تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     01-10-2020

لائن آف کنٹرول پر کشیدگی

بھارت کے ساتھ ملنے والی پاکستان کی سرحدیں تین قسم کی ہیں۔ ان میں سے ایک بین الاقوامی سرحد ہے‘ جو پاکستانی پنجاب کے شمالی حصے میں ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ سے شروع ہو کر جنوب میں بھارت کی ریاست گجرات اور پاکستان کے صوبہ سندھ کے درمیان زیرو پوائنٹ تک چلی جاتی ہے۔ دوسری سرحد شمال میں پاکستان کے ضلع سیالکوٹ اور بھارت کے زیرِ قبضہ ضلع جموں اور کٹھوعہ کے علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ اسے ورکنگ بائونڈری کہتے ہیں۔ اس کے ایک طرف پاکستانی اور دوسری طرف جموں و کشمیر کا متنازع علاقہ ہے‘ جس پر بھارت 1948 سے غیر قانونی طور پر قابض ہے۔ تیسری سرحد لائن آف کنٹرول ہے جو مقبوضہ کشمیر اور آزاد جموں و کشمیر کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ لائن آف کنٹرول چند تبدیلیوں کے ساتھ پُرانی سیز فائر لائن ہے‘ جسے اقوام متحدہ کی مداخلت سے 1948 میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر پر پہلی باقاعدہ جنگ کے بعد کھینچا گیا تھا۔ 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین شملہ معاہدہ میں سیز فائر لائن میں کچھ در و بدل کیا گیا تھا اور اسے لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا تھا۔
آج کل پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کا سب سے بڑا سبب اسی لائن آف کنٹرول کے آر پار دونوں ملکوں کی باقاعدہ فوجوں کے مابین آئے دن چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہے۔ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی اس 800 کلو میٹر طویل سرحد پر کشیدگی بلکہ فائرنگ اور اس فائرنگ کے نتیجے میں سرحد کے آس پاس آباد لوگوں کا مالی اور جانی نقصان نئی بات نہیں بلکہ 1948 سے اب تک اس سرحد پر کبھی بھی خاموشی اور سکون نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور کشمیریوں نے اسے کبھی بھی ایک مستقل بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے لڑنے والی سیاسی جماعتوں نے اسے ختم کر کے کشمیر کے دونوں حصوں کو ملانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ 1957 میں مشہور کشمیری لیڈر چودھری غلام عباس کی قیادت میں عوام کے ایک بھاری جلوس نے اس سیز فائر لائن کو عبور کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی‘ لیکن حکومت پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے لوگوں کے اس جم غفیر کو سیز فائر لائن پار کرنے سے روک دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ پاکستان سرکاری طور پر اسے کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان مستقل سرحد تسلیم نہیں کرتا‘ مگر 1948 کے سیز فائر معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت اسے کراس نہ کرنے کے پابند ہیں۔ چونکہ سیز فائر لائن (موجودہ لائن آف کنٹرول) ہموار اور میدانی علاقوں کے علاوہ گھنے جنگلات‘ اونچے پہاڑوں اور برف پوش چوٹیوں میں سے بھی گزرتی ہے‘ اس لئے غیر قانونی طور پر اور چھپ چھپا کے اس لائن آف کنٹرول کے آر پار آمد و رفت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے‘ لیکن 1989 کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی سرگرمیوں میں اضافے کے بعد لائن آف کنٹرول کے آر پار مسلح افراد کی آمد و رفت میں اچانک اضافہ ہو گیا‘ اور کشیدگی بڑھ گئی‘ یوں فائرنگ کے تبادلوں کے واقعات میں بھی تیزی آئی۔ پاکستان کا الزام ہے کہ بھارت بلا اشتعال فائرنگ کرتا ہے‘ بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلح افراد کو لائن آف کنٹرول کراس کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے‘ اور اس آمد و رفت کو روکنے کیلئے بھارت کی فوج کارروائی کرتی ہے۔ 
پاکستان اور بھارت کے فوجی دستوں میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور جوابی فائرنگ کا یہ سلسلہ کبھی کم اور کبھی زیادہ ایک عرصے تک جاری رہا تاوقتیکہ بھارت کے آنجہانی سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے 18 اپریل 2003 کو سری نگر سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا مسئلہ مستقل طور پر حل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس وقت پاکستان میں ایک سویلین حکومت قائم ہو چکی تھی اور میر ظفراللہ جمالی وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے اس تجویز کو قبول کرنے میں ذرا بھی دیر نہ کی اور تین شعبوں یعنی تجارت‘ کھیل اور عوامی رابطوں کو فروغ دینے کے لئے بات چیت پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ اس طرح نومبر 2003 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر مکمل جنگ بندی اور امن کے لئے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے جو گھر سنسان اور کھیت کھلیان ویران تھے‘ وہ ایک دفعہ پھر آباد ہو گئے اور فصلیں لہلہانے لگیں۔ برسہا برس سے جو سکول بند تھے‘ وہ کھل گئے‘ کاروباری سرگرمیاں شروع ہو گئیں اور ان علاقوں میں زندگی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ لوٹ آئی۔ مارچ 2004 میں جب پاکستان اور بھارت کے مابین کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت متنازعہ مسائل‘ جن میں کشمیر بھی شامل تھا‘ کا حل تلاش کرنے کے لئے دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف آباد لوگوں نے نہ صرف اپنی معاشی اور کاروباری سرگرمیوں میں مزید اضافہ کیا بلکہ اسی دوران اپریل 2005میں مظفر آباد سری نگر بس سروس کا آغاز بھی ہوا۔ اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلے نے لائن آف کنٹرول کے آر پار نہ صرف کشمیریوں کی آمد و رفت کو ممکن بنایا بلکہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت کے معاہدے کی نئی راہ بھی ہموار کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کے سلسلے کے تحت اعتماد سازی کے جتنے اقدامات طے کئے گئے تھے‘ ان میں لائن آف کنٹرول پر امن قائم رکھنے کے لئے 2003 کے سمجھوتے کو سب سے زیادہ اہم اور کامیاب قرار دیا جاتا ہے‘ مگر نومبر 2008 میں ممبئی کے واقعہ کے بعد پاکستان اور بھارت اس امن معاہدے پر عمل پیرا نہ رہ سکے اور دونوں طرف سے اس کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 
ان خلاف ورزیوں اور فائرنگ کے تبادلے میں اس وقت سے نمایاں تیزی آ چکی ہے جب مئی 2014میں نریندر مودی نے بی جے پی کے لیڈر کی حیثیت سے بھارت کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ نریندر مودی نے 2014 کے بھارتی پارلیمانی انتخابات سے قبل ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آ کر پاکستان اور چین کو سبق سکھائیں گے۔ اس وقت چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات جس کشیدگی اور بحران کا شکار ہیں وہ نریندر مودی کے انہی اعلانات کا نتیجہ ہے۔ مگر مسلسل اور اندھا دھند کراس فائرنگ سے نہ صرف سرحد کے دونوں طرف جانی اور مالی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس سے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک خونریز اور بھاری تصادم کا بھی سنگین خطرہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف اب بھاری ہتھیار‘ جن میں مارٹر اور دور مار توپیں بھی شامل ہیں‘ استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان نے نہ صرف بھارت بلکہ عالمی برادری کے تمام ارکان سے بھی اپیل کی ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب فائرنگ کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان نے اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں اور مختلف اداروں میں کام کرنے والے افراد کے ایک گروپ کو لائن آف کنٹرول کا دورہ بھی کروایا تھا تا کہ وہ بھارت کی جانب سے بھاری ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا اپنی آنکھوں سے جائزہ لے سکیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت کی طرف سے اس سال سرحدی خلاف ورزیوں کی تعداد دو ہزار تین سو سے تجاوز کر چکی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved