تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     15-06-2013

بجٹ یا ڈارون حملہ

حکمران امریکی پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے اور ہماری حکمران پارٹی کا شیر۔ ہمارے عوام اس وقت دونوں کے نشانے پر ہیں۔ گدھے کی طرف سے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ مگر کئی سالوں میں ہونے والے سینکڑوں حملوں میں اب تک 4700 ہلاکتیں ہوسکی ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد البتہ زیادہ ہے۔ لیکن شیر کی طرف سے پہلا ڈارون حملہ ہی کارگر ثابت ہوا۔ یہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں کیا گیا اور گھروں میں بیٹھے 18کروڑ عوام اس کا نشانہ بن گئے۔ انتخابی مہم کے دوران شیر گدھے پر دھاڑتا رہا لیکن جیسے ہی انتخابی نتائج کے تحت شیر کی کامیابی کا اعلان ہوا‘اس پر نیند نے غلبہ پا لیا اور گدھاچست ہو کر طرارے بھرنے لگا۔ ڈرون حملوں پر تو شیر ایم جی ایم کی فلموں والے انداز میں‘ چہرے کو دائیں بائیں کر کے غصیلی آوازیں نکال دیتا ہے۔ لیکن ڈارون حملے پر شیر کو چپ لگ گئی ہے اور ڈارون حملے کی زد میں آنے والے بے گناہ شہری اپنی بچی کھچی مالی طاقت ایس ایم ایس پر لگا رہے ہیں۔ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ’’شیر کو ووٹ دینے والو‘ اب شیر بنو۔‘‘ جس طرح امریکی اپنے ڈرون حملوں کے جواب میں بے تکے دلائل پیش کرتے رہتے ہیں‘ ہمارے وزیرخزانہ بھی اپنے ڈارون حملے کے جواب میں اسی طرح کے دلائل دیتے ہیں۔ مثلاً وہ فرماتے ہیں ’’جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے سے فرق نہیں پڑا۔‘‘ انہوں نے بالکل درست فرمایا۔ ٹیٹرا پیک میں ایک کلو دودھ کا ڈبہ 90 روپے میں مل رہا تھا۔ ڈارون حملے کے بعد اس کی قیمت 105روپے ہو گئی ہے اور وزیرخزانہ فرماتے ہیں کہ ایک فیصد سے فرق نہیں پڑا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ پہلے دودھ سیلزٹیکس سے مستثنیٰ تھا۔ بجٹ تقریر یعنی ڈارون حملے کے دوران اصل بات چند لفظوں میں بڑے بھولپن سے کہہ دی گئی کہ جی ایس ٹی سے استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔ مگر نتیجے میں دودھ پر ایک دم 17فیصد ٹیکس نافذ ہو گیا۔ لیکن وزیرخزانہ کی دلیل ہے کہ ٹیکس تو صرف ایک فیصد بڑھایا گیا‘ باقی صرف استثنیٰ ختم ہوا ہے۔ وہ شہری جو سڑکوں پر سیاپا کرتے نظر آ رہے ہیں‘ ایک فیصد کا مطلب ان سے پوچھ کر دیکھئے۔ جس گھر میں پہلے 90 روپے میں ایک کلو دودھ کا ڈبہ آتا تھا‘ اب وہاں 105 میں آنے لگا ہے۔ جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں‘ ان کے لئے تو ایک کلو دودھ کی قیمت میں 15روپے کا اضافہ یقینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن جس غریب کی تنخواہ دس بارہ ہزار ہے‘ اس کے لئے تو صرف ایک مد میں 15روپے کا اضافی خرچ پورے گھریلو بجٹ کے بخیے ادھیڑنے کے لئے کافی ہے۔ اس ایک فیصد اضافے نے جتنی تباہی مچائی ہے ‘ اس کا اندازہ سپریم کورٹ میں عزت مآب ججوں کے ریمارکس سے کیا جا سکتا ہے۔ جن میں بتایا گیا کہ ایک ہی رات کے اندر اربوں روپے عوام کی جیب سے نکال لئے گئے ہیں۔ یہ دوسراڈارون حملہ تھا جو بیوروکریسی کی طرف سے نہتے عوام پر کیا گیا۔ بجٹ ابھی تک قومی اسمبلی میں زیربحث ہے۔ سینٹ میں پیش ہی نہیں ہوا۔ جب تک بجٹ پاس ہوکر نافذالعمل نہیں ہو جاتا‘ اس کی حیثیت محض تجاویز کی ہے۔ ان تجاویز میں کتنی منظور ہوتی ہیں اور کتنی نامنظور؟ اس کا فیصلہ منظور شدہ بجٹ کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد نوٹیفکیشن کا نمبر آتا ہے۔ لیکن بیورو کریسی نے ایسی پھُرتی دکھائی کہ بجٹ تجاویز پر مبنی نوٹیفکیشن جاری کر کے‘ تاجروں کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ قیمتوں میں من پسند اضافے کر کے‘ عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنا شروع کر دیں۔ راتوں رات پٹرول کی قیمت 86 پیسے‘ ہائی سپیڈ ڈیزل کی 90پیسے‘ ہائی اوکٹین کی 1.35 روپے‘ مٹی کے تیل 80 پیسے اور لائٹ ڈیزل 70 پیسے فی لیٹر بڑھا دی گئی۔ بجلی کی قیمت میں 2 روپے فی یونٹ اور گیس کے نرخوں میں بھی اسی طرح سے اضافہ نہیں ہوا‘ تو اب تک ہو چکا ہو گا۔ جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ کیا کیا گل کھلاتا ہے؟ اس کی تفصیل دیکھ کر‘ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں پر رشک آتا ہے۔ وہ ایک ہی وار میں جان دے جاتے ہیں اور ہمیں ایک کے بعد دوسری چیز خریدتے ہوئے کچوکے پر کچوکا لگتا ہے۔ مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا پاکستان کے مظلوم صارفین‘ تجارت کے جنگلوں میں‘ خونخوار درندوں کے درمیان گھرے ہوئے ہرنوں کی طرح سہمے سہمے رہنے پر مجبور ہیں۔ ہر کسی کے لبوں پر ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ خدا اسے زندہ واپس اپنے گھر میں لے جائے۔ کوئی بم کا نشانہ بنتا ہے‘ کوئی گولی کا۔ جو ہتھیاروں سے بچتا ہے‘ وہ نرخوں کی زد پر آ جاتا ہے۔ کوئی آٹے کی قیمت ادا کرتے ہوئے زخمی ہوتا ہے۔ کوئی بچوں کی فیس دیتے ہوئے۔ کسی کو گوشت خریدتے وقت چھری لگتی ہے۔ کوئی رکشے کا کرایہ دیتے ہوئے گھائل ہو جاتا ہے۔ ڈرونز کے بارے میں سنتے ہیں کہ ابھی ان کے منی ایچر تیاری کے مراحل میں ہیں۔ لیکن ہم پر جو ایک ڈارون حملہ ہوا ہے یعنی ایک فیصد جی ایس ٹی میں اضافہ‘ اس کے لاکھوں منی ایچر‘ جگہ جگہ داغے جا رہے ہیں۔صارفین جو چیز بھی خریدنے جاتے ہیں‘ وہ کہیں نہ کہیں سے ٹرکوں اور بسوں میں لاد کے مارکیٹوں تک لائی جاتی ہے۔ اب چونکہ پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں اضافہ ہو گیا ہے‘ اس لئے جو شے بھی خریدنے جائیں گے‘ اس کے نرخوں میں ٹرانسپورٹ کا اضافی کرایہ شامل کر دیا جاتا ہے۔ پٹرول کے نرخ اگر 86پیسے فی لیٹر بڑھے ہیں‘ تو ماچس کی قیمت میں 10پیسے اضافہ ہو جائے گا۔ جس ٹرک پر 50 ہزار ماچسوں کی ڈبیاں ایک لیٹر میں آٹھ دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہیں‘ وہاں ایک ماچس کے کرائے میں ہونے والا اضافہ ایک پیسہ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن خریدار کو اضافی کرائے میں 10 پیسے دینا پڑتے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک فیصد کے معمولی اضافے کا مطلب کیا ہے؟ ایک عام شہری سے یہ ایک فیصد 10سے لے کر 200 فیصد بنا کر وصول کیا جاتا ہے۔ ہماری وزارت خزانہ والے بابو یہ نہیں جانتے کہ جب وہ پٹرول ‘بجلی اورگیس کے نرخوں میں اضافے کرتے ہیں‘ تو عوام کے گھریلو بجٹ کو توڑپھوڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ ٹیکس براہ راست اشیا پر لگا دیئے جائیں۔ یعنی جو چیز جتنے میں بک رہی ہے‘ اس کی قیمت میں ایک فیصد اضافہ کر دیا جائے۔ اس طرح جب ایک روپے میں ملنے والی ماچس کی قیمت میں 5پیسے کا اضافہ بھی ہو گا‘ تو صارف کو تکلیف نہیں ہوتی۔لیکن جب پٹرول یا ڈیزل کے نرخ بڑھیں گے‘ تو صارفین کو ایک ماچس خریدتے ہوئے‘ 10 پیسے زیادہ ادا کرنا پڑتے ہیں۔ نام ایک فیصد کا ہوتا ہے اور مہنگائی 10 فیصد ہوتی ہے۔ جبکہ ایک ماچس کی قیمت میں 5 پیسے کا اضافہ بھی کیا جائے‘ تو صارف فائدے میں رہ سکتا ہے۔ لیکن اس طرح تو وہ حکومتیں کرتی ہیں‘ جنہیں عوام کے مسائل اور دکھ درد کا احساس ہو۔ جو حکومتیں محض ٹیکسوں کی وصولی سے غرض رکھتی ہیں اور بیوروکریٹک مشینری کو محض آرڈر دے دیا جاتا ہے کہ آمدنی میں اتنا اضافہ کر دو‘ تو اسے اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ آمدنی میں اضافے کے لئے جو چھریاں کلہاڑے چلائے جا رہے ہیں‘ ان کا نشانہ کون ہے؟ دیکھا صرف یہ جاتا ہے کہ زیادہ لوگوں سے تھوڑی وصولیاں کر کے‘ آمدنی کو بڑھا دیا جائے۔ اس طرح وہ تھوڑے لوگ محفوظ رہ جاتے ہیں جن کے پاس زیادہ سرمایہ ہوتا ہے اور وہ زیادہ لوگ مارے جاتے ہیں‘ جن سے تھوڑا تھوڑا پیسہ وصول کر کے اربوں روپے بن جاتا ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ جن کروڑوں لوگوں سے وصولیاں کی جا رہی ہیں‘ ان کی آمدنی کتنی ہے؟ ہمیشہ تھوڑی پونجی والے کروڑوں لوگ لٹتے رہتے ہیں اور زیادہ سرمائے والے‘ تھوڑے سے لوگ اس لئے بچے رہتے ہیں کہ وہ تھوڑے ہیں۔ ہمارا معاشی فلسفہ اسی طرز کا ہے‘ جیسا کہ امریکیوں کا جنگی فلسفہ۔ وہ اپنے دشمن پر ڈرون حملے کرتے ہیں اور ہم پر ہمارے اپنے ہی ڈارون حملے کر دیتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ حالیہ خوفناک ڈارون حملے میں کون کھیت رہتا ہے؟ عام شہری یا حکومت؟ یا دونوں؟ نوٹ: ازراہِ کرم گزشتہ کالم میں لکھے گئے ایک جملے کو یوں پڑھا جائے ’’ہمارے شمالی علاقوں میں جھرنوں اور چشموں کا پانی تیز رفتار سے ڈھلوانوں پر گرتا ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved