تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-10-2020

اپنی غلطی کا اعتراف

آصف میرا بیس پچیس سال پرانا دوست ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے ساتھ میں گزشتہ کئی سال سے سب سے زیادہ وقت گزارتا رہا ہوں۔ وہ دل کی گہرائیوں سے میاں نواز شریف کے ساتھ ہے؛ تاہم دعویٰ یہ کرتا ہے کہ اس کا کسی جماعت یا شخصیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ لیکن یہ بات کسی طور درست نہیں ہے۔ وہ لاکھ کوشش کرے‘ صرف دو چار منٹ کے بعد ہی پکڑا جاتا ہے اور بڑی نیم دلی سے بادل نخواستہ یہ مان لیتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کا حامی تو ہے لیکن ان کا اس طرح 'اَنھا‘ پیروکار نہیں جس طرح عموماً ہمارے ہاں لوگ کسی سیاسی پارٹی اور اس کے سربراہ کے ہوتے ہیں۔ 
وہ ہر چوتھے دن مجھ پر یہ ملبہ ڈال دیتا ہے کہ میں نے گزشتہ الیکشن میں عمران خان کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اپنے کالموں کے ذریعے قارئین کو بھی اس سلسلے میں گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی بات چونکہ کافی حد تک درست ہوتی تھی اس لیے میں کٹ حجتی کرنے کے بجائے مسکرا کر بات ٹالتا رہا ہوں۔ ظاہر ہے اس کی بات کچھ غلط بھی نہیں تھی۔ مجھ سے یہ قصور سرزد ہوا تھا اور اب اس سے مکرنے کا کوئی جواز دینا عذر گناہ، بدتر از گناہ والا معاملہ ہے لہٰذا تسلیم کرنا ہی بہتر ہے۔ اسے ہم جب بھی میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کی غلط حرکت پر (جو کافی زیادہ ہیں) مطعون کریں تو وہ پرانا دفتر کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ میں اسے کہتا ہوں کہ ایک غلطی کسی دوسری غلطی کا جواز نہیں ہوتی بلکہ یہ مجموعی طور پر دو غلطیاں بن جاتی ہیں‘ لہٰذا کسی شخص کی غلطی کا دوسرے شخص کی غلطی سے موازنہ کرکے اسے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ میں جب بھی میاں نواز شریف کی کسی بات پر انگلی اٹھاؤں تو اسے عین اسی وقت میری الیکشن 2018ء سے قبل والی عمران خان کی حمایت یاد آجاتی ہے اور پھر وہ مجھ پر چڑھائی کر دیتا ہے بلکہ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ میں اگر اپنے کسی کالم میں عمران خان یا موجودہ حکومت کے اعمال پر کوئی اعتراض کروں یا غلطی نکالوں (جو میں آج کل مسلسل کررہا ہوں) تو وہ میرے اس رجوع پر مجھے داد اور پرانی غلطیوں کے کفارے کے طور پر میرے حالیہ نقطہ نظر پر شاباش دینے کے بجائے وہی پرانا کھاتہ کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ دراصل ہمارے ہاں کوئی بھی کسی کو اپنی مرضی کے خلاف سوچ رکھنے پر رعایت دینے کیلئے بالکل تیار نہیں۔ یہی حال آصف کا ہے۔ 
گزشتہ ایک عرصے سے میرے کالم کے قارئین بھی دو چار دن بعد یہی سوال کر دیتے ہیں جو آصف ہر چوتھے چھٹے دن مجھ سے کرتا رہتا ہے۔ آصف سے تو یہ گفتگو وقت کاٹنے کا بہانہ ہے سو میں اسے طرح دیئے رکھتا ہوں لیکن قارئین سے بھلا کون نمٹ سکتا ہے؟ کل آصف نے ایک بار پھر یہی سوال کردیا کہ آپ اب تو کھل کر پی ٹی آئی پر تنقید بھی کررہے ہیں اور حکومت کی غلطیوں پر اس کی کلاس بھی لے رہے ہیں لیکن آپ کو 2018ء کے انتخابات سے پہلے کیا ہوگیا تھا؟ میں نے کہا: آپ مجھے کب سے جانتے ہیں؟ وہ کہنے لگا: برسوں سے۔ میں نے کہا: یہ جواب کافی مجہول ہے ذرا محتاط اندازے سے بتانا‘ آپ کی اور میری دوستی کو کتنا عرصہ ہوگیا ہے؟ وہ کہنے لگا: بیس پچیس سال تو ہو گئے ہوں گے۔ میں نے پوچھا: ان بیس پچیس سالوں میں میں نے کبھی یہ دعویٰ کیاکہ مجھے غیب کا علم ہے؟ آصف کہنے لگا: ہرگز نہیں۔ پھر میں نے پوچھا: میں نے کبھی یہ کہا ہوکہ مجھے الہام ہوتے ہیں؟ جواب ملا: نہیں۔ اگلا سوال یہ پوچھا: میں نے کبھی یہ کہاکہ میں مستقبل بینی کر سکتا ہوں؟ آصف کہنے لگا: کبھی نہیں کہا۔ میں نے پوچھا: میں نے کبھی یہ کہا کہ میں غلطی سے مبّرا شخص ہوں؟ آصف نے پورے یقین سے کہا: کبھی نہیں۔ میں نے آصف سے کہا: آپ اپنے بہترین علم کے مطابق یہ بتائیں کہ میں نے کبھی آپ سے غلط بیانی کی ہو یا جھوٹ بولا ہو؟ آصف کہنے لگا: مجھے بالکل یاد نہیں کہ آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا ہو۔ پھر میں نے کہا: آخری بات یہ کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور میں ایک بالکل عام انسان ہوں۔ غلطیوں اور خطا کا مارا ہوا‘ لیکن آپ بتائیں کہ اپنی غلطیوں سے قطع نظر میں نے کبھی بے ایمانی یا خیانت کی ہو؟ آصف نے کہا: میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں کہ آپ نے جان بوجھ کر غلط بیانی، بے ایمانی یا خیانت کی ہو۔ میں نے کہا: بات ختم ہوگئی۔ عمران خان کے بارے میں ہمیں خوش گمانی تھی اور اسی بنیاد پر اس کی حمایت کی۔ ہمارا اندازہ غلط نکلا‘ ہمارا تجزیہ خام ثابت ہوا اور ہماری امیدیں نقش بر آب ثابت ہوئیں‘ ہم نے اپنے غلط اندازوں سے رجوع کیا اور اپنی خام خیالی کی تصحیح کی۔ اب آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ 
دوسرا سوال یہ کہ تین تین بار دو پارٹیوں سے دھوکہ کھانے کے بعد کیا کسی نئی پارٹی سے امیدیں وابستہ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی تلافی ہی نہ ہوسکے؟ باقاعدہ اور کنفرم چوروں لٹیروں سے تنگ آکر کسی ایسے شخص پر‘ جو ذاتی طورپر کرپٹ ثابت نہ ہوا ہو، اعتبار کرنا کس لحاظ سے غلط ہے؟ اسمبلی کے فلورپر برطانیہ کی جائیدادوں پر مسلسل اور مختلف قسم کے جھوٹ سن کر بھی اگر ان بے ایمانوں کے مقابلے میں کسی تیسرے شخص پر، جس کا بے ایمان ہونا کسی طور ثابت نہیں تھا اعتبار کرلیا تو کتنا بڑا اور ناقابل معافی جرم کیا ہے؟ نہ مجھے علم غیب ہے اور نہ الہام اترتے ہیں۔ نہ مستقبل بینی کا دعویٰ ہے اور نہ آنے والی باتوں کی خبر ہے تو پھر ایسے میں کسی نئے شخص کو آزمانے میں کیا حرج تھا؟ کنفرم اور مستند جھوٹوں، چوروں، لٹیروں اور بے ایمانوں کے مقابلے میں کسی نئے شخص کو آزمانے میں بھلا کیا امر مانع تھا؟ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا اور ہم تین تین بار ڈسے جانے کے باوجود اگر کسی تیسرے شخص کو نہیں آزماتے تو بھلا اگلے جہان اپنے مالک کوکیا منہ دکھائیں گے؟ اب اگر ہمارا اندازہ غلط نکلا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ اس عالم الغیب نے جتنی سمجھ بوجھ دی تھی اس کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے بہترین علم کے مطابق ایمانداری سے اندازہ لگایا۔ اب وہ غلط نکلا تو کیا کریں؟ ہاں جانتے بوجھتے کسی چور، خائن، بے ایمان، لٹیرے اور کرپٹ کی حمایت کرتے تو یقینا اگلے جہان اس قادر مطلق کو جوابدہ ہوتے۔ ہم سے غلطی ضرور ہوئی ہے جو قابل معافی ہے لیکن ہم نے جانتے بوجھتے نہ بے ایمانی کی ہے اور نہ خیانت؛ البتہ وہ لوگ خود کہاں کھڑے ہیں جو تین تین بار چوروں، لٹیروں، ڈاکوئوں اور بے ایمانوں کو منتخب کرچکے ہیں اور ہمیں طعنے ماررہے ہیں۔ خود جانتے بوجھتے خیانت کرنے والے ہمارے اندازوں کی غلطیاں معاف کرنے پر تیار نہیں۔ ہم گنہگار خطاؤں کے پتلے غلطی سے مبّرا ہی کب تھے؛ تاہم ناقد غلطی اور بے ایمانی میں فرق ماننے سے انکاری ہیں۔
عمران خان کی حکومت کی نالائقیوں کا مطلب یہ کہاں سے نکل آیاکہ میاں نوازشریف اینڈ کمپنی حاجی ثنااللہ ہیں اور زرداری و ہمشیرہ اینڈ سن بے گناہ ہوگئے ہیں؟ تین بار آزمائے ہوئوں کو چوتھی بار پھر آزمانے سے ہزار درجہ بہتر تھاکہ کسی نئے کو آزماتے اور ہم نے آزمایا۔ اب اس پر بحث فضول اور بے فائدہ ہے کہ نیا تجربہ کیسا نکلا؟ یہ ایک سبق تھا جو ہمیں ملا اور ہم نے اپنی غلطی سے رجوع کیا۔ یہ میرے مالک کا خاص کرم ہے کہ اس نے غلطیوں کو تسلیم کرنے کی توفیق بخشی۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت بخشے جو آج بھی کنفرم چوروں اور لٹیروں کے غیرمشروط اور اندھے مقلد ہیں۔ ہم نے ایک بار غلطی کی اور اس کی تلافی میں مصروف ہیں۔ بے ایمان، خائن اور بددیانت تو وہ ہیں جو آج بھی اپنی غلطیوں در غلطیوں پر ڈھٹائی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اللہ ہماری خطائیں معاف کرے اور خیانت کرنے والوں کو ہدایت بخشے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved