تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     15-06-2013

نظریاتی محاذ کا ڈرامائی انداز

کبھی کبھار کوئی کتاب یا فلم یا ڈرامہ آپ کو جھنجھوڑتے ہوئے اپنے عقیدے، اپنی شناخت اور اپنے کلچر کے بارے میں نظریات پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کر تاہے۔ حال ہی میں مجھے ایک پاکستانی نژاد ایاز اختر کے Pulitzer Prize حاصل کرنے والے ڈرامے ’’Disgraced‘‘کو دیکھتے ہوئے ایسی ہی کیفیت سے گزرنا پڑا۔ یہ ڈرامہ لندن کے ’’بش تھیٹر ‘‘ میں پیش کیا گیا۔ اسی مصنف کا ایک اور ناول ’’American Dervish‘‘ بھی منظر ِ عام پر آچکا ہے۔ 9/11 کے بعد کی دنیا میں مغرب ، خاص طور پر امریکہ، میں آباد مسلم تارکین ِ وطن کو اپنے اجتماعی نظریات اور ذاتی تشخص کا جائزہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ 9/11 سے پہلے کی دنیا میں بھی جو نسبتاً پر سکون تھی، وہ مغربی ممالک کے معاشروں میں ناموزوں تھے ، لیکن اب توان کی آباد کاری کو ایک خاص پس ِ منظر میں دیکھا جاتا ہے۔ مذکورہ ڈرامے کا آغاز نیویارک کے ایک شہری عامر کپور (ڈرامے کے واقعات بتاتے ہیںکہ وہ پہلے عامر عبداﷲ تھا) جو ایک کامیاب وکیل ہے، کے مکان میں ہوتا ہے۔ اُس کی فنکار بیوی ایملی اُس کا پورٹریٹ بنا رہی ہے۔ ان کے مابین ہلکے پھلکے جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس دوران ایک یا دومرتبہ اُسے فون کالز بھی وصول ہوتی ہیں اور ان فون کالز سے ناظرین کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اہم اور طاقتور قانونی فرم میں کام کر رہا ہے۔ جب اُس کا بھتیجا ایبی (Abe) کمرے میں داخل ہوتا ہے تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ عامر ایک مسلمان ہے۔ اس کے بھتیجے کا نام پہلے حسین تھا لیکن اب اُس نے اسے تبدیل کرکے ایبی رکھ لیا ہے۔ اس وقت ایبی اور ایملی عامر پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک مقامی امام کا جس پر حماس کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کا الزام ہے، دفاع کرے۔ اسی گفتگو کے دوران عامر اُن سے کہتا ہے کہ اُس کے پاس عقیدے سے متعلق معاملات کے لیے وقت نہیںہے، وہ ایک پیشہ ور وکیل ہے۔ وہ ایملی کو بتاتا ہے کہ زیادہ تر مسلمان مغرب کی سفید فام عورتوں کو غلط سمجھتے ہیں کیونکہ وہ عریانی کو عیب نہیںسمجھتیں۔ وہ تمام مغربی عورتوں کو جن کا لباس اُن کے تصورات کے مطابق نہیں ہوتا، بدچلن سمجھتے ہیں۔ اگلے منظر میں ایملی ایک اخبار ی رپورٹ پڑھ رہی ہے جس میں عامر پر ایک مسلمان مولوی کی حمایت کرنے کا الزام لگا ہے۔ عامر کے لیے پریشانی کا باعث ایک اور خبر بھی ہے۔ اخبارلکھتا ہے۔۔۔’’وہ عامر کے نام پر ضرور غور کریںگے اگر وہ اصل حقیقت تک پہنچنا چاہیںگے۔۔۔ اُنہیں پتہ چل جائے گا کہ وہ ایک مسلمان ہے۔‘‘تین ماہ بعد ان کے گھر کچھ مہمان آنے والے ہیں۔ عامر اپنی بیوی کو بتاتا ہے کہ اس کی فرم ( جو یہودی کمپنی تھی )کے ایک پارٹنر نے اُس پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا کہ وہ ایک بھارتی ہے حالانکہ اُس کے اصل نام کے ساتھ لفظ ’’عبداﷲ ‘‘ شامل تھا۔ عامرجانتا تھاکہ یہ سب کچھ اس کے عدالت میں اُس امام کی وکالت کرنے کے نتیجے میں منظر ِ عام پر آیا ہے۔ مہمانوں میں عامر کی ایک سیاہ فام ساتھی جورے (Jory) بھی شامل ہے۔ اُس کا شوہر آئزک فن کا نقاد ہے اور اُس کی ایملی سے دوستی ہے۔کھانے کے دوران فن پر بات کرتے ہوئے ایملی اپنی تصاویر میں اسلامی فن کے پہلوئوں پر بات کرتی ہے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر ہمیں عامر کی اسلام کے بارے میں ناواقفیت کا علم ہوتا ہے؛ تاہم وہ سب سکتے میں آجاتے ہیںجب عامر کہتا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی پر اُسے بہت خوشی ہوئی تھی۔ اس کے بعد عامر اور جورے کسی کام کے لیے باہر چلے جاتے ہیں جبکہ آئزک ایملی کو بتاتا ہے کہ جورے نے بھی اس فرم میں جس میں عامر کام کرتا ہے، پارٹنر شپ حاصل کرلی ہے اور یہ وہ پوزیشن ہے جو عامر حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کی گفتگو سے ہمیںیہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایملی اور آئزک کے درمیان بھی افیئر رہا ہے۔ جب جورے واپس آتی ہے تو وہ دیکھتی ہے کہ اُس کا شوہر ایملی کا بوسہ لے رہا ہے۔ اس کے بعد منظر خاصا ہنگامہ خیز ہو جاتا ہے۔ عامر جورے پر الزام لگاتا ہے کہ وہ درپردہ اُسے نقصان پہنچا رہی تھی۔ اس دوران وہ آئزک، جو اُس کا مہمان ہوتا ہے، کے منہ پر تھوک دیتا ہے۔ جب ان کے مہمان چلے جاتے ہیں تو عامر ایملی سے جھگڑتا ہے۔ جب جھگڑا بڑھتا ہے تو وہ کئی مرتبہ اُسے مارتا ہے۔ ٹھیک اُس وقت ایبی بھی وہاں آجاتا ہے، اُس وقت ایملی کا چہرہ لہو لہان ہوتا ہے۔ ڈرامے کے آخری منظر میں، چھ ماہ بعد، عامر ایک شکست خوردہ شخص کی طرح خاموشی سے اپنی کتابیں پیک کررہا ہوتا ہے۔ اُس وقت ایملی اور ایبی وہاں آتے ہیں۔ ایبی اپنے چچا کو بتاتا ہے کہ وہ ایک دوست کے ساتھ کافی پی رہا تھا۔ اُس دوست کی ریستوران کے ویٹر سے بحث شروع ہوگئی۔ اُس کے دوست نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ جو ہوا ہے وہ اس کا مستحق تھا(ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کی طرف اشارہ تھا)۔ اُس نے پولیس کو بلا لیا اور پوچھ گچھ کے لیے اُسے ایف بی آئی کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس کی وجہ سے اب ایبی کا امریکی شہریت کا کیس بھی تحقیق کی زد میںآگیا ہے۔ اس کے ایجنٹ نے اسے ہدایت کی ہے کہ وہ ایف بی آئی کے ساتھ تعاون کرے ۔ اس پر عامر نے غصے سے اپنے بھتیجے سے کہا۔۔۔ ’’جب تم گھرسے باہر قدم نکالتے ہوتو تمہیں علم ہونا چاہیے کہ اب یہ کوئی لبرل اور غیر جانبدار دنیا نہیں ہے، کم از کم تمہارے لیے نہیںہے۔‘‘ اس کے بعد ایبی گرما گرم دلائل دیتے ہوئے جواب دیتا ہے۔۔۔ ’’یہ قابل ِ نفرت ہے۔ میں اب تک آپ کے بارے میںکوئی بات یقین سے نہیںکہہ سکتا۔ تم نے اپنے لوگوںکے ساتھ قطع تعلق کر لیا ہے۔ تم سمجھتے ہوکہ ایسا کرنے سے یہ لوگ تمہیں اچھا سمجھنے لگیں گے۔ ایسا نہیںہے، یہ لوگ سوچتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے تم صرف یہ ثابت کرتے ہو کہ تم قابل ِ نفرت ہو۔‘‘ایبی نے اپنی بات جاری رکھی جبکہ اسی دوران ایملی بھی کمرے میں آگئی۔۔۔’’ان لوگوںنے دنیا کو فتح کر لیا ہے۔ ہم نے اسے واپس حاصل کرنا ہے اور یہ بات اتنی ہی اٹل ہے جتنی قسمت۔ گزشتہ تین سو سال سے یہ (مغربی اقوام) ہمارے علاقوں پر قبضہ کر رہے ہیں، نئے بارڈر تشکیل دے رہے ہیں، نئے نقشے بنا رہے ہیں، ہمارے قوانین منسوخ کرکے ہمارے اُوپر اپنے قوانین نافذ کر رہے ہیں اور یہ ہمیں بھی اپنے جیسابنانا چاہتے ہیں، یہ ہماری تذلیل کرتے ہیں اور پھر دکھاوا کرتے ہیںکہ اُنہیں اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ ہم اتنے مشتعل کیوں ہو جاتے ہیں؟‘‘اس دھماکہ خیز تقریر کے بعد ایبی چلاجاتا ہے اور عامر جانتا ہے کہ اب وہ واپس نہیں آئے گا۔ جب پردہ گرتا ہے تو عامر اُس تصویر کو دیکھ رہا ہوتا ہے جسے ایملی ڈرامہ شروع ہوتے وقت بنا رہی تھی۔ ڈرامے کی یہ انتہائی مختصر سمری اس کے واقعات کے تنائو اور ڈرامائی جذباتیت اور اتار چڑھائو کی عکاسی نہیں کرتی۔ اس کے ذریعے یقینا عمدہ اداکاری کی جھلک بھی نہیں دکھائی جا سکتی۔ اس میں حصہ لینے والے تمام اداکاروں اور اس کے ہدایت کاروںنے نہایت جاندار طریقے سے کام کیا ہے۔ ڈرامے کا سٹیج مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مائن فیلڈ بن جاتا ہے، ایک ایسا فیلڈ جہاں پھونک پھونک کے قدم رکھنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات قدم غلط جگہ رکھا جائے تو اٹھایا نہیں جا سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved