میری نظر میں پاکستانی سیاست ایک بار پھر خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ملک اور سیاست کو خطرناک مراحل سے دوچار دیکھا ہے ۔ مجھے کوئی سال ایسا نظر نہیں آتا کہ میں کہہ سکوں‘ یہ پرسکون تھا ۔ اب دو ہفتے سے جو سیاسی طوفان آیا ہوا ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ‘بلکہ لگ یوں رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس طوفان سے بہت سی کشتیاں ڈوب جائیں گی۔
نواز شریف صاحب سے میرا پہلا براہ راست آمنا سامنا جدہ میں 2005ء میں ہوا تھا جب میں حج کرنے گیا تھا ۔دوسری ملاقات ایک سال بعد لندن ڈیوک سٹریٹ میں ہوئی اور اگلے ایک برس مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ رپورٹر کے طور پر آپ سیاستدانوں سے ملتے ملتے ان کا ذہن پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرلیتے ہیں۔ نوازشریف اس وقت پرویز مشرف کے خلاف سٹینڈ لئے ہوئے تھے‘ جیسے وہ آج کل مقتدرہ کے خلاف لئے ہوئے ہیں۔ اُس وقت ان کے بیانیے کو بڑی حمایت حاصل تھی۔ان کے بینظیر بھٹو کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کی جمہوریت پسند اور صحافی حلقوں نے بہت سپورٹ کی تھی۔ اُس وقت بھی وہ یہی کہتے تھے جو آج کہہ رہے ہیں۔ لندن میں نواز شریف نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا: کلاسرا صاحب آپ جا کر پاکستانیوں کو بتا دیں کہ میں نے وہ دکان بند کردی ہے جہاں لوٹوں کا کاروبار ہوتا تھا‘ جس نے پرویز مشرف سے ہاتھ بھی ملایا ہوگا اُسے پارٹی میں شامل کروں گا نہ ہی اسے ٹکٹ ملے گی۔ دو دفعہ وزیراعظم بن لیا‘ کافی ہے اب اصلی انقلاب آئے گا۔
یہ سب ڈرامہ لندن میں ہورہا تھا۔ پاکستان لوٹتے ہی سب سے پہلے ٹکٹ زاہد حامد کو دیا‘ جنہوں نے وزیرقانون کی حیثیت سے جنرل مشرف کا تین نومبر2007 ء کا ایمرجنسی آرڈر ڈرافٹ کیا تھا۔ نہ صرف زاہد حامد کو ٹکٹ دیا بلکہ2013 ء میں انہیں وزیرقانون بھی بنایا۔ امیر مقام پرویز مشرف کے اتنے لاڈلے تھے کہ جرنیل نے امریکی وزیردفاع رمز فیلڈ سے تحفے میں ملنے والے دو پستولوں میں سے ایک ان کو دے دیا تھا۔ آج کل وہی امیرمقام نواز لیگ کے کرتا دھرتا ہیں۔ صرف دو مثالیں پیش کررہا ہوں ‘ ایسی باتیں اس وقت تک کی جاتی ہیں جب تک اقتدار نہیں ملتا ‘جیسے آج کل کی جارہی ہیں۔ مجھے2007ء کے بعد ان دونوں بھائیوں کی کسی بات اور وعدے پر اعتبار رہا اور نہ ہی ان کے دعووں اور جمہوریت کے چیمپئن بننے کی بڑھک کو کبھی سنجیدہ لیا۔ اس وقت بڑے جوش سے سب اینکرز اور تجزیہ کاروں کے ذریعے یہ بات پھیلائی جاتی تھی کہ نواز شریف تو بڑے سخت ہیں ‘لیکن شہباز شریف بڑے سافٹ ہیں‘ میں انہیں کہتا تھا: بھائی یہ دونوں ایک ہیں‘ کوئی پارٹی میں گروپنگ نہیں ہوگی‘ یہ سب طے شدہ سکرپٹ کا حصہ ہوتا ہے۔ اب نواز شریف وہ سب راز باہر نکال رہے ہیں لیکن جب وزیراعظم تھے تو ایک خبر باہر نکلنے پر انہوں نے ڈان لیکس پر نہ صرف تین وزیروں بلکہ درجن بھر صحافیوں کو بھی ایک انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش کر دیا تھا کہ ان سے پتہ کرو خبر کس نے لیک کی تھی۔ بعد میں اس انکوائری رپورٹ کی روشنی میں تین اعلیٰ عہدیدار (پرویز رشید‘طارق فاطمی‘ راؤ تحسین ) برطرف کئے اور اخبار جس نے یہ خبر چھاپی تھی اس پر غداری کا مقدمہ بناتے بناتے رہ گئے۔ حامد میر پر حملہ ہوا تو ایک چینل کی رپورٹنگ کے خلاف وزیردفاع خواجہ آصف پیمرا میں گئے۔ اس چینل پر سنگین الزامات لگا کر اس کا لائسنس پندرہ دن معطل کرایا ، چینل بند ہوا اور ایک کروڑ روپے جرمانہ بھی کرایاگیا ۔ ارشد شریف کے خلاف وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مقدمے کا حکم دیا اور ارشد کو گرفتار کرنے کیلئے چھاپے شروع کر دیے گئے۔ اب وہی نواز شریف ہمیں بتا رہے ہیں کہ عمران خان کے دور میں میڈیا دبائو کا شکار ہے۔ میڈیا ہر دور میں دبائو کا شکار رہتا ہے ۔ اُس وقت عمران خان کی شکل میں طاقتور اپوزیشن موجود تھی لہٰذا میڈیا کسی حد تک نواز شریف کے سخت ایکشن سے بچا رہا ۔ اب عمران خان کے خلاف قابل ِذکر اپوزیشن نہیں‘لہٰذا میڈیا کو دباناآسان ہے۔اب نواز شریف کہتے ہیں کہ ان سے استعفے لینے کیلئے بہت دبائو ڈالا گیا تھا‘ لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ جو ماتحت آپ کے دستخطوں سے بڑی پوسٹ پر لگتا ہے وہ کیسے آپ سے استعفیٰ مانگ سکتا ہے جب اسے پتہ ہو کہ آپ بطور وزیراعظم اُسے برطرف کرسکتے ہیں؟آپ نے اپنے سرکاری ماتحت کے خلاف کارروائی کی یا محض انکار کر کے مزید تین سال اقتدار میں گزار لئے ؟ آپ اتنے کمزور وزیراعظم تھے تو پھر آپ کو پاکستان جیسے ملک کاوزیراعظم نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ تین سال اقتدار کے ساتھ بھی گزر گئے اور اگر آپ کارروائی کرتے تو بھی گزر جاتے۔ اب ہمیں رام لیلا سنانے کا کیا فائدہ‘ جب آپ کچھ کرسکتے تھے تو ڈر کر وزیراعظم کی کرسی بچا لی ۔ جب آپ کچھ کرسکتے تھے تو منہ پر ٹیپ لگا رکھی تھی کہ کہیں سرکاری ماتحت ناراض نہ ہوجائیں۔ روز اپنے کسی نہ کسی وزیر کو برطرف کررہے تھے تاکہ آپ اپنے سرکاری ماتحتوں کو خوش کرکے وزیراعظم رہیں ۔ تو کیا یہ سودا قابل ِفخر ہے؟ کیا اس ڈیل پر فخر کیا جاسکتا ہے کہ آپ وزیراعظم اس وقت تک رہ سکتے تھے جب تک اپنے ماتحتوں کو خوش کرنے کیلئے اپنے وزیروں کو برطرف کرتے رہیں گے؟
اب فرماتے ہیں کہ ہمیں نہیں پتہ پارلیمنٹ کون چلا رہا ہے؟ مزے کی بات ہے یہ بات وہ سابق وزیراعظم کہہ رہا ہے جو آٹھ ماہ تک قومی اسمبلی نہیں گیا ‘ایک سال سینیٹ نہیں گیا ۔چھ چھ ماہ تک کابینہ کے اجلاس نہیں ہوتے تھے۔ عامر متین ایک جملہ کستے ہیں کہ نواز شریف اپنی حکومت اسحاق ڈار کو ٹھیکے پر دے کر خود سند باد جہازی کی طرح دنیا کی سیر کو نکل گئے تھے۔اپنے چار سالوں میں نواز شریف نے ایک سو سے زائد بیرون ملک دورے کئے۔ چار سو دن یا پورا ایک سال وہ پاکستان سے باہر رہے۔صرف لندن کے بائیس دورے کیے ۔ اب اس پارلیمنٹ کا پوچھ رہے ہیں جہاں وہ ایک ایک سال نہیں جاتے تھے۔ رضا ربانی چیئرمین سینیٹ تھے‘انہوں نے کئی دفعہ اس پر سخت ردعمل دیا کہ ایک سال سے زیادہ ہوگیا ہے وزیراعظم سینیٹ میں نہیں آئے۔ رضا ربانی نے نواز شریف کی وجہ سے سینیٹ کے رُولز میں تبدیلی کرائی تھی کہ وزیراعظم کو کم از کم ایک ماہ میں ہاؤس میں آنا چاہیے‘ وہ پھر بھی نہیں جاتے تھے۔ خیر اب عمران خان صاحب نے بھی وہی روایت قائم رکھی ہوئی ہے ‘ وہ بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ نہیں جاتے۔ وہ صرف اس وقت جاتے ہیں جب حکومت بہت پھنس جائے۔ عمران خان صاحب بھی دو تین سال بعد یہی پوچھ رہے ہوں گے جو آج نواز شریف فرما رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کون چلا رہا ہے؟
اب نواز شریف صاحب دھڑا دھڑانکشافات فرما رہے ہیں ‘ لڑنے مرنے کی قسمیں کھا رہے ہیں۔ اقتدار سے باہر ہوں تو نواز شریف کے پاس اپنے مخالفوں کو مارنے کے لیے اتنے مکے ہیں کہ بندہ گنتی بھول جائے‘ لیکن کیا کریں ہمیشہ کی طرح نواز شریف کو سب مکے لڑائی کے بعد یاد آتے ہیں ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سے آپ کا ماتحت استعفیٰ مانگے اور آپ اسے برطرف نہ کریں ‘چاہے نتائج کچھ بھی ہوں ۔ اگر آپ یہ کام نہیں کرسکتے تو یقین کریں آپ نے اپنے ووٹروں کی توہین کی اور آپ کے ماتحتوں کو آپ کی کمزوری کا علم تھا کہ آپ کے نزدیک دو تین سال وزیراعظم رہنا زیادہ اہم ہے ۔میاں صاحب آپ اس کڑے امتحان میں بری طرح فیل ہوئے۔ اب لڑائی کے بعد ہوا میں مکے چلانے کا فائدہ نہیں‘ بہرحال آپ چلاتے رہیں کیونکہ اس قوم کو بھی ایسے ہوائی فائر اور مکے زیادہ پسند ہیں۔