تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     30-09-2020

انرجی سیکٹر کیلئے مشکلات کیوں؟

ملک میں گیس کی پیداوار سالہاسال کم ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ سال پیداوار 4000 ملین مکعب فٹ تھی جو اس سال کم ہوکر 3500ملین مکعب فٹ رہ گئی ہے اور آئندہ سال 3200 ملین مکعب فٹ تک آنے کا امکان ہے۔ تیل اور گیس کی ضروریات کے حوالے سے ایک مکمل پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن ملک میں ابھی تک اس حوالے سے پلاننگ کی خاصی کمی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے گزشتہ پانچ سال سے ملک میں ڈرلنگ ہی نہیں ہورہی۔ اگر کوئی ڈرلنگ کرنا بھی چاہے تو پہلے اسے بولی لگانے جیسے کام میں پھنسایا جاتا ہے اور یہ پورا پراسیس اتنا مشکل ہوتا ہے کہ رسک مینجمنٹ کرتے کرتے کمپنیوں کی دلچسپی ختم ہوجاتی ہے۔ 
ان مسائل کی وجہ سے آئل اور گیس کمپنیوں کے لیے پاکستان ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ افسر شاہی کے مطالبات اور مداخلت کے باعث ایک چھوٹے سے فیصلے کے لیے بھی کئی کئی ماہ انتظار میں لگ جاتے ہیں۔ توانائی کے شعبے سے وابستہ ادارے OGDCLکے سابق سربراہ محمد رضی الدین کے مطابق غیر ملکی کمپنیاں پاکستان میں سرخ فیتے کی وجہ سے آنے سے گریز کرتی ہیں اور اگر آ بھی جائیں تو مایوس ہوکر واپس جانے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ملائیشیا کی مشہور کمپنی Petronas نے بھی جب پاکستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو کمپنی کا موقف یہی تھا کہ افسر شاہی کے رویے کی وجہ سے یہاں کام کرنا آسان نہیں اور سرکاری اداروں کی سست روی کی وجہ سے کام کئی کئی مہینے لٹکا رہتاہے ‘جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں تو فوری فیصلوں اور عملدرآمد کے ذریعے کاروبار کو وسعت دینے کی عادی ہوتی ہیں۔ماہرین کے خیال میں ان مسائل کی وجہ سے ملک میں آئل اینڈگیس کا شعبہ یتیم معلوم ہوتا جا رہا ہے۔کئی کمپنیوں کے سربراہان ہی نہیں ہیں اور فیصلہ سازی کا شدید بحران ہے۔تمام تر پالیسی بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں ہے‘ حالانکہ یہ کام توانائی کے ماہرین کے کرنے کا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم ہاؤس میں اسی موضوع پر ایک مشاورتی اجلاس بھی ہوا‘مگر واقفانِ حال کے مطابق یہ ایک یک طرفہ ڈائیلاگ تھا‘ جس میں سرکاری افسران ہی بولے اور انہوں نے ہی مشورے دیے۔مگریہی وہ لوگ ہیں جو فیصلے نہیں کر پاتے‘ فائلیں دبا کر رکھتے ہیں اور وقت پر فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے مجوزہ منصوبوں پر عملدرآمد نہیں ہوپاتا اور اس کے نتیجے میں بحران جنم لیتے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں متبادل کی تلاش بھی اس وقت شروع ہوتی ہے جب بحران سر پر آکھڑا ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب ہمیں پہلے ہی موسم سرما میں گیس کے بحران کا سندیسہ دے چکے ہیں۔گیس کے بحران کے حل کے لیے ہمارے پاس متبادل حل ایل پی جی ہے اور یہی اس بحران کا قلیل مدتی حل ہے۔ خوش قسمتی سے 40 فیصد ایل پی جی ہمارے قریب ہی مشرق وسطیٰ میں موجود ہے‘لیکن ہم نے مقامی طور پر ایل پی جی کو اتنا مہنگا کررکھا ہے اورغالباً دنیا میں سب سے زیادہ منافع کا مارجن ہمارے ملک میں ہی رکھا گیا ہے۔ ایل پی جی کو غریبوں کا فیول کہا جاتا ہے‘ لیکن دونوں ہاتھوں سے منافع امیر کما رہے ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کے مقابلے میں اس کے ایک ٹن کے اوپر منافع  27000 ہے ‘جبکہ پٹرول اور ڈیزل کا منافع سات سے آٹھ ہزار روپے ہے۔ حکومت کو اب یہ کرنا ہے کہ اس منافع مارجن کوکسی طرح 9000 تک لایا جائے تاکہ ایل پی جی کی قیمت کم ہو اور توانائی کا یہ سورس غریبوں کی دسترس میں آ سکے۔ اور مستقل بنیادوں پر اس کومنافع مارجن کے لحاظ سے دیگر پٹر ولیم مصنوعات کے ہم پلہ کیا جائے۔ ایک یہ ڈر بھی موجود ہے کہ کہیں منافع کم کرنے سے کمپنیاں سپلائی بند نہ کردیں‘ کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت اس کی درآمد کے اوپر پابندی نہ لگائے ‘کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کے معاملے میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ حکومت نے درآمدپر پابندی لگائی تو ملک میں پٹرول اور ڈیزل کا شدید بحران پیدا ہو گیا۔
فرض کریں کہ اگر ہم ایل پی جی کی قیمت کم کریں اور نان بائی اور تکے والے ایل پی جی استعمال کرنا شروع کردیں ۔اگر ہم ایک ہزار ٹن زیادہ درآمد کریں گے تو ہمارے پاس  50ایم ایم سی ایف ڈی گیس دستیاب ہوگی‘ لیکن اگر ہم متبادل کے طور پر  ایل پی جی کو لے آئیں مگر اس کی قیمت کم نہ کریں تو پھر اس متبادل کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ کوئی اس متبادل ایندھن کے استعمال کی جانب راغب نہیں ہو گا‘ اس طرح یہ پورا عمل مثبت اقدامات کے متضاد ہوگا۔اگر ہم اس بحران کے طویل مدتی حل کی طرف جائیں تو حکومت کو چاہیے کہ انرجی سیکٹر کی جتنی بھی کمپنیز ہیں ان کے ساتھ مل بیٹھے اور جلد از جلد ڈرلنگ کا کام شروع کیا جائے۔ پیداوار کا گراف نیچے جارہا ہے ہم نے اس گراف کو اوپر لے کر جانا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر مثبت ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ گیس کی کمی کی سب سے بڑی وجہ غیر فعال اقدامات ہیں۔اس سلسلے میں حکومت کا دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اس بات پر غور کرے کہ غیر ملکی کمپنیاں اگر ملک چھوڑ کر جارہی ہیں تو آخر ایسا کیوں ہورہا ہے۔حکومت کو یہ کام ہر شعبے میں کرنا چاہیے ‘ یعنی کسی بھی شعبے میں اگر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان سے نکلنے کی تیاری کر رہا ہے ‘ یا منصوبہ ختم کرنے جا رہا ہے تو حکومت ان اسباب کا باریک بینی سے جائزہ لے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کیا یہ ہمارے اداروں کی سست روی اور کام چوری کا نتیجہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو حکومت کی اولین ترجیح ہو نی چاہیے کہ ان وجوہ کا ازالہ کرے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں ‘ صنعت کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ نئی سرمایہ کاری کی پاکستان کی جانب بہاؤ تیز کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک سے نکلنے والے سرمائے کی رفتار کو کم سے کم کیا جائے۔ کمپنیوں کے لیے بولی کا نظام بھی آسان بنایا جائے‘ فیصلہ سازی میں غیر ضروری طوالت نہ ڈالی جائے جبکہ ان کمپنیز کی حوصلہ افزائی کی جائی جو انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ بیوروکریسی میں اصلاحات لائی جائیں اور اس بحران سے نکلنے کے لیے آئل اور گیس سیکٹر کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔
موجودہ حکومت اصلاحات کے نعرے کے ساتھ حکومت میں آئی ہے‘ جو افسر شاہی اور بیوروکریسی میں تبدیلیوں کے حوالے سے ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتی ہے۔ امید یہی ہے کہ حکومت اس گیس بحران کے قلیل مدتی حل کے ساتھ ساتھ اس کے طویل مدتی حل کے متعلق بھی سنجیدگی سے غور کرے گی کہ انرجی سیکٹرمیں سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان میں مشکلات کیوں ہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved