی۔ اگست 1945ء میں امریکا کی جانب سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا، کم و بیش ساڑھے پانچ کروڑ افراد اس جنگ میں ہلاک ہوئے جبکہ نو کروڑ سے زیادہ انسان زخمی اور معذور ہوئے، پورا یورپ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ اس پس منظر میں ایک بار پھر کسی عالمی ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی اور اکتوبر 1945ء میں یونائٹیڈ نیشنز آرگنائزیشن (یو این او) قائم کی گئی۔ ہرچند کہ اس کا معاملہ لیگ آف نیشنز جیسا نہیں رہا مگر کسی نئی عالمی جنگ کو روکنے کے علاوہ یہ اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ عالمی دھاندلیوں اور غاصبانہ کارروائیوں کو روکنے میں یہ ادارہ بے بس نظر آتا ہے۔ اسے نہ تو عراق‘ ایران جنگ روکنے میں کامیابی ملی نہ ہی افغانستان سے سوویت یونین کو دور رکھنے میں، یہ نہ تو کویت پر عراق کے حملے کو روک سکا نہ ہی عراق پر امریکا کی قیامت خیز اور وحشت ناک بمباری کو، جس کا سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔ اقوام متحدہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کے غاصبانہ عزائم اور اس کی شیطانیت کو بھی لگام نہ ڈال سکا۔ بلاشبہ اس کی منظور کردہ مذمتی قراردادوں کی تعداد کم نہیں ہے مگر ان کا کچھ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی یومِ امن تو ہر سال منایا جاتا ہے لیکن امن کے حصول کی منزل اتنی ہی دور ہوتی جاتی ہے۔ میانمار میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہو، فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام پر صہیونیوں کے مظالم اور بمباری، کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں، کشمیری عورتوں کی آبرو ریزی کی جا رہی ہو یا بھارت میں اقلیتی شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق غصب کیے جا رہے ہوں‘ ان معاملات پر اقوام متحدہ اور عالمی امن کے دعویداروں کی مجرمانہ خاموشی مسلم امہ کے ساتھ امتیازی سلوک کی بدترین مثال ہے۔
مغربی اقوام کے نظریات اور ان کے مفادات کے تحفظ کے خاطر ترتیب دیا گیا نظام دراصل مسائل کی اصل جڑ ہے۔ درحقیقت اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کی حامل چند طاقتوں کی اجارہ داری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عالمی ادارہ بڑی طاقتوں کا آلہ کار اور ان کے مفادات کی ڈھال ہے‘ جب مسلمانوں پر اپنی خودساختہ پابندیاں نافذ کرنی ہوں تو اس کی فعالیت قابل دید ہوتی ہے۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف قائم ہونے والا یو این کا ذیلی ادارہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کس طرح فرضی جرائم کے دعوے کرکے‘ پاکستانی معیشت کو دباؤ میں لاتا ہے‘ سب کے علم میں ہے۔ اب لگاتار حکومت پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھ کر‘ آئے روز نت نئے مطالبے کئے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب انکل سام سے کسی خیرکی امید رکھنا سراسر دھوکا ہے۔ صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کی شکل میں وائٹ ہاؤس میں بھارت کا بہترین دوست موجود ہے۔ اگر ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں واپسی ہوئی تو بھارت کے ذریعے چین کا گھیرا تنگ کیا جائے گا، دوسری طرف سی پیک منصوبے کے خلاف سازشوں کا نیا سلسلہ بھی شروع ہوگا۔ جنوبی ایشیا کی سیاست کا محور کشمیر کا مسئلہ ہے‘ جب تک یہ حل نہیں ہوتا‘ خطے میں امن کا خواب تعبیر نہیں پا سکتا۔ مشرقی تیمور کو تو راتوں رات آزادی دلائی جا سکتی ہے کیونکہ آزادی کا مطالبہ کرنے والے مسلمان نہیں تھے مگر فلسطین اور کشمیر کا تصفیہ ابھی تک حل طلب ہے۔ ان مظلوم قوموں کی نسلوں کی نسلیں گزر گئیں مگر نتیجہ صفر۔ سنچری ڈیل، گوگل سے فلسطین کے نقشے کا غائب ہونا محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم سازش کا حصہ ہیں، اب وہی کھیل کشمیر میں کھیلا جا رہا ہے۔ اس وقت یورپ سے لے کر بھارت تک اسلامو فوبیا کی لہر عروج پر ہے۔ مودی کی سر پرستی میں حیوانیت کا ننگا ناچ جاری ہے، مسلمانوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں، دن دہاڑے پولیس کی سر پرستی میں آر ایس ایس کے غنڈے خواتین کی عصمتیں لوٹ رہے ہیں، یہاں تک کہ کورونا کا ملبہ بھی مسلم طبقے پر ڈال دیا گیا ہے ۔الغرض آر ایس ایس کا پرچارک نریندر مودی بھارت سے مسلم نام و نشاں مٹانے کے گھنائونے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ جودھ پور میں پاکستانی ہندوئوں کے ایک پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور عالمی میڈیا سمیت انسانی حقوق کے ادارے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیز کارروائیاں جاری ہیں اور سرحد پر مادرِ وطن کے دفاع اور اسلام کی سر بلندی کیلئے ہمارے شیر دل فوجی جوان و افسر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ بھارت بدمست ہاتھی کی طرح ہر انسانی و اخلاقی قدر پامال کر رہا ہے مگر کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ دنیا میں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و سلامتی کا قیام اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب اقوام عالم میں دہرے معیار کا خاتمہ ہو، کمزور ہو یا طاقتور‘ ہر ملک و قوم کے ہر فرد کے ساتھ بلاتفریق انصاف ہو۔