بچپن میں کہانی سنی تھی‘ شاید آپ سب نے بھی سنی ہو۔ ایک لڑکا بکریاں چرانے جنگل جاتا تھا۔ اس نے دو بیانیے رکھے ہوئے تھے۔ وہ اکثر گائوں والوں کو چیک کرنے کیلئے ازراہ مذاق آواز لگاتا ''شیر آ گیا شیر آ گیا‘‘ تو گائوں کے سادہ لوح لوگ لٹھ اور کلہاڑیاں لئے مدد کو پہنچ جاتے لیکن وہ اپنا بیانیہ بدل لیتا اور کہتا: میں نے تو مذاق کیا تھا کوئی شیر نہیں آیا‘ میں تم لوگوں کو چیک کر رہا تھا۔ ایسا کئی بار ہوا اور پھر گائوں کے لوگوں نے اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا۔ ایک دن سچ مچ شیر آگیا۔ اس نے بڑا شور مچایاکہ شیر آ گیا شیر آ گیا لیکن لوگوں نے اس کے بیانیے کا اعتبار نہیں کیا اور پھر اس کا بڑا نقصان ہو گیا۔ سیاست بھی اعتبار کا کھیل ہے اگر ایک بار چلا جائے تو واپس لانا مشکل ہوتا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں اپوزیشن بھی ایسی ہی باہمی اور عوامی بے اعتباریت سے دوچار نظر آتی ہے۔ پنجاب اور سندھ ایسے بڑے صوبوں کی حکمرانی اور مرکز میں کئی بار باریاں لینے کے باوجود عوام کی حالت نہ بدلنے والے حکمرانوں کے اثاثے اور کاروبار جس تیزی سے بڑھے‘ اس کی منی ٹریل ملتی ہے اور نہ ہی کوئی جواب۔ اسی لئے عدالت میں جائیدادوں، آمدن سے زائد اثاثوں اور بینک اکائونٹس کی ثبوت پیش کرنے کے بجائے سیاسی میدان میں جواب پیش کئے جا رہے ہیں۔ اس وقت دو منظرنامے سیاسی اور عوامی افق پر سامنے ہیں۔ ایک منظرنامہ یہ ہے کہ سابقہ حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں کا احتساب کیا جا رہا ہے‘ لیکن دو برسوں سے صورتحال یہ ہے کہ نااہلی اور عدم منصوبہ بندی کے باعث کبھی اپوزیشن کے سابقہ ادوار کے پیچھے چھپتے ہیں، کبھی کورونا کے پیچھے اور کبھی احتساب کے بیانیے کے پیچھے لیکن اس کے پس منظر میں اصل منظرنامہ دھندلا رہا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز سے چینی، آٹا اور گھی غائب ہو چکے ہیں‘ کورونا کے بعد روزگار بحال نہیں ہو پا رہے، قوت خرید کم ہو جانے کے باعث مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں نے عوام کو بے حال کیا ہوا ہے۔ حالات کس قدرگمبھیر ہو چکے ہیں حکومت کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ ایک ٹائم بم ہے‘ جس کی ٹک ٹک شاید حکومتی ایوانوں کی سائونڈ پروف دیواروں کے اندر سنائی نہیں دے رہی لیکن بھنور میں پھنسی اپوزیشن اس کو بڑے ٹھیک طریقے سے سن رہی ہے اور سمجھ بھی رہی ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر کھویا ہوا عوامی اعتماد پھر سے حاصل کیا جائے۔ مقتدرہ کو اپنے وجود کا احساس دلا کر پھر سے کھوئے ہوئے اقتدار کا حصول ممکن بنایا جائے۔
ہمارے تمام حکمرانوں کے ہمیشہ دو بیانیے رہے ہیں۔ جب بھی کمزور حالت میں ہوتے ہیں‘ اقتدار کی کرسی چھن جاتی ہے تو طاقت حاصل کرنے کیلئے عوام سے رجوع کرتے ہیں اور ان سے قوت پکڑتے ہیں‘ لیکن جب اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں تو انہی عوام سے بے وفائی کرتے ہیں ''تو کون اور میں کون‘‘ والی صورتحال ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف نے پاکستان کے مڈل کلاس عوام بالخصوص نوجوانوں کو تبدیلی کے نام پر جو رومان پرور خواب دکھلائے تھے‘ دو برسوں میں ان تبدیلی زدگان کو سمجھ آ گئی ہے کہ یہ محض جاگتی آنکھوں کے خواب تھے جن کی کوئی تعبیر نہیں۔ پرانے فریم میں نئی تصویر لگاکر دھوکا دیا گیا ہے۔ آج، گزرے کل سے بھی خراب ہوچکا ہے اور آنے والے مخدوش کل کے سائے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب اپوزیشن کا منجن بڑے زور و شور سے بکتا ہے۔ ذرا ماضی میں جھانکیے‘ تب عمران خان عوام کے درد میں گھلے جا رہے تھے، 126 دن کا دھرنا جس وقت دیا گیا پاکستان میں مہنگائی کی شرح پچھلی ایک دہائی میں اپنی کم ترین سطح پر تھی لیکن خان صاحب نے بجلی کے بل پھاڑے، حکومت کو عوام دشمن قرار دیا، حکمرانوں کو کرپٹ کہا اور قوم سے مبینہ لوٹے گئے 200 ارب ڈالر واپس لانے کا وعدہ کیا‘ لیکن دو سال بیت چکے‘ لوٹے ہوئے 2 ارب ڈالر بھی نہیں لائے جا سکے۔ آئی ایم ایف اور قرضوں کی معیشت کے طعنے دینے والوں نے 10 ہزار ارب کا نیا قرض چڑھا دیا۔ اگر عمران خان صاحب کی اینٹی نواز تحریک کے دوران معاملات کا موجودہ صورتحال سے موازنہ کیا جائے تو حالات ہر لحاظ سے تین گنا بدتر ہو چکے ہیں‘ لیکن موجودہ حکومت اور سابقہ حکومت میں صرف ایک فرق ہے۔ موجودہ حکومت مقتدرہ کے ساتھ ایک پیج پر ہے جبکہ نواز حکومت کا صفحہ پھٹا ہوا تھا‘ جسے جوڑنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور شاید کی جاتی رہیں گی کیونکہ اپوزیشن جس عوامی غلغلے اور فیصلہ کن لانگ مارچ کی دھمکیاں حکومت کو دے رہی ہے‘ اس کی معراج اسی صورت ممکن ہے جب پرانے صفحے کو جوڑ کر نئے دستخط کئے جائیں یا پھر نیا ہائبرڈ کنٹریکٹ تیار کیا جائے۔ بادی النظر میں شاید اپوزیشن کو نئے ہائبرڈ کنٹریکٹ کی ضرورت پیش آئے گی کیونکہ پرانے صفحے کو جوڑتے جوڑتے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف خود سلاخوں کے پیچھے جا چکے ہیں۔ یہی شہباز شریف تھے جو بائوجی کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال لے گئے اور پھر ان کے جانے کے بعد کیا کیا نہ ہوا؟ بجٹ پاس ہوئے، ایکسٹینشن بِنا ٹینشن ہو گئی، کورونا نے سب برباد کر دیا، بارشوں نے بچا کھچا ڈبو دیا، اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود حکومت نے مشترکہ اجلاس میں بل پاس کرائے لیکن اپوزیشن اسمبلیوں کے اندر اور باہر خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی۔ اب جب پانی سروں سے اوپر جانے لگا‘ مصالحت کی تمام کوششیں بے سود ٹھہریں‘ شہباز شریف کے بیانیے سے کچھ افاقہ ہوا اور نہ ہی محمد زبیر کے ٹوٹکے اثر دکھا سکے تو اے پی سی کا میلہ لگایا گیا اور میاں نوازشریف کی تقریر سے رنگ جمایا گیا۔ اب ہر طرف اسی تقریر کے چرچے ہیں۔ ہر شخص اس تقریر کی الگ تشریح فرما رہا ہے۔ کہیں واہ واہ ہو رہی ہے تو کہیں سے آہوں کا دھواں اٹھ رہا ہے۔ میاں صاحب نے لندن جاتے سمے جس انقلابی بیانیے کو جاتی امرا کے کسی کونے میں رکھ چھوڑا تھا، اب وہ دوبارہ جھاڑ پھونک کر پھر سے مارکیٹ میں پیش کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ اس کا لندن ایڈیشن خود میاں صاحب چھاپیں گے اور پاکستان ایڈیشن غالباً مریم نواز صاحبہ کے ذمے ہے۔ اپوزیشن کا اتحاد پی ڈی ایم،11 اکتوبر کو کوئٹہ سے تحریک کا آغاز کرے گا جہاں بڑے بڑے نظریاتی جغادری تقریریں کریں گے، عوام کا دکھ، آنکھوں سے چھلکتے آنسو، جمہوریت کی بالادستی کی خاطر نیلسن منڈیلا، آنگ سانگ سوچی کو پیچھے چھوڑ دینے والی قربانیوں کا ذکر ہو گا۔ میاں صاحب نے ایک بار کہا تھاکہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے‘ لیکن ایک بات خود وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کسی پریشر گروپ کے سربراہ نہیں ہیں بلکہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جو آج نہیں تو کل اقتدار میں ہوں گے اور آپ جتنی مرضی عوامی تحریکیں چلا لیں الیکشن جیت جائیں لیکن مسند اقتدار پر بیٹھنے کے لئے معاملات کرنا پڑتے ہیں اور میاں صاحب کی آئندہ تحریک میں شامل پریشر گروپس بھی یہ امر اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بھی اسی راستے سے اقتدار کے حصہ دار بنتے رہے ہیں اور آگے بھی یہی راستہ منسٹرز انکلیو تک لے کر جائے گا۔ میاں صاحب پنجاب میں سب سے بڑا ووٹ بینک رکھنے والی جماعت کے طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں عوام ہی ان کے درد کا درماں کر سکتے ہیں اور یہ حالات اس ووٹ بینک کو جوڑنے کا شاندار موقع ہیں۔ جب ووٹر اپنے لیڈر کو مشکل حالات میں دیکھتا ہے تو وہ خود پر ہوئے سب دکھ درد، مایوسیاں اور محرومیاں بھول کر اس کے ساتھ ہو لیتا ہے، پھر سے نئے خواب سجاتا ہے امیدوں کے نئے محل بناتا ہے۔ ایسے میں اسے یہ سمجھانا بہت آسان ہوتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، سیاسی انتقام ہے اور یہ سب کچھ ''ان‘‘ کی ناراضی کی وجہ سے ہے‘ لیکن اس بار ہم بازی پلٹ دیں گے۔ میاں صاحب کا ووٹر دل سے ان کے ساتھ ہے لیکن تذبذب کا شکار ہے، کیونکہ سیاسی اعتباریت کھونے کے بعد اسے دوبارہ حاصل کرنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔