تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     04-10-2020

منظر دل آویزی کے

ایبٹ آباد سے نتھیا گلی اوردیگر گلیات سے ہوکر مری پہنچنا ہمیشہ سے ایک خوش کن تجربہ رہاہے ۔ آٹھ ہزار فٹ کی اچھی خاصی بلندی تک یہ چوڑی سڑک بہت سہج طریقے سے پہنچاتی ہے ۔ وہ سارے مسائل ،وہ سارا دور تو پیچھے رہ گیا جس میں پہاڑوں کا سفر ایک بڑی آزمائش تھا۔ وہ پہاڑی راستوں کے خطرناک موڑ، وہ تنگ گزرگاہیں، وہ سڑک کے کنارے پر چلتی گاڑیاں،جنہیں دیکھ کر لگتا تھا‘ یہ اب کھائی میں گریں کہ اب گریں۔ بڑے سیاحتی مقامات پر یہ سارے مناظرپیچھے رہ گئے۔ ایبٹ آباد کی طرف سے بتدریج بلند ہوتی سڑک پرپہلے ذرا کم بلندی کی خوش رنگ جھاڑیاں، پیڑ ساتھ چلتے ہیں‘ ذرا اور بلند ہوں تو دونوں طرف چیڑھ، اوک، سلک اوک، دیودار، شاہ بلوط اور پھلاہی کے درخت آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ دراز قامت درخت۔جتنی بلندی ،اتنی درازیٔ قامت ۔پہاڑوں کے ساتھ بلند ہوتے، اپنی مخصوص خوشبوئیں بکھیرتے، اپنے نیچے نم آلود زمین میں رنگ رنگا پھولوں کو سایہ دیتے یہ درخت دل اور آنکھیں ٹھنڈی کرتے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اسی سڑک پر ایک جگہ وہ خوشبودار ،میٹھا اور تازہ کردینے والا چشمہ بھی آتا ہے جواس علاقے میں صحت افزا تاثیر کیلئے مشہور ہے اورجہاں رک کر ،چلو میں بھر کر پانی نہ پئیں تو لگتا ہے کہ کوئی فرض ادا ہونے سے رہ گیا۔ اس چشمے سے تعارف ایبٹ آباد کے برادرم عامر سہیل نے کروایا تھا۔
ہم سورج بلند ہونے کے بعد نکلے تھے لیکن ابھی دائیں بائیں گھاٹیوں میں ہنگی، کائیں، زیتون، کنڈ، گل بنفشہ، گل سرنجان، گل ترنی اور ڈیزی کے جنگلی پھول شبنم میں بھیگے ہوئے تھے۔ ذرا نظر اٹھا کر دیکھیں تو دو بلند پہاڑوں کے درمیان گہری کھائیوں کو عبورکرنے کیلئے ڈولی لفٹ چلتی نظر آتی ہے۔ ہر ایسی جگہ جہاں پہاڑوں کے درمیان فاصلہ ہو اور ملانے والا پل نہ ہو تو مقامی لوگ ڈولی پر سفر کرتے ہیں‘ لوہے کے رسوں پر چلنے والی لفٹ پہ۔ سستا اوروقت بچانے والا طریقہ ہے اور اس علاقے کی ثقافت کا ایک خوبصورت مظہر ۔ کبھی کبھار کسی ڈولی لفٹ کے حادثے کی خبر اخبارات میں آجاتی ہے لیکن زندگی پھر رواں ہوجاتی ہے ۔ ویسے بھی حادثوں سے مفر کہاں ہے ؟ خواہ آپ محفوظ ترین راستے پر محوِ سفرہوں۔ راستوں کے دائیں بائیں کھلی جگہوں پر وہ سب رنگ اور وہ سب لوگ نظر آجاتے ہیں جو اس منظر کا حصہ ہیں۔ ہر کچھ دیر کے بعد راستے کے ایک طرف رنگ برنگی زنانہ چادروں کے پھول نہ کھلے ہوں تو گویا اس راستے پر سفر ہی نہیں کیا۔ ایک رسی پر لٹکی ہوئی مقامی ثقافت کی ترجمان یہ حسین چادریں ٹھنڈی ہوا میں لہرا لہراکر آپ کو خوش آمدید اور خدا حافظ کہتی ہیں۔
موسم ہو تو ہر کچھ دیر کے بعد انجیر کی ایک قسم کے خوانچے نظر آتے ہیں جسے ہندکو میں پھگواڑی کہتے ہیں اور یہ بہت ذائقے دار ہوتی ہے۔ اسی طرح گلیات کا مخصوص سیب جو قدرے چھوٹے سائز کا ہوتا ہے، جابجابکتا نظر آتا ہے۔ مکئی کے بھٹے کی ریڑھیوں اور اڈوں کی دو خصوصیات ہیں۔ ایک تو یہ کہ بھنی ہوئی مکئی کی رسیلی چھلیاں اس سفر کا لطف بڑھا دیتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کے قریب بہت سے بندر جمع ہوجاتے ہیں ۔انہیں پتہ ہے کہ رکنے والے مسافرانہیں بھی یہ بھٹے خرید کر پیش کریں گے۔ یہ ان کے بھی رزق کا وسیلہ ہے اور ریڑھیوں والوں کے بھی۔ان کی فروخت دگنی ہوجاتی ہے۔
نتھیا گلی میں ہمراہی بچوں کو وہ میوزیم دیکھنے کا شوق تھا جہاں گلیا ت کی نمائندہ چیزیں اور حنوط شدہ جنگلی جانور رکھے ہیں اور جہاں وہ چیتا بھی منہ کھولے کھڑا ہے جس نے عشروں پہلے گلیات میں قیامت مچا رکھی تھی ۔کئی انسانی جانیں لے چکا تھا اور آخر اسے گولی مار کر ختم کرنا پڑا۔ نتھیا گلی پہنچے تو اس میوزیم کی جگہ ملبہ پڑا تھا۔پتہ چلا کہ مسمار کردیا گیا ہے اور اب نیا میوزیم بنایا جائے گا۔ بچوں کی مایوسی دیدنی تھی لیکن زندگی ایسے غیر متوقع صبر کاامتحان بار بار لیا کرتی ہے۔ نتھیا گلی، باڑہ گلی، خیرا گلی، ڈونگہ گلی سے گزرتے، خنک فضا کا لطف لیتے چھانگلہ گلی پہنچے۔ یہ جگہ مجھے ہمیشہ ڈیزی کے پھولوں اور اس کے بنے ہوئے تاجوں کے حوالے سے یاد رہتی ہے
منظر دل آویزی کے/ ڈھیروں پھول ہیں ڈیزی کے
ڈیزی کا موسم گزر چکا تھا‘ورنہ اس کے تختوں کے تختے کھلے دیکھنا بھی ایک مسحور کن نظارہ ہے۔چھانگلہ گلی سے کچھ آگے سڑک کے پی کے سے نکل کر پنجاب کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم ادھر آگئے ہیں۔ اچھی بھلی سڑک گڑھوں میں تبدیل ہو جائیں، مناسب کشادگی والے پہاڑی قصبوں کے بازار تنگ ہوجائیں تو جان لیں کہ یہ صوبہ پنجاب کا علاقہ ہے۔ معلوم نہیں یہ فرق کس وجہ سے ہے لیکن ہے بہرحال ہمیشہ سے ‘اورشاید ہمیشہ ہی ایسا رہے گا۔
مری کا ہمسایہ کلڈنہ کا طویل قامت جنگل ایک زمانے سے میرا دوست اور ہم راز ہے ۔ ہم نے آپس میں زندگی کے بہت سے موسموں میں باتیں کی ہیں۔ شاہ بلوط، اوک، سلور اوک، سلکی اوک، دیودار، پلندر، بائٹر، پڑتل، چیڑھ ،کیل، چیل، پھلاہی، رہن، بھرنگی، پالودار، شیشم ،اخروٹ اور کاؤکے پیڑ ہمارے سامعین اور ناظرین ہوتے ہیں۔ جوتوں تلے چرمراتے پتے اور بلوط کے کھنگر اورکہیں کہیں بہتے چشمے کا پانی اس راستے کے نشان پا ہیں۔ برف گری ہو تو اس پر جابجا جنگلی جانوروں اور کہیں کہیں چیتے کے نقش پا نظر آجاتے ہیں۔ لوگوں کو معلوم نہیں کہ مری صرف گرمیوں میں ٹھنڈ کا نام نہیں ہے۔ مری صرف بلندی کا نام نہیں ہے ۔مری صرف برف باری کا نام بھی نہیں ہے ۔مری اس حسین قدرتی جنگل کا بھی نام ہے جس کا بدل عمارتوں کا جنگل کبھی نہیں ہوسکتا۔
اصل مری ختم ہورہا ہے اوراسے فطرت نے نہیں انسانوں نے ضابطے توڑ کر ختم کیا ہے ۔مری میں مسطّح جگہ کم ہے اور انگریز کے دور سے شہر میں خاص طور پر مال روڈ پر یہ ضابطہ بنا دیا گیا تھا کہ سڑک کے صرف ایک طرف تعمیر ہو سکتی ہے ۔ دوسری سمت کھلے منظر، سنہری دھوپ اور کھلِکھلاتی ہواکیلئے مخصوص تھی۔ اب ہوس ِ زر نے دونوں اطراف عمارتیں اور دکانیں بنا کر جی پی او چوک سے لنٹوٹ ریسٹورنٹ تک ایک گلی بنا دی ہے۔ اس گلی کو مری کی مال روڈ کا نام کیسے دیں جس میں کشادہ منظر ، دھوپ اوربے تکلف ہوا دکانداروں کو پیسے دے کر بھی داخل نہیں ہوسکتے ۔مجھے یاد ہے‘ یہ دکانیں بننے سے پہلے مال روڈ کی خوبصورتی کیا تھی۔جن اہلکاروں کا کام قاعدوں اور ضابطوں پر عمل کروانا تھا، وہ جیبیں سنبھالتے ،آنکھیں بند کیے اس گلی سے گزرتے رہے۔جو لوگ مری کا وہ روپ دیکھ چکے ان کا اب مری جانے کو جی ہی نہیں چاہتا۔اگرچہ مری کی کشش بہت سے لوگوں کیلئے کم نہیں ہوئی۔ وجہ یہی ہے کہ جھلستے میدانی شہروں سے قریب ترین ٹھنڈا پہاڑی مقام ہے۔ راستے اچھے ہیں اور کم وقت میں خنکیوں تک پہنچا جاسکتا ہے ۔
یہ سارے علاقے ،اس راہ میں پڑنے والی ساری بستیاں،تمام پہاڑی قصبے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ ضرورت تھی کہ یہاں کے مقامی باشندوں کے مسائل کا ادراک ہوتا اور ان کاحل۔ یہ بستیاں بنیادی طور پر اپنے روزگار کے لیے سیاحوں کا انتظار کرتی ہیں ۔ہم میدانی علاقوں کے باشندے چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے یہاں جاتے ہیں تو ہر چیز کی قیمت بہت زیادہ لگتی ہے۔ ہم اپنے اپنے شہروں سے ان قیمتوں کا موازنہ کرتے ہیں‘ لیکن مسائل کا موازنہ کرنا بھول جاتے ہیں۔ یہاں نہ عمارت بنانا آسان ہے، نہ مسطح زمین تلاش کرنا۔نہ پہاڑ کاٹنا۔چھ ماہ برف کے سناٹے میں وہ واحد سرگرمی بھی کم کم ہوتی ہے جسے سیاحت کہتے ہیں اور جس پر یہاں کا دارومدار ہے۔سارا سال کمائی کے متعدد ذریعے رکھنے والے میدان یہ بھول جاتے ہیں کہ پہاڑ چھ ماہ بے روزگار اور نیند کی حالت میں رہتے ہیں۔ جاگتے ہیں تو سال بھر کی بھوک بھی جاگتی ہے۔ آپ اپنے وسائل و مسائل کی عینک اتاریے ،حقیقی آنکھ سے ان کے وسائل اور مسائل پر نظر کیجیے ۔آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved