تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     01-10-2020

رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ…(2)

(13) ''ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے مشورہ طلب کیا کہ میں بذاتِ خود مسلمان افواج کے ہمراہ رومیوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہوں، اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے، حضرت علیؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے صاحبانِ دین کے لیے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ وہ اُن کے محفوظ مقامات کی حفاظت کرے گا اور جس ذات نے اُس وقت اُن کی مدد کی جب وہ قلیل تعداد میں ہونے کی وجہ سے بدلہ لینے پر قادر نہ تھے اور اپنی حفاظت کا انتظام بھی نہ کر سکتے تھے، وہ ذات حَیّ و قیّوم ہے، اس پر موت نہیں آ سکتی، لہٰذا اگر آپ بذاتِ خود دشمن سے مقابلے کے لیے جائیں گے اور ان کا سامنا کریں گے (اور اللہ نہ کرے) کسی مصیبت میں مبتلاہو گئے تو آپ کے بعد مسلمانوں کے لیے کوئی مرکزِ اُمید باقی نہیں رہے گا، جس کی طرف وہ رجوع کر سکیں۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ آپ کسی تجربہ کار شخص کے ہمراہ ماہرینِ حرب کو بھیجیں، اگر اللہ نے انہیں غلبہ دے دیا تو یہی آپ کی آرزو ہے اور اگر اس کے خلاف ہوگیا تو کم از کم آپ لوگوں کا سہارا اور مسلمانوں کے لیے پلٹنے کا ایک مرکز رہیں گے‘‘۔ (متن کامل نہج البلاغہ، سخنان علی، ص: 446، کلام:132، مطبوعہ: انتشاراتِ زرّین)۔
(14) ''ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے بذاتِ خود فارس کی جنگ میں شریک ہونے کے متعلق حضرت علیؓ سے مشورہ کیا، اُنہوں نے فرمایا: آپ مسلمانوں کے معاملات کے نگران و نگہبان ہیں اور ملک کے لیے نگراں کامقام ایسا ہے جیسے دھاگے میں پروئے گئے موتی، دھاگے کی لڑی کی وجہ سے ہی موتی یکجا رہتے ہیں، اگردھاگہ ٹوٹ جائے تو تمام موتی بکھر جاتے ہیں۔ آج عرب اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہیں، لیکن اسلام کی وجہ سے زیادہ ہیں اور اپنے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے غالب آنے والے ہیں، لہٰذا آپ یہیں مرکز ہی میں رہیں اور جنگ میں شریک ہونے کی زحمت نہ کریں،کیونکہ ان عجمیوں نے اگر آپ کو میدانِ جنگ میں دیکھ لیا تو کہیں گے کہ اہلِ عرب کی جان یہی شخص ہے، اگر اس جڑ کو کاٹ دیا جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راحت مل جائے گی اور اس طرح اُن کے حملے شدید تر ہو جائیں گے اور وہ آپ ہی کو قتل کرنے کے زیادہ خواہش مند ہوں گے‘‘۔ (نہج البلاغہ، ص:477، کلام:144)۔ ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کو خلیفۂ رسول حضرت عمرؓ کی زندگی کتنی عزیز تھی، ایسے نازک موقع پر کوئی نامناسب مشورہ بڑی مصیبت کا باعث ہو سکتا تھا مگر حضرت علیؓ نے مشورے کی امانت کو مکمل دیانت داری کے ساتھ ادا کیا اور مسلمانوں کے مفاد عامہ کے مطابق مشورہ دیا۔
(15) ''حضرت علیؓ نے اپنے ایک خطبہ میں حضرت عمرؓ کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا ''اللہ تعالیٰ فلاں شخص کے شہروں کو برکت دے، اُنہوں نے کجی کو سیدھا کیا اور بیماری کا علاج کیا، سنت کو قائم کیا اور فتنہ کو ختم کر دیا، دنیا سے پاک و صاف لباس اور کم عیب میں رخصت ہوئے، خلافت کی نیکی کو حاصل کیا اور اس کے شر سے اجتناب کیا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجا لائے اور اللہ سے اس طرح ڈرے جیسا کہ ڈرنے کا حق تھا‘‘۔ (نہج البلاغہ، ص:887،خطبہ :226)۔ شیخ ابن ابی الحدید کہتے ہیں: فلاں شخص سے حضرت عمرؓ بن خطاب کی ذات مراد ہے۔ (شرح نہج البلاغہ: ج:12، ص:3)۔ جناب رئیس احمد جعفری نے نہج البلاغہ کے اُردود ترجمہ میں ذکر کیا کہ یہ خطبہ حضرت عمرؓ کے متعلق ہے۔ (نہج البلاغہ، مترجم اردو، ص:541)۔
(16) مِسْوَرْ بِن مَخْرَمَہ بیان کرتے ہیں: ''جب حضرت عمرؓ زخمی ہوئے، اُنہیں تکلیف ہو رہی تھی اور وہ بے قراری کا اظہار کر رہے تھے، حضرت عبداللہؓ بن عباس نے کہا: امیر المومنین پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، آپ رسول اللہﷺکی صحبت میں رہے اور آپ نے حضورؐ کی صحبت خوب نبھائی، پھر رسول اللہﷺ آپ سے رخصت ہوئے درآں حالیکہ وہ آپ سے راضی تھے، پھر آپ حضرت ابوبکرؓ کی صحبت میں رہے اور آپ نے ان کی صحبت خوب نبھائی، وہ بھی آپ سے راضی ہوکر رخصت ہوئے، پھر آپ مسلمانوں کے ساتھ رہے اور آپ نے ان کا اچھا ساتھ نبھایا اور اب آپ اُن سے اس حال میں رخصت ہو رہے ہیں کہ وہ آپ سے راضی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم نے جو رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کی صحبت کا ذکر کیا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے اور جو تم میری بے قراری دیکھ رہے ہو تو بخدا! اگر میرے پاس تمام روئے زمین کے برابر سونا ہوتا تو میں اس کو اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے دے دیتا۔ ایک روایت میں ہے: حضرت عبداللہؓ بن عباس نے فرمایا: امیر المومنین! آپ گھبراتے کیوں ہیں، بخدا! آپ کا اسلام لانا مسلمانوں کا غلبہ تھا، آپ کی حکمت مسلمانوں کی فتح تھی، آپ نے تمام روئے زمین کو عدل سے بھر دیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: اے ابن عباسؓ! کیا تم اس کی گواہی دیتے ہو؟ حضرت ابن عباسؓ نے شہادت دینے میں توقف کیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: کہو: ہاں! اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔ پھر اُنہوں نے فرمایا: ہاں! میں گواہی دیتا ہوں‘‘۔ (شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید، ج:12، ص:191تا 192)۔
(17) ایک موقع پر حضرت علیؓ نے اپنے اصحاب اور رسول اللہﷺ کے صحابہ کے درمیان تقابل اور موازنہ کرتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرمایا: ''میں اپنی رعایا کے ظلم سے پریشان ہوں، میں نے تمہیں جہاد کے لیے آمادہ کیا مگر تم نہ اٹھے، نصیحتیں کیں، تم نے نہ سنیں، علی الاعلان اور خفیہ طریقے سے تمہیں دعوت دی، لیکن تم نے لبیک نہ کہا، تم ایسے حاضر ہو جیسے غائب اور ایسے اطاعت گزار ہو جیسے مالک، میں تمہارے لیے حکمت آمیز باتیں کرتا ہوں اور تم بیزار ہو جاتے ہو، تمہیں بہترین نصیحتیں کرتا ہوں اور تم فرار اختیار کرتے ہو، باغیوں کے ساتھ جہاد پر آمادہ کرتا ہوں، میری بات مکمل نہیں ہوتی کہ تم سبا کی اولاد کی طرح منتشر ہو جاتے ہو اور ایک دوسرے کے دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہو، میں صبح کے وقت تمہیں سیدھا کرتا ہوں اور تم شام کے وقت یوں پلٹ کر آتے ہو جیسے کمان، تمہیں سیدھا کرنے والا بھی عاجز آ گیا اور تمہاری اصلاح بھی ناممکن ہوگئی، خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے اور تمہارے دس کے بدلے مجھے اپنا ایک دیدے، تم کان رکھنے والے بہرے ہو، زبان رکھنے والے گونگے اور آنکھ رکھنے والے اندھے ہو، تمہاری حالت یہ ہے کہ نہ میدانِ جنگ کے سچے جوانمرد ہو اور نہ مصیبتوں میں قابلِ اعتماد ساتھی، تمہارے ہاتھ خاک میں مل جائیں، تم اُن اونٹوں کی طرح ہو، جن کے چرواہے گم ہو جائیں کہ جب ایک طرف سے جمع کیے جائیں تو دوسری طرف سے منتشر ہو جائیں، قسم بخدا! میں تمہیں اس طرح دیکھ رہا ہوں کہ اگر جنگ تیز ہو گئی اور میدانِ کارزار گرم ہوگیا تو تم فرزندِ ابوطالب سے اس بے شرمی کے ساتھ الگ ہو جائو گے جس طرح کوئی عورت بے لباس ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اصحابِ رسولﷺ کو دیکھو، اہلِ بیتِ پیغمبر پر نگاہ رکھو اور انہی کے راستے کو اختیار کرو، انہی کے نقشِ قدم پر چلتے رہو کہ وہ نہ تمہیں ہدایت سے باہر لے کر جائیں گے اور نہ ہلاکت کی طرف پلٹنے دیں گے، وہ ٹھہر جائیں تو ٹھہر جائو، وہ اٹھ کھڑے ہوں توکھڑے ہو جائو، خبردار! ان سے آگے نہ نکل جانا کہ گمراہ ہو جائو گے اور پیچھے بھی نہ رہ جانا کہ ہلاک ہو جائو گے۔ میں نے رسول اللہﷺ کے صحابہ کا دور بھی دیکھا ہے، مگر افسوس! تم میں کوئی ایک شخص بھی ان جیسا نہیں ہے، وہ صبح کے وقت اس طرح اٹھتے تھے کہ پراگندہ بال، جبیں خاک آلود،کیونکہ انہوں نے رات سجود و قیام میں گزاری ہوتی تھی، کبھی جبیں خاک آلود اور کبھی رخسار، قیامت کی یاد میں گویا انگاروں پر کھڑے رہتے تھے اور ان کی پیشانیوں پر سجدوں کی وجہ سے بکری کے گھٹنے جیسے گٹے پڑ جاتے تھے، ان کے سامنے خدا کا ذکر آتا تو آنسوئوں کا سیلِ رواں جاری ہو جاتا اور گریبان تک تر ہو جاتا، ان کا جسم عذاب کے خوف اور ثواب کی امید میں اس طرح لرزتا تھا جس طرح سخت ترین آندھی کے دن کوئی درخت‘‘۔ (نہج البلاغہ، ص:288تا 290، خطبہ نمبر:95، مُلَخَّصًا)۔
(18) ''حضرت علیؓ، حضرت امیر معاویہؓ کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: میرے ہاتھ پر اُنہی لوگوں نے بیعت کی ہے جنہوں نے ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ کی بیعت کی تھی، لہٰذا اب حاضر کے لیے بیعت کرنے میں کوئی اختیار ہے نہ غائب کو بیعت ردّ کرنے کا حق ہے، مشورہ دینے کا منصب صرف مہاجرین اور انصار کا ہے، وہ جب کسی شخص کے انتخاب پر متفق ہو جائیں اور اس کو امام قرار دے دیں تو یہ اللہ کی طرف سے رضا ہے۔ (نہج البلاغہ:ص:926، مکتوب نمبر:6)۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کی خلافت کے مستحق حضرت علیؓ تھے اور اس مکتوب میں حضرت علیؓ نے اپنی خلافت و حقانیت پر حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت سے استدلال کیا ہے، کیونکہ حضرت علیؓ کی بیعت اُنہی مہاجرین و انصار صحابہ کرام نے کی تھی جنہوں نے خلفائِ ثلاثہ کی بیعت کی تھی اور حضرت علیؓ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخصیت کی بیعت پر مہاجرین و انصار صحابہ کرام متفق ہو جائیں تو یہ اللہ کی رضامندی کی علامت ہے، یعنی خلفائے ثلاثہ کی خلافت اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی پر مبنی تھی۔
(19) حضرت عثمانؓ کی شکایت لے کر ایک وفد حضرت علیؓ کے پاس آیا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اُن سے بات کرکے اُنہیں سمجھائیں تو حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کے پاس جاکر کہا: ایک وفد میرےپاس آیاہے، اُنہوں نے مجھے اپنے اور آپ کے درمیان سفیر بنایا ہے، بخدا! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ سے کیا کہوں، میں ایسی کوئی بات نہیں جانتا جس سے آپ ناواقف ہوں، نہ کسی ایسی چیز کی طرف رہنمائی کر سکتا ہوں جس کو آپ نہ جانتے ہوں، کیونکہ جو آپ جانتے ہیں وہی ہم جانتے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کو ہم نے پہلے جان لیا ہو اور آپ کو اس کی خبر دیں، نہ کسی معاملے میں آپ ہم جدا ہوئے، جس کی ہم آپ کو تبلیغ کریں، جس طرح آپ نے دیکھا ہے اُسی طرح ہم نے دیکھا ہے، جس طرح آپ نے سنا ہے اِسی طرح ہم نے سنا ہے، جس طرح ہم رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہے ہیں، اِسی طرح آپ رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ حق پر عمل کرنے میں آپ سے زیادہ نہیں تھے اور ان دونوں کی بہ نسبت آپ کی رسول اللہﷺ سے قرابت داری زیادہ ہے، کیونکہ بلاشبہ آپ نے دو مرتبہ رسول اللہﷺ کی دامادی کا شرف حاصل کیا ہے۔ (نہج البلاغہ، ص:566، کلام:162) (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved