اپوزیشن کی پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اگرچہ ابھی تک باقاعدہ کوئی تحریک لانچ نہیں کر سکیں لیکن احتساب کے نام پر اپوزیشن رہنمائوں کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔ پہلے مولانا فضل الرحمن کو آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں نوٹس کا اجرا کر کے سیاسی ماحول کو گرمایا گیا،پھر جب جے یو آئی نے اپنے قائد کی طلبی کے خلاف سیاسی مزاحمت کا نعرۂ مستانہ لگا کے عوام اور میڈیا کی توجہ حاصل کر لی اور جب مولانا کی متوقع طلبی کو لے کر مرکزی دھارے کے میڈیا میں وسیع پیمانے پہ بحث وتمحیص کے ہنگامے نے سماں باندھ لیا تو عین وقت مولانا صاحب کو نہ بلائے جانے کا موقف اپنا کے اُن کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو پختہ کر دیا گیا۔ اس بات کا تو ہمیں علم نہیں کہ موجودہ سیاسی بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت اپنے دامن میں کون سی حکمت عملی چھپائے بیٹھی ہے لیکن اعصاب کی اس جنگ میں فی الحال اپوزیشن کا پلڑا بھاری اور فیصلہ سازوں کے دل و دماغ کی کنفیوژن واضح نظر آ رہی ہے۔بے یقینی کی اسی کیفیت کو اگر زیادہ دیر تک قائم رکھا گیا تو ملک میں سیاسی عدم استحکام دو چند ہو جائے گا۔سیاسی صورت حال اس قدر پیچیدہ ہے کہ لگتا ہے کہ اصلاحِ احوال کی ہر کوشش بگاڑ میں اضافے کا سبب بنے گی۔
1977ء میں سیاسی محاذ آرائی کے نتیجے میں جب سیاسی خلا پیدا ہوا تو اُس وقت مقتدرہ نے آگے بڑھ کے ملک و قوم کو سنبھال لیا تھا۔ موجودہ سیاسی بحران نے سارے انتظامی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے؛ چنانچہ یہ کشمکش بالآخر ہمیں ایسی سیاسی دلدل میں دھنسا سکتی ہے جس سے نکلنا دشوار ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس سیاسی دلدل میں دھنس اور پھنس گئے تو ہمیں کون باہر نکالے گا؟جبکہ ہم سب کے سب اس میں پھنسے ہوں گے؛ چنانچہ ہماری حکمراں اشرافیہ کو سیاسی انحطاط کے اسباب سے نمٹنے کی سنجیدہ کوشش کرنا پڑے گی‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب یہ جنگ ختم ہو تو فاتح اور مفتوح‘ دونوں نے وہ تمام چیزیں کھو دی ہوں جس کے لئے وہ لڑ رہے تھے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں قائم حکومت دو سالوں میں ابھی تک اپنی صفوں کو درست نہیں کرپائی،پھر پی ٹی آئی میں اندرونی تقسیم اس قدر شدید ہوتی جا رہی ہے کہ اسے مناسب طریقے سے سنبھالنا یا زیادہ دیر تک چھپائے رکھنا اب ممکن نہیں ہو گا۔عالمی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں سے پتاچلتا ہے کہ سینئر حکومتی وزرا اپنے کابینہ کے ساتھیوں پر کھلے عام سازشوں اور باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے تسلیم کیا کہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیرترین اور اسد عمر کے مابین اختلافات نے پارٹی مفادات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ انہوں یہ بھی کہا کہ ''پی ٹی آئی حکومت منظم اصلاحات کے ذریعے نظام کو زیادہ پیشہ ورانہ اور خود مختار بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، عوام نے گری دار میوے اور نٹ بولٹ ٹھیک کرنے کے لئے نہیں بلکہ نظام میں اصلاحات لانے کے لئے ہمیں یا وزیر اعظم عمران خان کو منتخب کیا تھا لیکن پی ٹی آئی کے حامیوں سمیت اُن بیشتر پاکستانیوں کو مایوسی ہوئی،جنہوں نے عمران خان کی پارٹی کو اس امید پر ووٹ دے کر ایوانِ اقتدار تک پہنچایا تھا کہ قوم کی تقدیربدلنے والا لمحہ بس جلد ہی آنے والا ہے‘‘۔
اگرچہ پارٹی کے اندر ناقابلِ اختصاص داخلی پھوٹ کے نتائج نہایت خطرناک ہیں لیکن جب وزیر اعظم اپنے ساتھیوں کو جوڑنے کی کوشش میں سرگرداں ہوں گے تو انہیں اپنے فطری تضادات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ایک سروے کے مطابق ''پاکستانیوں کی بڑی تعداد اب اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی پہلی حکومتوں سے زیادہ خراب ہے‘‘۔حکومت کے اندر متعدد فالٹ لائنیں ہیں جن میں دراڑیں بڑھتی جا رہی ہیں،بی این پی مینگل،ایم کیو ایم اور جی ڈی اے جیسی اتحادی جماعتوں کے ساتھ کیے گئے عہد و پیماں نبھانے میں تاخیر نے بھی تعلقات میں سرد مہری بڑھا ئی،جو کسی بھی وقت علیحدگی میں بدل سکتی ہے،ایسے حالات میں ریاستی اداروں کے لئے حکومت کے ساتھ کوآرڈی نیشن مشکل ہوتی جائے گی۔
دوسری جانب پیش پا افتادہ سیاستدانوں نے پہلی بار جس کامیابی کے ساتھ اپنے 'آخری نصب العین‘ کا اظہار کیا،ان کی اسی دلیرانہ سرگرمی نے ہماری سیاسی زندگی میں کلیت پیدا کر دی ہے۔ مسترد کردہ ان سیاسی رہنمائوں کے ہاتھ میں بیشک کوئی مادی طاقت موجود نہیں لیکن وہ اپنے عزم کے ذریعے جبریت کی تسخیر کر سکتے ہیں۔جمہوریت اپنے ایسے ہی گستاخانہ تصورات کے ذریعے اس فانی زندگی کی توضیح کرتی ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ نوازشریف کے بعد اب مولانا فضل الرحمن کو بھی سنبھالنا دشوار ہوتا جائے گا،مقبول سیاستدانوں کو گرفتاریوں اورجیلوں سے ڈرا کے ڈھب پہ لانا اب ممکن نہیں رہا بلکہ اس سے الٹا مزاحمتی کلچرکو پذیرائی ملے گی اور اگر حکومت کی ہنگامی کارروائیوں کے نتیجے میں باغیانہ رویوں کو اسی طرح مقبولیت ملتی رہی تو اطاعت گزار قاف لیگ،ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی بھی اپنا لب و لہجہ بدل سکتی ہیں۔
ایسے کشیدہ حالات میں اگرگورنمنٹ نے دو ڈھائی سال مزید گزار بھی لئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا،جس طرح پچھلے دو‘ ڈھائی سالوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دے سکیں،اسی طرح اگلے دو ڈھائی سال بھی داخلی سرگرانی میں کھپ جائیں گے۔جس طرح پیچیدہ معاشی پالیسیوں کی بدولت ہوشربا مہنگائی نے عام لوگوں کی امیدوں پہ پانی پھیرا،اسی طرح گورنمنٹ کی غیر مفاہمانہ سیاست کی بدولت سیاسی تقسیم بھی اضطراب بڑھاتی رہے گی۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی تعلقات جلد نارمل نہ ہوئے تو یہ بحران بتدریج موجودہ سیاسی بندوبست کو مفلوج کر دے گا۔اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو بڑھتی ہوئی قومی تفریق اور سیاسی انتشار کے ماحول میں 2023ء کے عام انتخابات کرانا بھی دشوار ہو جائے گا۔
کیا کسی بھی قوت کے لئے پھر اُسی مشقِ ستم کیش کو دہرانا ممکن ہو پائے گا جسے 2018ء میں بروئے کار لایا گیا تھا؟ دوبارہ ایسا بندوبست ہرگز نہیں ہو پائے گا کیونکہ اگلے ڈھائی‘ تین سالوں تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہو گا۔حکمراں جماعت کی پہلے سی مقبولیت باقی رہے گی نہ ہی تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات ہمیں نت نئے تجربات کی مہلت دیں گے۔کسی بھی حکومت کے لئے مخالف سیاسی گروہوں کو مطلقاً ختم کرنا ممکن ہے نہ ہی سیاستدانوں کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالا جاسکتاہے۔ سیاست کے لئے مرضی کے افراد کی تیاری کا کوئی میکنزم پیدا ہی نہیں ہوا بلکہ یہاں جیسے لوگ دستیاب ہوں‘ انہی سے کام چلایا جاتا ہے۔ ارسطو نے کہا تھا ''سیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے مابین مفاہمت کا آرٹ ہے‘‘۔اگر قومی یکجہتی کے حصول کی خاطر مفاہمت کی کوئی قابلِ عمل راہ تلاش نہ کی گئی تو یہ کشمکش بالآخر ملک کی قوتِ مدافعت چاٹ جائے گی۔
مقبول سیاسی رہنمائوں کے لب و لہجے میں بڑھتی ہوئی تلخی اسی خطرناک رجحان کا پتا دیتی ہے۔ملکی سلامتی کے لئے لازم ہے کہ دفاعی اداروں کو پاپولر سپورٹ حاصل رہنی چاہیے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قومی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے والی سول اتھارٹی بھی عوامی حمایت کے بغیر بڑے فیصلے نہیں کر سکتی۔ آج اگر ترکی میں صدر طیب اردوان عالمی سطح کے بڑے فیصلے لے رہے ہیں تو انہیں قومی اداروں سمیت عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور یہی ان کی اصل طاقت ہے۔اس طلسماتی کشمکش کا ایک حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری نواز لیگ کو پارٹی کے اندر پائی جانے والی ذہنی تقسیم پہ قابو پانے کا موقع فراہم کرے گی۔ گویا حکومت اپنی ہی حکمت عملی سے اپوزیشن کی بکھرتی ہوئی قوت کو مجتمع کرنے کے سہولت دینے لگی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں مل کر بھی کوئی ایسی تحریک اٹھانے پہ قادر نہیں جو پی ٹی آئی حکومت گرا سکے لیکن ٹکرائو کی پالیسی پہ عمل پیرا جماعتیں سیاست کو غیر معمولی بحران کی طرف دھکیلنے کا ہدف ضرور پا لیں گی۔