تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-06-2013

یہ توہّم کا کارخانہ ہے

صداقت کے جو واقعی تمنائی ہوں‘ دلیل ان پر روشن کردی جاتی ہے…اور جو اپنی خواہشات اور جبلّتوں میں جینے کے آرزو مند رہتے ہیں تو اللہ بے نیاز ہے! ذہنی طور پر الجھے ہوئے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ایک موقف جو طے کر لیتے اور ساری زندگی اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔ آزادی درکار ہوتی ہے‘ فرد اور معاشرہ‘ دونوں کو۔ آدمی کو اپنے ادراک اور اپنے آپ سے برسرِ جنگ ہونے سے ملتی ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ ’’التصوف حرّیہ‘‘ تصوف آزادی ہے۔ معاشرے کو ایک آہنگ درکار ہوتا ہے۔ انصاف سے تحفظ کا احساس عطا ہونے پر جو پھوٹتا اور برگ و بار لاتا ہے۔ اسی سے امن اور قرار کہ بہترین انسانی صلاحیت پھر بروئے کار آتی ہے۔ حریّت میں ایک نظم‘ ایک ڈسپلن۔ رہے عطائی تو ان کے نسخے اپنا اور دوسروں کا دل لبھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا۔ یہ توہّم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا خیال و فکر کے کھیت ہوتے ہیں‘ جن پر ابر برستا ہے تو رزق کشادہ ہو جاتا ہے۔ جنگل بھی ہوتے ہیں‘ زندگیاں جن کے اندر بھٹکنے میں گنوا دی جاتی ہیں‘ دانا وہ ہے‘ جو دائم سیکھنے پہ آمادہ رہے‘ وگرنہ وہی ہمارا بدایوں کا مایوس شاعر۔ موت وہ دن بھی دکھائے مجھے جس دن فانیؔ زندگی اپنی جفائوں پہ پریشاں ہو جائے حالیہ الیکشن ہی کو لیجیے۔ درجنوں مفروضے ہیں اور ہزار طرح کے دلائل۔ سازشوں کے فلسفے اور ان پہ طرح طرح کے بگھار۔ اللہ کسی کو دانشوری کے عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ خبط سوار ہو جائے تو زندگی برباد‘ دوسروں کی تو وہ لازماً کرے گا‘ اپنی بھی۔ سچائی کی سویر اس کے قلب و نظر پہ کبھی طلوع نہ ہوگی۔ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں اسلام میں مذہبی طبقے کا وجود ہی نہیں۔ یہ سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا زمانہ ہے‘ جب ہم اسے نمودار ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ مساجد بے شمار ہو گئیں اور کوچہ و بازار واعظوں کی چیخ پکار سے گونجنے لگے۔ عربوں کی فصاحت کے کیا کہنے۔ صدیوں سے وہ شاعر اور خطیب ان میں اجاگر تھے‘ تاریخ میں‘ جن کی نظیر نہیں۔ اب ان کے پاس قرآن کریم بھی تھا اور سرکارؐ کے ارشادات بھی۔ ایک ایک آیت معجزہ‘ ایک ایک حدیث توشۂ نور۔ دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار ان کا چمک اٹھا اور خدا کی مخلوق دنگ۔ امام عالی مرتبتؓ نے دیکھا تو فیصلہ صادر فرمانے کا ارادہ کیا۔ اکثر کو خاموش ہو جانے کا فرمان جاری کیا۔ جن کے بارے میں گمان تھا کہ ہدایت قبول کر سکتے ہیں یا سچّے ہیں‘ ایک ایک کر کے انہیں طلب فرمایا‘ حتیٰ کہ ایک دن خواجہ حسن بصری بھی بلائے گئے۔ پوچھا: تم عالم ہو یا علم کے متلاشی؟ ان کا بچپن امّہات المومنین کے سائے میں بیتا تھا۔ نام ان کا سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے رکھا تھا۔ دیکھا تو کہا: خوبرو ہے، ’’حسن‘‘۔ ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں سرکارؐ تشریف لائے تو آپ نے ان کی گود میں ڈال دیا۔ بچے کے لیے آپ نے دعا کے ہاتھ اٹھا دیئے۔ روایات کے مطابق اہلِ بدر سمیت 127 اصحاب سے تحصیل علم کرنے والا زاہد۔ وجیہہ و شکیل جواں سال نے جواب دیا: عالم ہوں نہ طلب علم کا دعوے دار۔ بس یہ ہے کہ عالی جنابؐ کے رفقا سے جو کچھ سنا اور سیکھا ہے‘ وہ لوگوں کو بتاتا ہوں… بس وہی ایک تھے‘ جنہیں اجازت عطا ہوئی! اچھا! وہ الیکشن اور سازشوں پہ بگھار۔ کیسی کیسی سنسنی خیز کہانیاں ہیں‘ جو رات گئے کی محفلوں اور مجلسوں میں سنائی جاتی ہیں۔ کتنی ہیں‘ جو منظر عام پر آنے والی ہیں۔ زمانہ اپنے سینے میں کوئی راز بہت دن چھپا کر نہیں رکھتا۔ بسترِ علالت پر پڑا عمران خان زخمی شیر کی طرح کسمسا رہا ہے۔ مطالبہ اس کا یہ ہے کہ تحقیقات کی جائے اور عدالت فیصلہ کرے۔ ارادہ یہ کہ ورنہ عید کے بعد ایک بار پھر وہ برسرعام ہوگا۔ اپنی شمشیرِ طرح دار کی چمک سے وہ میدان کو بھر دینے کا ولولہ۔ بعض اہم قومی شخصیات کے بارے میں جو کچھ وہ کہتا ہے‘ (اور مصر ہے کہ دلائل و شواہد رکھتا ہے) رقم نہیں کیا جاسکتا۔ مختصراً یہ کہ گرگٹ ہیں‘ وہ گرگٹ۔ شکل مومناں، کرتوت کافراں۔ حسنِ ظن ان سے جتنا تھا‘ اتنے ہی زیادہ وہ تو منافق نکلے۔ ایک دوسرا موقف ہے اور یقینا یہ بھی قابلِ غور۔ الیکشن ہوچکے اور قوم نے اپنا لیڈر چن لیا۔ ہیرا پھیری بھی اگر ہوئی تو کتنی؟ عدل و رواداری کی کوئی روایت ہی نہیں‘ مثالی انتخاب کیسے ممکن تھا؟ فیصلہ مان لینا چاہیے کہ بقا اور نمود کے لیے قرار اور استحکام لازم ہے۔ ملک کو منقسم اور متصادم رکھا گیا تو کہیں کے ہم نہ رہیں گے۔ دشمن تو چاہتا ہی یہ ہے کہ انتشار اور افراتفری برپا رہے۔ کارندے اس کے بے شمار اور عزائم ان کے خطرناک ہیں۔ ایک نہیں‘ پاکستان کے بہت سے بدباطن حریف ہیں۔ کمزور معیشت اور تقسیم در تقسیم کے طفیل حال اب تو فقط یہ ہوا کہ دوست بھی ایک طرح کے دشمن ہو گئے۔ خفیہ طور پر اپنے لشکر بنانے اور گروہ پالنے لگے۔ کبھی تو فقط کرایے کے مولویوں اور ملحدوں ہی کی سرپرستی تھی۔ اب پوری کی پوری سیاسی پارٹی خرید لی جاتی ہے۔ ان دلائل پر وہ بھڑک اٹھتے ہیں، جنہیں زخم لگا ہے۔ برہمی کے ساتھ وہ یہ کہتے ہیں: خوب جناب والا خوب! نون لیگ کی اکثریت تھی ہی نہیں‘ تیس چالیس سیٹیں اس نے دھاندلی سے ہتھیا لیں۔ انہی کے بل پر آزاد ارکان کو ورغلایا۔ دانستہ طور پر الیکشن کے اعلان کا دن چھپا رکھا گیا‘ جس قدر ممکن تھی‘ تاخیر کی جاتی رہی۔ اصل حریف کو پوری انتخابی مہم کی مہلت نہ دینے کا تہیہ۔ الیکشن کمیشن دو پارٹیوں کی سازباز سے بنا۔ سرحد میں مولوی صاحب اور اے این پی کی مفاہمت سے سرکاری افسروں کا تقرّر ہوا۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے ریمنڈ ڈیوس کے وکیل کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ سندھ میں الیکشن ہوا ہی نہیں، بس ایک ڈرامہ سا رچایا گیا۔ بلوچستان میں بعض سیٹوں کے نتائج کئی دن اور کئی ہفتے کی تاخیر سے جاری ہوئے۔ سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود‘ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دیا گیا اور کوئی اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ آخر کیوں؟ ایاز صادق میں کون سی خوبی ہے؟ کون سا کارنامہ اس نے انجام دیا تھا کہ عمران خان ایسے ہیرو کو ہرا دے؟ سوا نو بجے ہی میاں محمد نوازشریف نے جشن منانے کا اعلان کس بنا پر کردیا تھا؟ اسی لیے کہ ان کے بقول اس سے فوراً پہلے ایک اہم قومی شخصیت نے درجنوں پریزائیڈنگ افسروں سے رابطہ کر لیا تھا۔ ایک اخبار نویس نے یہ سب دلائل دہرائے اور واقعہ یہ سنایا: میاں محمد نوازشریف 1993ء میں اپنے ماڈل ٹائون والے گھر میں ٹیلی ویژن پہ انتخابی نتائج دیکھ رہے تھے۔ شب ایک بجے تک نون لیگ کی سیٹیں پیپلز پارٹی سے زیادہ تھیں۔ جوش و خروش کا کیف و سرور نون لیگ کے ان لیڈروں پہ طاری تھا‘ خاص طور پر میاں شہباز شریف اور سینیٹر مشاہد حسین پر۔ نوازشریف مگر چپ رہے‘ دیر تک چپ رہے اور بولے‘ تو یہ کہا: آخری نتائج وصول ہونے تک کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بتایا گیا کہ دنیا ٹی وی کے محمد مالک بھی وہیں تھے۔ ان کی گواہی کیا ہے کہ اب کی بار سوا نو بجے ہی انہیں فتح کا اس قدر یقین کیسے ہوا؟ ابھی تو دس فیصد نتائج بھی حتمی نہیں تھے؟ الیکشن سے قبل برطانوی سفارت کار گھر گھر کیوں پوچھتے پھرے کہ کیا انتخابات کے بعد 1977ء ایسی احتجاجی تحریک برپا ہو سکتی ہے؟ بالکل متصادم اور متحارب یہ نقطۂ ہائے نظر ایک بار پھر ملک کو بے امان کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انصاف کا تقاضا کیا ہے؟ اخبارات میں بحث ہوتی رہے؟ چھینٹے اڑتے رہیں‘ اور مخمصہ اسی شدت کے ساتھ باقی اور بڑھتا رہے؟ عدل اگر عزیز ہے اور مفاد ہی اگر ایمان نہیں تو حل موجود ہے اور بالکل سامنے ہے۔ خود جیتنے والوں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اس تجویز کو قبول کر لیں۔ کراچی کے علاوہ‘ پنجاب‘ سرحد اور بلوچستان کی جن نشستوں پر شکایات زیادہ ہیں‘ ان میں ووٹ کی پرچیاں پرکھ لی جائیں۔ الیکشن کمیشن ایک غیر جانبدار جیوری کی نگرانی میں‘ میسر جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے۔ شناختی کارڈوں کے نمبر اور انگوٹھوں کے نشان موجود ہیں۔ اگر یہ نمبر درست اور نشان سچّے ہیں تو سبحان اللہ۔ تری آواز مکّے اور مدینے۔ ملک یکسو ہو جائے گا اور یکسوئی ہی وہ چیز ہے‘ جو منزل کی آرزو میں اصل متاع ہوتی ہے۔ باقی تو جیسا کہ آئن سٹائن نے کہا تھا‘ فقط تفصیلات ہی ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہیئت حاکمہ اگر ماننے سے انکار کردے؟ اگر عدالتِ عظمیٰ بھی نوٹس لینے پر آمادہ نہ ہو؟ جواب آشکار ہے۔ پرائمری سکول کا ایک طالب علم بھی بتا سکتا ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ صداقت کے جو واقعی تمنائی ہوں دلیل ان پر روشن کردی جاتی ہے… اور جو اپنی جبلّتوں میں جینے کے آرزو مند ہوں؟… تو اللہ بے نیاز ہے! حرفِ آخر: ڈیڑھ سو یتیم بچے وزیر خزانہ کی سرپرستی سے فیض یاب ہیں۔ مبارک ہو کہ خود اپنی تجویز کے طفیل‘ اب ٹیکس میں وہ رعایت پائیں گے۔ ہم خرما و ہم ثواب۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved