20 ستمبر کو ہونے والی اے پی سی میں میاں نواز شریف کی تقریر نے پورے ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس اے پی سی میں شریک دیگر جماعتیں بھی اس سارے نئے تبدیل شدہ منظر نامے کا حصہ ہیں لیکن فی الحال منظرنامے سے غائب ہیں۔
نواز شریف کے بعد اس وقت سب سے اہم مطلوب شخص مولانا فضل الرحمن ہیں جو احتسابی ادارے کے نوٹس کو عدم نوٹس کرنے کے بعد وادیٔ نیلم میں تنظیم سازی فرما رہے ہیں‘ اور یہ واقعی تنظیم سازی ہی ہے جو مولانا وادیٔ نیلم میں پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق فرما رہے ہیں۔ ان دنوں ان کی شمالی علاقہ جات کی سیر کی تصویریں وائرل ہوئی ہیں جن میں ان کے چہرے کے تاثرات ان کے خوشگوار موڈ کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کی اے پی سی کے بعد مولانا فضل الرحمن سے وابستہ خبریں وائرل ہوئی ہیں‘ چاہے وہ اے پی سی کے دوران انہیں براہ راست نہ دکھانے کا شکوہ ہو یا ان کے سخت گیر موقف کی ویڈیو۔ شمالی علاقہ جات کی تصویروں میں مولانا فضل الرحمن دریا کے کنارے پتھروں پر بیٹھے مسکراتے ہوئے نظر آ رہے۔
سماجی ویب سائٹس پر اس بارے میں لوگ اپنے تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ 'مولانا خود ہی شمالی علاقہ جات کی سیر کو چلے گئے ہیں‘۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 'شمالی علاقہ جات کی سیر‘ اس وقت سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر گیا تھا‘ جب ایس ای سی پی کے ایک افسر مبینہ گمشدگی کے بعد واپس آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گئے تھے۔ یہ ٹرینڈ بظاہر ان لوگوں کے لیے تھا جو لوگ اچانک لا پتہ ہو جاتے ہیں اور الزام کسی اور پر لگایا جاتا ہے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمن کے چاہنے والے ان کی اس خوشی کو احتسابی ادارے کے خلاف 'کامیابی‘ سے جوڑ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ نیب نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک رہنما موسیٰ خان بلوچ کو آمدن سے زائد اثاثوں پر گرفتار کر رکھا ہے‘ جسے مولانا کے حامی اور اپوزیشن ایک روایتی دباؤ کا حربہ قرار دے رہے ہیں‘ کیونکہ موسیٰ خاں کے صاحبزادے طارق خان مولانا فضل الرحمن کے پی اے ہیں۔ بہرحال ان خوشگوار مصروفیات کے باعث مولانا کو جہاں تازہ دم ہونے کا موقع مل رہا ہے وہیں انہیں سوچ بچار کے لئے کافی وقت مل گیا ہے کیونکہ حکومت اور مقتدر حلقے یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ بیک وقت اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے ساتھ محاذ آرائی ممکن نہیں‘ اس لئے مرحلہ وار نمٹے کی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ایک طرف اپوزیشن کے پُر امن جلسوں، ریلیوں کو ان کا جمہوری حق قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف کسی بھی قانونی و آئینی خلاف ورزی پر جیلیں بھرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں‘ یعنی حکومت 'سٹک اینڈ کیرٹ پالیسی‘ اپنائے گی۔
اپوزیشن بھی اپنی مجموعی طاقت یک دم سامنے نہیں لا رہی اور دھیرے دھیرے ماحول گرمانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ 20 ستمبر کے بعد سے پیپلز پارٹی کیمپ میں کافی خاموش کے بعد 4 اکتوبر بروز اتوار ایک ریلی کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ مریم نواز کی شرکت کے سبب مسلم لیگ ن کا گوجرانوالہ شو کافی کامیاب رہا ہے۔ اس طرح محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی 'سٹک اینڈ کیرٹ پالیسی‘ کے بر عکس اپوزیشن 'ہٹ اینڈ رن پالیسی‘ اپناتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کورونا کے دنوں میں غائب اپوزیشن ایک بار پھر میڈیا کی زینت بن چکی ہے اور پورے سوئنگ میں دکھائی دے رہی ہے‘ اور اس بار ایسا لگ رہا ہے کہ اگر حالات خراب نہ ہوئے تو سیاسی درجہ حرارت بڑھ سکتا ہے۔ حالات کی خرابی کی بات اس لئے کی ہے کہ خدانخواستہ کورونا کی دوسری لہر‘ جس کے حوالے سے کچھ بری خبریں کراچی سے آ رہی ہیں‘ شدت اختیار کر گئی تو پھر سے گھروں میں بیٹھنا پڑ سکتا ہے یا پھر امکانی طور پر اگر شمالی سرحدوں پر دباؤ کسی گرم محاذ میں بدل گیا تو بھی اپوزیشن کی حکومت کے خلاف تحریک کو کافی نقصان پہچ سکتا ہے؛ تاہم یہ سب امکانی معاملات ہیں‘ فی الحال معاملات یہ چل رہے ہیں کہ حکومت کا پورا فوکس مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف پر ہے کہ انہیں کس طرح وطن واپس لایا جائے‘ جس کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آ رہے۔
لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے نواز شریف کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کرانے کی5 ویں کوشش بھی ناکام ہو گئی ہے۔ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن نے 5 مرتبہ ایون فیلڈ میں وارنٹس پر دستخط کرانے کی کوشش کی؛ تاہم وارنٹ پر نواز شریف نے دستخط کیے‘ نہ ہی شریف خاندان کے کسی اور فرد نے۔ واقفان حال کے مطابق جمعرات کے روز بھی ہائی کمیشن کے دو عہدے دار ڈن ریون سٹریٹ پر10 منٹ تک انتظار کرتے رہے اور ایون فیلڈ کے استقبالیہ پر پہنچے بغیر واپس چلے گئے۔ فارن آفس کے توسط سے برطانوی حکومت سے وارنٹس کی تعمیل میں مدد کی درخواست کی گئی تھی؛ تاہم برطانوی حکومت نے نواز شریف کے وارنٹس کی تعمیل کرانے سے انکار کر دیا۔ برطانوی حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی جبکہ وارنٹس کی تعمیل ان کا کام ہے نہ ہی مینڈیٹ ہے۔
اس صورت حال کے بعد پاکستان ہائی کمیشن کے پاس نواز شریف کے وارنٹ کی تعمیل کے محدود آپشن ہیں جس کے مطابق پاکستانی ہائی کمیشن رائل میل یا اپنے عملے کے ذریعے وارنٹس کی تعمیل کرا سکتا ہے؛ تاہم دونوں صورتوں میں نواز شریف پر انحصار ہو گا کہ وہ رضاکارانہ طور پر دستخط کریں جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ میاں نواز شریف جس طرح سے کھل کر فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں وطن واپس آ کر گرفتاری دینے کی صورت میں یہ سیاسی کھیل نہ صرف ختم ہو جائے گا بلکہ نون لیگ کی 'ووٹ کو عزت دو‘ تحریک بھی دم توڑ جائے گی۔
دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان پوری طرح مطمئن ہیں کہ اپوزیشن کی یہ تحریک چائے کی پیالی میں طوفان سے زیادہ کچھ نہیں۔ واقفانِ حال کے مطابق انہوں نے چھ وزرا پر مشتمل کابینہ کی سیاسی کمیٹی کے سامنے سوال رکھا ہے کہ اداروں کے خلاف نواز شریف کے بیانیے کو کیسے کاؤنٹر کیا جائے؟ وزیر اعظم اس معاملے میں کسی قسم کی لچک روا رکھنے کو تیار نہیں ہیں۔
وزرا کی کمزور آرا کے سامنے وزیر اعظم نے نواز شریف کے بیانیے کو بین الاقوامی سازش قرار دیا ہے۔ وزرا اور حکومتی ترجمانوں کے ساتھ ساتھ پارٹی سپوکس پرسنز کو خاص طور پر ان لائنز پر رائے عامہ ہموار کرنے کی ہدایات دی گئی ہے کہ نواز شریف کے بیانات سے بھارت خوش ہوتا ہے، نواز شریف بھارت کا بیانیہ بول رہے ہیں، فوج کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں، پوری قوم متحد ہو کر بھارتی سازش ناکام بنائے گی، حکومت اپنے اداروں کا دفاع کرے گی۔ وزراء کو روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنسیں اور میڈیا بریفنگز کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ پیمرا پہلے ہی نواز شریف کے پارٹی اجلاسوں سے خطابات ٹی وی پر مسلسل نشر کرنے پر حرکت میں آ چکا ہے۔ بہرحال گیم آہستہ آہستہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو رہی ہیں‘ اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ اگر غیر معمولی حالات پیدا نہ ہو گئے تو پھر اپوزیشن کی دن بدن زور پکڑتی تحریک حکومت کے لئے ایک بڑا درد سر بن سکتی ہے۔