کہتے ہیں زندگی کے ٹیڑھے میڑھے راستوں کی بے ترتیبی میں دراصل ایک خفیہ ترتیب چھُپی ہوتی ہے جس کا احساس ہمیں منزل پر پہنچ کر ہوتا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لاہور کی لمز (LUMS) یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔کبھی کبھار راولپنڈی آنا ہوتا جس کی بڑی وجہ والدہ سے ملاقات ہوتی۔انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک روز میں ایئر پورٹ کے لاؤنج میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھاکہ میں نے محسوس کیا کہ میرے قریب کی نشست پر کوئی آکر بیٹھا ہے۔میں نے نگاہ اُٹھا کر دیکھا تو یہ فتح محمد ملک صاحب کا مانو س چہرہ تھا‘ جن کو میں تقریبات میں تو دیکھتا تھا لیکن ان سے کبھی نشست نہیں ہوئی تھی۔فتح محمد ملک صاحب کا نام کئی لحاظ سے معتبر ہے وہ اردو کے ایک مایہ ناز ادیب اور نقاد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک طویل عرصے تک ملکی اور غیر ملکی جامعات میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے ہیں ۔قائد اعظم یونیورسٹی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز کے ڈا ئریکٹر رہے‘ بعد میں وہ نیشنل لینگویج اتھارٹی کے چیئرمین اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر کے عہدوں پر فائز رہے۔
کچھ ہی دیر میں ہم بے تکلفی کے ماحول میں باتیں کر رہے تھے۔اُن دنوں ملک صاحب لینگویج اتھارٹی کے مہتمم ِ اعلیٰ تھے۔ہماری گفتگو میں ایڈورڈ سعید کا ذکر آیا تومیں نے کہا: اُن کی کتاب اورینٹل ازم (Orientalism) میری پسندیدہ کتاب ہے جس کے مطالعے نے میر ے لیے فکر کے نئے دریچے کھول دیے ہیں۔ملک صاحب نے کہا: پھر تو آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہم اس کتاب کا اردو ترجمہ شائع کر رہے ہیں۔مجھے اس خبر پر مسرت بھری حیرت ہوئی۔ ملک صاحب نے میرا ایڈریس لیا اور کہا : کتاب آپ کو پہنچ جائے گی۔ابھی بہت سی اورباتیں ہونی تھیں کہ میری فلائٹ کا اعلان ہوا اور میں رخصت لے کر جہاز کی طرف جانے لگا۔میں لاہور جا کر یونیورسٹی کی مصروفیت میں گُم ہو گیا۔تین چار دن بعد مجھے ایک پیکٹ ملا‘ کھول کر دیکھا تو ملک صاحب نے وعدے کے مطابق اورینٹل ازم کا اردو ترجمہ'' شرق شناسی‘‘ بھیجا تھا۔یہ ملک صاحب کی شخصیت کا وہ رُخ تھا جس نے مجھے بہت متاثر کیا ‘ورنہ ہم وعدے تو کرتے ہیں لیکن ان کو ایفا کرنا بھول جاتے ہیں۔
میرا آبائی شہر راولپنڈی ہے لیکن ملازمت کے سلسلے میں زیادہ تر لاہور اور کراچی رہا۔تقریباً 26سال کے بعد اپنے شہر واپس آیاتو ملک صاحب سے ملاقاتوں کا امکان بڑھ گیا۔چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ میں اور رؤف کلاسراملک صاحب کے گھر پہنچ گئے‘ ہمیں خبر ملی تھی کہ وہ آج کل اپنی سوانح عمری لکھ رہے ہیں۔ہم نے سوچا اس کے شائع ہو نے میں تو کچھ مہینے لگ جائیں گے‘ کیوں نہ ملک صاحب کی زبانی اس کہانی کا ابتدائی حصہ سب سے پہلے سننے کا اعزازہم حاصل کریں۔ہمیشہ کی طرح ملک صاحب نے گرم جوشی سے استقبال کیا اور فتح شیرہمیشہ کی طرح بغیر کہے چائے لے آیا اور پھر ہماری فرمائش پر ملک صاحب نے اپنی سوانح کا پہلا باب سنانا شروع کیا‘ جس کا عنوان تھا ''آشیانہ ٔ غربت ‘‘ ۔''آشیانہ ٔ غربت ‘‘ دراصل ان کی حویلی کے دروازے پر لگا وہ بورڈ تھا جو ان کے والد صاحب نے لگایا تھا۔والد صاحب مڈل سکول میں ٹیچر تھے۔گاؤں میں جمعہ کا خطبہ خود دیتے تھے اور یہ معمول زندگی بھر رہا۔عاجزی اور انکساری ان کے جسم و جاں کا حصہ تھی۔ وہ کتابوں کے رسیا تھے ‘یہی وجہ ہے کہ ان کے گھر کتابوں کا ایک ذخیرہ تھا۔اس زمانے میں دور و نزدیک شائع ہونے والے سب رسالے باقاعدگی سے ان کے گھر آتے تھے۔والد صاحب عطااللہ شاہ بخاری کی تقریر وں کے شیدائی تھے۔علاقے کے گردونواح میں کہیں بھی عطااللہ شاہ بخاری کی تقریر ہوتی تو وہ اس میں لازمی شریک ہوتے۔ملک صاحب اپنی والدہ کا ذکر بہت محبت سے کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے ساری زندگی محنت اور مشقت سے گزاری اور کیسے بچوں کی نگہداشت ان کی اولین ترجیح تھی ۔میٹرک کے امتحان میں کامیابی کے بعد کالج میں داخلے کا مرحلہ تھا‘قریب ترین کالج چکوال میں تھا لیکن سب کی رائے کے برعکس والد صاحب نے تلہ گنگ سے 80میل دور کیمبلپور کا انتخاب کیا ۔اس انتخاب کی بڑی وجہ کیمبلپور میں علامہ زاہد الحسینی کا درسِ قرآن تھا ۔کیمبلپور بھیجنے کی دوسری بڑی وجہ غلام جیلانی برق کی شخصیت تھی جو اس وقت کیمبلپور کالج کے پرنسپل تھے۔فتح محمد ملک صاحب کا کہنا تھا کہ یہی ان کی زندگی کا فیصلہ کُن موڑ تھا۔اگر وہ کیمبلپور کالج نہ آتے تو شاید ان کامیابیوں سے آشنا نہ ہوتے جو بعد میں ان کے حصے میں آئیں ۔ملک صاحب پروفیسر عثمان صاحب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ نت نئی کتابوں کا تذکرہ کرتے اور مجھے بھی ان کتابوں کو پڑھنے کی ترغیب دلاتے۔
کیمبلپور کالج میں ہی ان کی ملاقات منو بھائی اور شفقت تنویر مرزا سے ہوئی جو بعد میں اردو ادب کے درخشاں نام بنے۔ منو بھائی کے ذکر سے ملک صاحب کے ہونٹوں پر ایک دل آویز مسکراہٹ آجاتی ہے۔ منو بھائی کا اصل نام منیر بن عظیم تھا اور وہ کالج میں جینئس کے نام سے مشہور تھے۔ وہ بیک وقت شاعر ‘افسانہ نگار ‘مزاح نگار ‘ڈرامہ نگار اور آرٹسٹ تھے۔شفقت تنویر مرزابھی ایک با صلاحیت طالب علم تھے‘ جسے لکھنے پڑھنے سے رغبت تھی۔ملک صاحب مذہب کی طرف رجحان ہونے کی وجہ سے اپنے دوستوں کے حلقے میں' مولوی‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کیمبلپور میں ان کا ٹھکانہ معروف شاعر منظور عارف کا گھر ہوتا تھا۔منو بھائی اور شفقت تنویر مرزا ان سے سینئر تھے۔جب وہ دونوں کالج سے رخصت ہوگئے تو ملک صاحب کو یوں لگا جیسے کیمبلپور سائیں سائیں کرنے لگا ہے۔تب انہیں ایک اور ہمراہی شورش ملک کے روپ میں ملا جو بی اے کرنے کے بعد ملازمت کے لیے کیمبلپور پہنچا تھا۔اسے بھی لکھنے پڑھنے سے رغبت تھی ۔ اب وہ اور شورش ملک کیمبلپورکی سڑکوں پر پہروں گھومتے رہتے اورادب اور حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے ۔اتوار کا دن ان کے لیے ایک خاص دن ہوتا ۔ اس دن وہ ملک جعفر صاحب کے پاس جاتے۔ملک جعفر پیشے کے لحاظ سے تو وکیل تھے لیکن ان کی اصل پہچان ان کی علمیت تھی۔یہاں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی۔اتوار کے دن وہ میر حضرت شاہ کے گھر بھی جاتے جو علامہ مشرقی کے پرستار تھے ۔کیمبلپورمیں ان کی دلچسپی کا ایک اور مرکز کتابوں کی دکان خزینہ علم وادب تھا جہاں اکثر وہ نئی کتابوں کی تلاش میں جاتے۔اس طرح دوستوں کا ایک اور ٹھکانہ گھڑی ساز افتخار قاضی کی دکان تھی جہاں احباب اکٹھے ہو کر گپ شپ کرتے۔
کیمبلپورکا طالب علمی کا دور اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب ملک صاحب نے بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔اب وہ اپنے گاؤں تلہ گنگ واپس آگئے تھے۔یہاں آکر بھی کیمبلپور میں گزارے شب و روز کی چاندنی ان کے ساتھ رہتی۔ تنہائی میں وہ اکثر اپنے من چلے دوستوں منو بھائی اور شفقت تنویر مرزا کے بارے میں سوچتے ۔نہ جانے اب وہ کہاں ہوں گے؟ نہ جانے زندگی میں پھر ان سے ملاقات ہو پائے گی یا نہیں؟لیکن پھر وہ خود ہی اپنا سر جھٹک دیتے۔ بھلا گیا وقت بھی کبھی واپس آتا ہے‘ لیکن زندگی میں کبھی کبھار انہونی بھی ہو جاتی ہے۔اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ اپنے گھر میں بیٹھے تھے کہ انہیں منو بھائی اور شفقت تنویر مرزا کا پیغام ملا کہ ہم دونوں راولپنڈی میں روزنامہ'' تعمیر‘‘میں کام کر رہے ہیں‘ایک سب ایڈیٹر کی سامی خالی ہے ‘تم بھی جلدی سے یہاں آجاؤ۔ملک صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ایک لمحے کو انہوں نے سوچا‘ کیا آج کل بھی معجزے رونما ہو سکتے ہیں؟ انہیں اپنے اندر ایک عجیب سرشاری کا احساس ہوا۔ کیمبلپورکے بھولے بسرے شب وروز ایک بار پھر سے زندہ ہونے جارہے تھے۔(جاری)