تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-10-2020

سرخیاں، متن، یاد کے کنارے اور قیصر مسعود

دو ٹوک فیصلہ کر لیا ہے‘ اپنے ملک میں
غلام بن کر نہیں رہ سکتا: نواز شریف
مستقل نا اہل ، سزا یافتہ اور مفرور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''دو ٹوک فیصلہ کر لیا ہے، اپنے ملک میں غلام بن کر نہیں رہ سکتا‘‘ اور صرف مجرم اور بھگوڑا بن کر رہ سکتا ہوں اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ میں سب کو ماموں بنا کر یہاں آیا تھا حالانکہ رشتے داریاں‘ خون کی نشانی ہوتی ہیں اور اب اگر میں مسلمہ طور پر سارے ملک کا بھانجا بن گیا ہوں تو میرا احترام بھی ہونا چاہیے، اوپر سے میرے وکیل بھی بھاگ گئے ہیں؛ تاہم میں اپنی قسمت کا فیصلہ عوام سے لوں گا بلکہ اس سے پہلے عوام مریم نواز کی قسمت کا فیصلہ کر یں گے اور اس سے بھی بہت پہلے عدالتیں یہ کام کر دیں گی۔ آپ اگلے روز سی ای سی سے خطاب کر رہے تھے۔
مفاد پرستوں کی ملک میں رتی بھر گنجائش نہیں ہے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''مفاد پرستوں کی ملک میں رتی بھر گنجائش نہیں ہے‘‘ حتیٰ کہ ہم بھی گنجائش کے بغیر ہی گزارہ کر رہے ہیں کیونکہ ہم رتی سے بھی کم جگہ گھیرے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی یہاں دھیلوں اور رتیوں ہی کا رواج رہ گیا ہے اس لیے جو لوگ گنجائش کے لیے رتی سے زیادہ کے خواہشمند ہیں‘ انہیں ہم سے سبق سیکھنا چاہیے کیونکہ ہر چیز کے اپنے اصول ہیں جن پر عمل کیے بغیر کچھ ممکن نہیں ہو سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ارکان اسمبلی سے گفتگو کر رہے تھے۔
کرپشن کر کے بیٹوں اور سمدھی سمیت اشتہاری
ہونے والے عزت کی بات کرتے ہیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل نے کہا ہے کہ ''کرپشن کر کے بیٹوں اور سمدھی سمیت اشتہاری ہونے والے عزت کی بات کرتے ہیں‘‘ جبکہ اشتہاری ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی عزت کی بات نہیں کر سکتا کیونکہ عزت کی دہائی وہی دیتا ہے جو ووٹ کی عزت کو بھی خوب پہچانتا ہو جبکہ کرپشن تو ویسے بھی ہمارے عوام کی پسندیدہ چیز ہے اور وہ کرپٹ لوگوں کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے ان کے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے سب سے آگے ہوتے ہیں اور الیکشن میں کرپٹ لوگوں کا ساتھ دے کر انہیں بار بار کامیاب بھی کراتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں نواز شریف کے حالیہ بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے تھے۔
احتسابی ادارے ایک آنکھ سے محروم‘ انہیں
صرف اپوزیشن نظر آتی ہے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے سینئر رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''احتسابی ادارے ایک آنکھ سے محروم ہیں، انہیں صرف اپوزیشن نظر آتی ہے‘‘ اگرچہ ایک آنکھ سے بھی اتنا ہی نظر آتا ہے جتنا کہ دو آنکھوں سے اور میں یہ محاورہ غلط استعمال کر گیا ہوں کیونکہ ملک ِ عزیز میں ایک سپورٹس کمپلیکس سے لے کر ہر چیز کا کھلے بندوں غلط استعمال ہوتا رہتا ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، اگرچہ جوں خود بھی کان تک پہنچنے کی کبھی کوشش نہیں کرتی کہ بالوں میں وہ خاصی حد تک محفوظ ہوتی ہے اوربالوں سے باہر نکل کر کان پر آنے کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ آ بیل مجھے مار، یاد رہے کہ یہ محاورہ میں نے سو فیصد درست استعمال کیا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
نواز ہمارے علاج سے بہتر ہو کر لندن گئے: یاسمین راشد
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''نواز شریف ہمارے علاج سے بہتر ہو کر لندن گئے‘‘ اگرچہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے سب کو بیوقوف بنایا جس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خیر سگالی کے جذبات کو تقویت حاصل ہوئی؛ تاہم اگر انہوں نے وطن واپس آنا ہو تو انہیں وہاں کسی کو بیوقوف بنانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہاں ان کے بیٹوں نے برطانوی شہریت حاصل کر کے کسی کو بیوقوف بنانے کی مجبوری کا قلع قمع کر دیا ہے۔ البتہ برطانوی حکومت انہیں واپس بھیجنے پر اس لیے تیار نہ ہو گی کہ صاف ستھرے اور نظریاتی آدمیوں کی وہاں بھی خاصی قلت ہے اور نواز شریف اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
یاد کے کنارے
یہ توقیر شریفی کا مجموعۂ نظم و غزل ہے جسے ماورا پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے۔ انتساب محترم والدین، شریکِ حیات اور بچوں کے نام ہے۔ پسِ سرورق پر ناشر اور ہمارے دوست خالد شریف لکھتے ہیں کہ شریفی کی شاعری معمول کی شاعری نہیں، یہ عامل کی شاعری ہے۔ دھیمے دھیمے جذبوں کی آنچ پر پکی ہوئی۔ اپنی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو دیتی ہوئی۔ نغمگی میں کلام اور روح میں قیام کرتی ہوئی شاعری ہے۔ دیباچے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی، اکرم سحر فارانی، صغرا صدف اور زاہد شمسی نے لکھے ہیں جبکہ اندرونِ سرورق سعید الظفر صدیقی اور اقبال راہی کے قلم سے ہیں۔ نمونۂ کلام: 
مرے غم چھین لے گا بے سر و سامان کر دے گا
زمانہ تیری الفت میں مجھے بھی دان کر دے گا
ضرورت پھر کہاں ہو گی مجھے اپنے تعارف کی
یہ میرا درد ہی مجھ کو تری پہچان کر دے گا
کہو توقیرؔ اس ساون کو مجھ پر ٹوٹ کر برسے
نہ مانے گا تو میری رُوح تک ویران کر دے گا
اور‘ اب دوحہ قطر سے قیصر مسعود کی شاعری:
گلے لگا کے وہ ایسے اُداس چھوڑ گیا
بدن میں رُوح تلک اپنی باس چھوڑ گیا
بچھڑتے وقت محبت کا آخری بوسہ
مرے لبوں پہ انوکھی مٹھاس چھوڑ گیا
اسے خبر ہے اکیلا ہوں میں اسی خاطر
وہ اپنا آپ مرے آس پاس چھوڑ گیا
اٹھا کے لے گیا مضمون سب محبت کے
ہمارے پاس فقط اقتباس چھوڑ گیا
وہ سانحہ تو بالآخر گزر گیا لیکن
ہمارے شہر میں خوف و ہراس چھوڑ گیا
بھڑک بھڑک کے بھڑکتی ہے انتقام کی آگ
مرے لہو میں وہ ایسی بھڑاس چھوڑ گیا
پلٹ کے آئے نہ آئے مگر یہی ہے بہت
مرے لیے وہ پلٹنے کی آس چھوڑ گیا
ہر ایک چیز وہ ہمراہ لے گیا قیصرؔ
بس ایک میں ہوں جسے وہ اُداس چھوڑ گیا
٭......٭......٭
جنگل سے نہ میں صحرا کی ویرانی سے ڈرتا ہوں
بس اپنے شہر میں پھیلی بیابانی سے ڈرتا ہوں
یہی مشکل مجھے در پیش رہتی ہے کہ میں اکثر
نہیں ڈرتا کسی مشکل سے، آسانی سے ڈرتا ہوں
آج کا مقطع
کسی کے دل میں جگہ مل گئی ہے تھوڑی سی
سو کچھ دنوں سے ظفرؔ گوشہ گیر ہو گئے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved