تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     02-10-2020

کیا ایجادات دیگر مخلوقات کو ختم ہونے سے روک سکیں گی ؟

اگر آ پ دنیا کو غور سے دیکھیں تو طرح طرح کے احساسات آپ کو آلیں گے۔ آپ دنیا میں انسانی ترقی دیکھتے ہیں تو رگ و پے میں مسرّت کا احساس جاگ اٹھتاہے۔ جسم کا ہر خلیہ مسکرا دیتاہے۔ ہر سمت میں انسانی علم تیز ترین رفتار سے بڑھ رہا ہے۔دوسری طرف جب آپ بدلتے ہوئے کرّہ ٔارض کو دیکھتے ہیں تو پھر اندیشے جاگ جاتے ہیں۔ آدمی سہم کے رہ جاتاہے۔ چند برس قبل ایک ایسی دریافت ہوئی، جو ٹیلی وژن اور کمپیوٹر سمیت بجلی سے چلنے والی تمام اشیا میں انقلاب کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ ان چیزوں میں سائنسدانوں کو سب سے زیادہ پریشان کرنے والی بات توانائی کا ضیاع ہے۔ اسے ایسے سمجھیے کہ جس لیپ ٹاپ پہ اس وقت میں ٹائپنگ کر رہا ہوں، اس میں لگا ہوا پروسیسر بجلی استعما ل کرتے ہوئے مسلسل حرارت پیدا کر رہا ہے۔ اگر خصوصی طور پر بنا ہوا ایک چھوٹا سا پنکھا ہوا پھینک کر اسے ٹھنڈا نہ کرتا ہوتو گرم ہو کر وہ کام کرنے سے انکا رکر دے گا۔ اس سارے عمل میں انسان مجبور ہے کہ اپنے ہاتھوں سے توانائی کو ضائع کرے۔ جو حرارت پروسیسر پیدا کر رہا ہے، وہ ہم استعمال میں لانے کے بجائے‘ اسے پھونکیں مار کے کم کرنے پر مجبور ہیں کہ ہماری الیکٹرونکس خراب نہ ہو جائیں۔
بجلی ایٹم کے گرد موجود الیکٹران کی مدد سے حرکت کرتی ہے۔ ان اشیا میں خاص قسم کا ایک آلہ ''سپر کنڈکٹر‘‘ پچھلے تیس برسوں سے سائنسدانوں کی تحقیق کا مرکز تھا۔ عام میٹریل میں الیکٹران حرکت کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتے او ربجلی ضائع کرتے چلے جاتے ہیں۔ سپر کنڈکٹرز میں وہ ایک ترتیب یا قطار کی صورت اختیار کرتے ہوئے بجلی کو خود پر سے ایسے گزارتے ہیں کہ توانائی ضائع نہیں ہوتی۔ اس مقصد کے لیے بیسویں صدی کے آغاز میں دریافت ہونے والے ان سپر کنڈکٹرز کو انتہائی حد تک یعنی منفی 273ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کرنا پڑتا تھا۔ پھر 1980ء کی دہائی میں زیادہ درجہ حرارت یعنی مائنس 135ڈگری پہ کام کرنے والے سپر کنڈکٹر دریافت ہوئے۔ یہ دریافت اتفاقیہ تھی۔ سائنسدان یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ وہ کون سی خصوصیات ہیں جو کسی شے کو زیادہ درجہ حرارت پہ کام کرنے والا سپر کنڈکٹر بناتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کے پاس اشیا کے باہمی ربط کا علم توتھا‘ ان کی حقیقت کا نہیں۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ انسان اپنے طور پر کم سے کم توانائی خرچ کرنے والی بہترین ایجادات کے قابل نہ تھا۔ تیس سال تک سائنسدان تحقیق کرتے رہے۔ آخر یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین نے یہ راز پالیا۔ طاقتور ترین مقناطیسی میدان پیدا کرنے سے انہیں یہ معلوم ہوا کہ بعض مخصوص اشیا کے ایٹموں کے گرد چکراتے الیکٹران ایسی لہریں پید اکرتے ہیں، جس کے تحت زیادہ درجہ حرارت پہ بھی وہ سپر کنڈکٹر کا کردار ادا کرتے ہوئے توانائی کو ضائع ہونے نہیں دیتے۔ اب مستقبل میں ایسے الیکٹریکل گرڈز سمیت بجلی فراہم کرنے اور اس سے چلنے والی ایسی اشیا کی ایجاد ممکن ہے، جو انتہائی کم توانائی استعمال کر یں گی۔اب سپر کمپیوٹرز کی اگلی بہتر نسل کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف سٹینفورڈ کے محققین نے اس باب میں قابل قدر پیش رفت کی ہے۔ انہوں نے آئرن سلینائڈ نامی سپر کنڈکٹر ز بنائے ہیں، جنہیں ٹائٹینیم اور آکسیجن جیسے عناصر کے اشتراک سے بنے ہوئے ایک میٹریل کے اوپر لگانے سے وہ توانائی کے سو فیصد استعمال کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔ سو فیصد! یہ سب اپنی جگہ درست ہے لیکن سب سے سستی توانائی کا درست ترین استعمال ہمارا جسم کرتاہے۔ یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے جسم و دماغ بھی مکمل طور پر بجلی کے پیغامات کی مدد سے تمام افعال سرانجام دیتے ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے سے لے کر سوچنے سمجھنے اور خوراک ہضم کرنے سے لے کر دل دھڑکنے تک، ہمارے رگ و پے میں الیکٹریکل اور کیمیائی پیغامات مسلسل دوڑ تے چلے جا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ دوسرے جانوروں کے برعکس، انسانی دماغ جسم کا محض دو فیصد ہونے کے باوجود خوراک اور آکسیجن سے پیدا ہونے والی توانائی کا 20فیصد حصہ ڈکار جاتاہے۔میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہیں، جتنی بھی الیکٹرونکس ہیں، ان میں سب سے عجیب اورشاندار ایجاد زندہ اشیا ہیں۔ آپ انسان کو چھوڑیں‘ ایک مکھی لے لیں۔ اس کے جسم میں خوراک ہضم کرنے سے لے کر خون دوڑانے تک کے مختلف نظاموں کا جائزہ لیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ کیسے آپ کے جسم کے ایک ایک خلیے کو گلوکوز اور آکسیجن ملتی ہے اور کیسے جسم کے ایک ایک خلیے سے فاسد مادے جسم سے باہر نکالنے کا نظام کام کر رہا ہے۔ چھوٹی ٹیکنالوجی بنانا زیادہ مشکل ہوتاہے۔ اسی طرح چیونٹی جیسے جاندار میں تمام اعضا کو اس طرح سے تخلیق کرنا کہ وہ زندگی sustainکرنے کے لیے تمام افعال سر انجام دے سکے‘ انتہائی حیران کن ہے۔
جیسا کہ شروع میں عرض کیا تھا، ہر سمت میں انسانی علم تیز ترین رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ کرّۂ ارض کی تاریخ اور حیوانی باقیات (فاسلز) پہ تحقیق کرنے والے سائنسدان مدتوں اس بات پہ حیران ہوتے رہے کہ آج سے قریب پچاس کروڑ سال پہلے کیا ماجرا پیش آیا تھاکہ نت نئی نسلوں کے جانور انتہائی تیز رفتاری سے کرّۂ ارض پہ پھیل گئے تھے۔ اسی بات کا تذکرہ چارلس ڈارون اپنی مشہور کتاب ''On the Origion of Species‘‘ میں کرتاہے۔ اس سے قبل سمندر تو جانداروں سے لیس تھے لیکن نرم جسم اور ہڈیوں سے محروم، یہ اور طرح کی زندگی تھی۔یہ جو جاندار سمندروں میں پھیلے ہوئے تھے‘ یہ ہماری طرح کے نہیں تھے۔ پھر کوئی عجیب واقعہ پیش آیا۔ پہلی بار ٹھوس ڈھانچے والے نت نئی قسموں کے جانور کرّۂ ارض پر پھیلتے چلے گئے۔آج جتنے بھی جانور ہمیں نظر آتے ہیں، تقریباً ان سبھی کے اجداد اسی زمانے میں منظرِ عام پر آئے تھے۔ میں اورآپ بھی انہی میں شامل ہیں۔ اسے کرّۂ ارض کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ کہا جاتاہے۔ اسے Darwin Dilemmaبھی کہا جاتاہے کہ ڈارون کے نظریات سے یہ متصادم تھا۔ یہ ایک ایسا مخمصہ یعنی Dilemmaتھا،جس پر ڈارون حیرت کا شکار رہا تو حیرت زدہ سائنسدان مسلسل تحقیق کرتے رہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین نے اب سراغ لگایا ہے کہ کیمبرین ایکسپلوژن کوئی مختصر عرصہ نہیں تھا۔یہ عرصہ دو کروڑ سال پہ محیط تھا۔ ا س دوران سمندر کا پانی بلند ہو کر خشکی پہ چڑھ آیا تھا اور آکسیجن کی مقدار بے حد بڑھ گئی تھی۔ پانی اور آکسیجن، زندگی اور زندگی! اس کے بارے میں قرآن کہتاہے: اور ہم نے ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا کیا۔ 
معترضین کہا کرتے تھے کہ قرآن یونانی فلسفہ استعمال کرتاہے (نعوذباللہ) یونان والے کب یہ کہتے تھے کہ پانی سے ہر زندہ شے پیدا ہوئی۔ پانی ان کے نزدیک چار عناصر میں سے محض صرف ایک عنصر تھا۔ آگ، پانی اور ہوا کی طرح۔ یوں ایک ایک کر کے سارے معمّے حل ہوتے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کروڑوں برس پرانے ان واقعات پہ حتمی شہادت نہیں دی جا سکتی لیکن بہرحال ایسا ہر واقعہ کرّۂ ارض پہ اپنے انمٹ نشان چھوڑ جاتاہے۔ پریشانی اس بات سے ہوتی ہے کہ آج سے قریب پچاس ہزار سال پہلے ایک اور حادثے کا آغاز ہوا تھا۔ تقریباً اسی دور میں انسانی دماغ کو اس کی موجودہ شان و شوکت عطا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اگلے تیس ہزار سال میں براعظم شمالی امریکہ کے بڑے میملز میں سے آدھے ہمیشہ کے لیے ناپید ہو گئے تھے۔ یہ بات اب کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے،بہت بڑی تعداد میں جاندار نسلیں(سپیشیز) ناپید ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان زمین پر قبضہ کرتا ہے۔جنگل پہ بلڈوزر چلا کر وہاں گھر تعمیر کرتاہے۔ جب مسکن ہی نہیں بچیں گے تو جاندار کیا خاک زندہ رہیں گے۔ انسان نے سمندروں کو پلاسٹک سے بھر دیا ہے، بے شمار سمندری انواع اس کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں اور بے شمار ختم ہو تی چلی جا رہی ہیں۔ انسان جب تک زندہ رہے گا‘ جانور ختم ہوتے رہیں گے۔
یہ ہے موجودہ تناظر۔ ایک طرف مسرت‘ دوسری طرف خوف!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved