خاموش رہ سکتا ہوں نہ کوئی چپ
کرانے کی کوشش کرے: نواز شریف
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور مفرور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''خاموش رہ سکتا ہوں نہ کوئی چپ کرانے کی کوشش کرے‘‘ کیونکہ جو کچھ میں کہہ چکا ہوں‘ میرے سیاسی کیریئر کے خاتمے کے لیے وہی کافی ہے ، نیز اب میرا اور نقصان کیا ہو سکتا ہے ؟میں ساری کشتیاں جلا چکا ہوں اور واپسی کے لیے ایک بھی کشتی موجود نہیں۔اگر میرے پیچھے بھارت ہے تو اس سے کسی کو کیا؟ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں جو میں نے بھارت کو آگے کرنے کے بجائے اسے پیچھے رکھا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز ہیڈیو لنک کے ذریعے پارٹی کی سنٹرل کمیٹی سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کا رونا دھونا ہی ختم نہیں ہو رہا: فواد چودھری
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کا رونا دھونا ہی ختم نہیں ہو رہا‘‘ اور جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک وقت میں دو کام کر رہے ہیں یعنی رو بھی رہے ہیں اور دھو بھی جبکہ ایک وقت میں ایک ہی کام اچھا لگتا ہے جبکہ وہ یہ دونوں کام باری باری اور زیادہ خوش اسلوبی کے ساتھ کر سکتے ہیں یعنی کچھ دیر رو لیا اور اس کے بعد کچھ دیر دھو لیا؛ اگرچہ دھونے پر زیادہ وقت خرچ کرنا چاہیے کیونکہ میل کچیل اتنی زیادہ ہے کہ سارا وقت اگر دھونے ہی کے لیے وقف کر چھوڑیں تو ان کے لیے بہتر ہو گا کیونکہ رونے کے لیے تو ساری عمر پڑی ہے کہ جیل میں بھی اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہو گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
انتقامی کارروائیاں فیس سیونگ نہیں کر سکتیں: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''انتقامی کارروائیاں عمران خان کی فیس سیونگ نہیں کر سکتیں‘‘ جبکہ فیس سیونگ ویسے بھی ناممکن ہے کیونکہ ہم نے خود اسے بار بار آزما کر دیکھ لیا ہے، یعنی ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جس بھی منہ کو بچانے کی کوشش کی گئی تھی اور جب تک آدمی مکمل نقاب نہ اوڑھ لے‘ فیس سیونگ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے عمران خان ہم سے سبق حاصل کریں اور کوئی دوسرا طریقہ اختیار کریں جبکہ انتقامی کارروائی والا محاورہ ویسے بھی کلیشے بن کر بیکار ہو چکا ہے لیکن اسے ترک بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ احتساب کے بجائے اور کوئی لفظ دستیاب ہی نہیں ہو رہا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے بیان جاری کر رہے تھے۔
نواز شریف بتائیں پیسے باہر کیسے لے کر گئے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف بتائیں اثاثے کیسے بنائے، پیسے باہر کیسے لے کر گئے‘‘ ویسے یہ سوال ہی فضول ہے کیونکہ یہ کون نہیں جانتا کہ انہوں نے اثاثے کیسے بنائے اور وہ پیسے کیسے باہر لے کر گئے لیکن چونکہ ہر روز بیان دینا ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے اس لیے یہ سوال پوچھ رہا ہوں‘ جبکہ ان سے یہ سوال کرنا اس لیے بھی غیر ضروری ہے کہ اگر انہیں یاد ہوتا تو پہلے ہی اس کا جواب دے دیتے جس سے ثابت ہوا کہ ایک شریف آدمی کو بار بار ایک گھسا پٹا سوال کر کے پریشان نہیں کرنا چاہیے بلکہ پریشان ہونے کی باری اب حکومت کی ہے کیونکہ زبردست خواہش اور اعلان کے باوجود حکومت انہیں واپس نہیں لا سکی۔ آپ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مصنوعی آکسیجن پر حکومت زیادہ دیر نہیں رہ سکتی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''مصنوعی آکسیجن پر حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی‘‘ اور حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ زیادہ دیر تک قائم رہنا چاہتی ہے تو اپنے لیے اصلی آکسیجن کا انتظام کرے؛ اگرچہ کورونا کے مریضوں اور ان کے وینٹی لیٹرز کی وجہ سے اصلی آکسیجن کی کھپت زیادہ ہو گئی ہے اس لیے حکومت کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ کچھ مریضوں کو وینٹی لیٹرز سے علیحدہ کر کے طوعاً و کرہاً آکسیجن حاصل کر کے لگوائے کیونکہ ایسی حکومتیں بار بار نہیں لائی جا سکتیں ۔آپ اگلے روز تبلیغی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
کمال کا دوست!
ایک صاحب نے پڑوسی ملک میں ایک سرحدی شہر جانا تھا اور ان کی گاڑی ورکشاپ پر تھی؛ چنانچہ انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست سے گاڑی بھجوانے کی فرمائش کی، جس نے کہا کہ تھوڑی دیر میں گاڑی پہنچ جائے گی۔ چند لمحوں کے بعد اس کا فون آیا کہ کچھ سامان وہ اپنے ایک دوست کے ہاں پہنچانا چاہتا ہے‘ اس لیے وہ گاڑی میں اس کا سامان بھی رکھ کر بھیج رہا ہے جو اس کے پتے پر وہ پہنچا دے۔ تھوڑی دیر بعد اس کا پھر فون آیا کہ اس شہر میں اس کی بیوی کی ایک سہیلی بھی رہتی ہے‘ جسے وہ ملنا چاہتی ہے اس لیے وہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ ہی بھیج رہا ہے۔ جب وہ صاحب سرحد پر پہنچے تو ان سے پوچھا گیا: گاڑی آپ کی ہے؟ نہیں! میرے دوست کی ہے: وہ بولے۔ سامان آپ کا ہے؟ دوسرا سوال کیا گیا۔ نہیں میرے دوست کا ہے: انہوں نے جواب دیا۔ بیوی آپ کی ہے؟ پھر پوچھا گیا۔ نہیں، میرے دوست کی ہے: انہوں نے جواب دیا۔'' کمال کے دوست ہیں آپ کے بھی!‘‘ پوچھنے والا بولا۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
بلائے آسمانی کے اُتارے ہو چکے تھے
بچا کچھ بھی نہ تھا اور ہم تمہارے ہو چکے تھے
ابھی دریا کے ہونے میں ذرا تاخیر تھی کچھ
کہ پانی ہونے والا تھا، کنارے ہو چکے تھے
مسافر مُڑ گیا تھا موڑ اپنے راستے کا
جو ہم پہنچے تو پہلے ہی اشارے ہو چکے تھے
نکل آئے تھے دروازے جہاں دیوار ہوتی تھی
دنوں میں ہی سبھی غائب سہارے ہو چکے تھے
ترے ہاتھوں جہاں برباد تھے کچھ اور بھی لوگ
ہمارے بھی وہاں وارے نیارے ہو چکے تھے
سفر باقی تھا سارا اور سمندر سو گیا تھا
سفینہ ڈوبنے کو تھا، ستارے ہو چکے تھے
وہ اپنے رنگ سارے لے گیا تھا ساتھ اپنے
کہ ہم سے بالا بالا سب نظارے ہو چکے تھے
یہاں بھی دوست کوئی نام کو باقی نہیں تھا
وہاں بھی سب کے سب دشمن ہمارے ہو چکے تھے
کسر پھر بھی، ظفرؔ کچھ رہ گئی تھی ہوتے ہوتے
ہمارے کام تو سارے کے سارے ہو چکے تھے
آج کا مقطع
بالآخر ظفرؔ آج فارغ ہوئے
کہ اتنے ہی تھے آنجہانی کے دن