تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-09-2020

کاک ٹیل

اوچھے ہتھکنڈوں سے ہمیں جھکایا نہیں جا سکتا: نواز شریف
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور مفرور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اوچھے ہتھکنڈوں سے ہمیں جھکایا نہیں جا سکتا‘‘ حالانکہ ہمارے لیے سیدھے ہتھکنڈے ہی کافی تھے اور جب سے ووٹ کو عزت دیتے ہوئے مجھے نکالا گیا ہے‘ اس ملک میں کوئی بھی کام سیدھے طریقے سے نہیں ہو رہا جبکہ اصولی طور پر دیگر کئی رہنمائوں کو بھی اندر ہونا چاہیے تھا بلکہ انہیں تو شہباز شریف سے بھی بہت پہلے یہ اعزاز حاصل ہونا چاہیے تھا کیونکہ جو کلہاڑی میں نے حسبِ عادت اپنے پائوں پر ماری تھی، وہ ایک عرصے سے اس کے ساتھ پریکٹس کر رہے تھے۔ آپ اگلے روز لندن سے ٹویٹ کر رہے تھے۔
سندھ سے منتخب پارٹی نے کراچی کیلئے کچھ نہیں کیا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''سندھ سے منتخب پارٹی نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا‘‘ جبکہ ہم تو اس طرح سے منتخب بھی نہیں ہیں اور اگر ہم بھی کچھ نہیں کر رہے تو بات سمجھ میں آ جانی چاہیے، اور یہ جو اپوزیشن نئے انتخابات کا شور مچا رہی ہے تو اسے گزشتہ انتخاب میں جو عبرت حاصل ہوئی تھی‘ اسے فراموش نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ ہماری تاریخ اتنی اچھی ہے کہ خود کو دہرانا کبھی نہیں بھولتی، اس لیے وہ خاطر جمع رکھے اور ایسے فضول مطالبات سے باز رہے بلکہ اصولی طور پر تو انہیں انتخابات کا کبھی نام بھی نہیں لینا چاہیے، کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اپوزیشن اپنے تجربے سے بھی کچھ نہیں سیکھتی ۔ آپ اگلے روز مہمند میں قبائلی عمائدین سے خطاب کر رہے تھے۔
آج شہباز اندر گئے ، کل ہم سب نے اندر جانا ہے: زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''آج شہباز شریف اندر گئے ہیں، کل ہم سب نے اندر جانا ہے‘‘ کیونکہ بے تحاشا گاجریں ہم سب نے کھا رکھی ہیں اس لیے جیل کا پیٹ درد سب کے لیے ہو گا جس کے لیے کوئی پھکی بھی کارگر ثابت نہیں ہوتی اور پہلے جو ریکارڈ اور فائلوں کو آگ وغیرہ لگ جایا کرتی تھی، اب اس کے بھی امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، حتیٰ کہ مجھے مردِ حُر قرار دینے والے بھی اب نہیں رہے اور ان سب پر طُرّہ یہ کہ جیل میں وہ اگلی سی سہولتیں بھی میسر نہیں ہوں گی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
میرے اور نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑے
ہونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں: مریم نواز
سزا یافتہ اور مفرور وزیراعظم نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''میرے اور نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں‘‘ بلکہ اگر سچ پوچھیں تو یہ میرے بھی بس کی بات نہیں اور جو کچھ میں نے دوسروں کے ساتھ کیا تھا‘ وہی اب وہ میرے ساتھ بھی کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اس کے لیے انہیں میرے وزیراعظم بننے کا انتظار کرنا چاہیے جبکہ یہ سارے راستے جیل کو ہی جاتے ہیں اور چچا جان سے اس کی ابتدا ہو گئی ہے۔ آپ اگلے روزلاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
شہباز شریف کرپشن اور منی لانڈرنگ 
میں پکڑے گئے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کرپشن اور منی لانڈرنگ میں پکڑے گئے‘‘ اور ایسا لگتا ہے کہ وہ دھیلا احتسابی اداروں کے ہاتھ لگ گیا ہے جس کی انہوں نے کبھی کرپشن نہیں کی تھی ؛تاہم آج کل مساوات اور انصاف کا دور ہے اور اس کا رخ ہماری طرف بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہم نے بھی ملک میں ترقی کا سفر شروع کر دیا ہے اور یہ ترقی وفاق سے شروع ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز حلقہ شکریال میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اس کتاب کے مصنف قیوم نظامی ہیں جسے زیبِ قرطاس فائونڈیشن نے چھاپا ہے، قیوم نظامی کا نام اور کام محتاجِ تعارف نہیں ہے انہوں نے 1968ء میں پی پی پی میں شمولیت اختیار کر کے عملی سیاست کا آغاز کیا۔ 1977ء کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ طویل عرصہ تک پی پی پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ وفاقی کابینہ کے رکن اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئر مین ر ہے۔ آپ سینئر اور صاحبِ طرز کالم نویس بھی ہیں۔ انتساب عبدالستار ایدھی اور لیفٹیننٹ کرنل عابد حسین عابد مرحوم کے نام ہے۔ ابتدا میں اپنے مرحوم بھائی میجر (ر) شبیر احمد کی رہنمائی کا بھی شکر ادا کیا گیا ہے۔ حب الوطنی سے سرشار زندہ تحریروں کا یہ مجموعہ خوبصورت گیٹ اَپ میں شائع کیا گیا ہے۔
دُودھ پیتے
کسی شخص نے ایک بھینس چوری کر لی۔ کھوجی کھرا اس کے گھر تک لے آئے اور اسے کہا کہ بھینس دے دو یا قسم اٹھا لو، اس نے قسم اٹھا لی۔ کھوجی چلے گئے تو اس کے ہمسائے نے جو اس موقع پر پاس ہی بیٹھا تھا ‘نے کہا: یہ تم نے کیا کیا، جھوٹی قسم اٹھا لی، تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں! اس پر وہ بولا: یہ کم بخت اگر دودھ پیتے مرتے ہیں تو انہیں مر جانے دو!
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی غزل:
یہ دریا ہے کوئی یا پانی پانی گفتگو ہے
ہوا کی ساحلوں سے بادبانی گفتگو ہے
سمندر تیری لہریں ہیں کہ زیریں اور زبریں
سمندر تیری ساری بے کرانی گفتگو ہے
اکٹھے کر رہی ہے مامتا کو مل سے تنکے
شجر سے شاخوں کی آشیانی گفتگو ہے
یہ ڈھلتی چھائوں ہے‘ قسمت سے ہاتھ آتے ہیں اشعار
کہ دولت کی طرح یہ آنی جانی گفتگو ہے
الگ ہیں باغ میں رنگوں کی مستعمل زبانیں
پرندے کے گلے کی سرخ گانی گفتگو ہے
بنایا ہے انہی لفظوں کو جیسے چھاج چھلنی
کہ صحرائوں کے دن کاٹے ہیں‘ چھانی گفتگو ہے
گلی کوچوں میں خاموشی کا برپا ہے کوئی شور
کہ شہروں سے یہی نقلِ مکانی گفتگو ہے
چھلک اٹھتی ہے راجوں اور مہا راجوں کے آگے
کسی کے رنگ زا نیندوں کی رانی گفتگو ہے
جو میں اپنی طرف سے تازہ تازہ کہہ رہا ہوں
کسی میرے ہی جیسے کی پرانی گفتگو ہے
آج کا مطلع
بہت سرمایہ کاری ہو چکی ہے
جو یہ تم پر ہماری ہو چکی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved