میری گرفتاری کی صورت میں نوجوان
پارٹی علم گرنے نہ دیں: مریم نواز
مستقل نا اہل ‘ سزا یافتہ، اشتہاری اور مفرور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''میری گرفتاری کی صورت میں نوجوان پارٹی علم گرنے نہ دیں‘‘ کیونکہ یہ صرف نوجوانوں کا کام ہے اور اصولی طور پر حسین نواز اور حسن نواز کو بھی یہ ذمہ داری سنبھالنی چاہیے لیکن وہ اب نوجوان کہاں رہے ہیں بلکہ کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں اس لیے یہ اُن کے بس کا روگ نہیں ہے، اگرچہ انہوں نے آنے اور اس جدوجہد میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن محض خام خیالی کی وجہ سے۔ انہیں روک دیا گیا ہے‘ اس لیے نوجوانوں سے درخواست ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور بیشک خود گر پڑیں لیکن پارٹی علم کو گرنے نہ دیں۔ آپ جاتی امرا میں پارٹی نوجوانوں سے ملاقات کر رہی تھیں۔
خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے کوششیں
جاری رکھیں گے: شاہ محمود قریشی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ ''خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے‘‘ اس لیے مردوں کو بااختیار بنانے کا پروگرام مؤخر کر دیا ہے کیونکہ لیڈیز فسٹ کا زمانہ ہے‘ مردوں کی باری بعد میں آئے گی،لیکن انہوں نے با اختیار بن کر کیا کرنا ہے کیونکہ ان کی حکومت کے با اختیارہوتے ہوئے انہیں با اختیار ہونے کی کیا ضرورت ہے بلکہ خواتین جب با اختیارہو جائیں گی تو مردویسے ہی بے اختیار ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز خواتین سے متعلق کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف نے جو کہا ہم 55 سال
سے کہہ رہے ہیں: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے جو کہا ہم 55 سال سے کہہ رہے ہیں‘‘ بلکہ ہم تو اینٹ سے اینٹ بجانے تک چلے گئے تھے لیکن اس کے فوراً بعد ہمارے قائد کو دبئی جانا پڑ گیا ، نیز مناسب تعداد میں اینٹیں بھی دستیاب نہ ہوئی تھیں اس لیے بھی متعلقہ ادارہ اور لوگ صاف بچ گئے؛تاہم اب ہم نے اینٹوں کا مکمل انتظام کر لیا ہے،جبکہ ہم نے نواز لیگ کے ساتھ یہ بات بھی طے کر لی ہے کہ ایک دوسرے کو چوک میں گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا مال نکالنے کا کام بعد میں کیا جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
فرسودہ نظام بدل کر عوامی امنگوں کے مطابق بنائیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''فرسودہ نظام بدل کر عوامی امنگوں کے مطابق بنائیں گے‘‘ اور خاکسار نے یہ بیڑا اٹھا لیا ہے اور اب اس کام میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا اور ہمارے نیک ارادوں کو دیکھتے ہوئے یہ فرسودہ نظام خود ہی بدلنا شروع ہو جائے گا اور ایک سہانی صبح کو یہ نظام بدل کر اور نیا نکور ہو کر سب کے سامنے ہو گا اور ساری دنیا جانتی ہے کہ میں جب اپنی آئی پر آ جائوں تو سارے مسائل خود ہی حل ہونے لگتے ہیں، اور جس طرح ہم پہلے تبدیلی لائے ہیں یہ تبدیلی بھی یوں سمجھئے کہ ہماری طرف چل پڑی ہے۔ آپ اگلے روز مختلف اجلاسوں سے خطاب کرر ہے تھے۔
کشمیر کو حق نہ ملا تو آنے والی نسلیں
معاف نہیں کریں گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کشمیر کو حق نہ ملا تو آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی‘‘ البتہ مجھے خطرہ صرف موجودہ نسل سے ہے جس کے ارادے بہت خطرناک نظر آ رہے ہیں وہ مجھے معاف نہیں کرے گی کیونکہ میں نے کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کا سارا عرصہ مختلف ملکوں کے سیر سپاٹے میں گزار دیا ۔ آپ اگلے روز جمعیت کے مظفر آباد ڈویژن کے زیر اہتمام ایک استقبالیہ سے خطاب کر رہے تھے۔
گنجی بار(ناول)
اس کے مصنف شاہد رضوان ہیں ‘جسے دانیال شاہد نے چیچہ وطنی سے شائع کیا ہے۔ انتساب ابا جی مرحوم اور بی بی جی مرحومہ کے نام ہے۔ مقدمہ اور پیش لفظ دونوں شاہد رضوان کے قلم سے ہیں جبکہ پسِ سرورق ہمارے دوست اور ممتاز شاعر پروفیسر غلام حسین ساجد کا قلمی ہے ‘جن کے مطابق ''زبان کے لحاظ سے گنجی بار میں لہندی (جانگلی) لفظیات کا تڑکا اس سلیقے سے لگایا گیا ہے کہ ہر دو زبانوں کی لسّانی قوتِ اظہار ایک دوسرے کی طاقت بن گئی ہے۔ یہ ذُو لسّانی اشتراک موضوع ، منظرنامے اور تہذیبی رنگوں کا نقیب بھی ہے اور اس کتھا کی حقانیت کا مظہر بھی اور ناول کی قرات میں عجیب لطف پیدا کرتا ہے‘‘۔ 272 صفحات پر مشتمل اس ناول کی یہ دوسری اشاعت ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ ٹائٹل خوبصورت‘ اندازِ بیاں دلچسپ اور دلکش ہے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں
میں تمہارے ساتھ/ بہت دور تک چل سکتا ہوں/ اور زمین کے ہر اس ٹکڑے پر/ اپنا دل بچھا سکتا ہوں/ جہاں سے گزرنے کا تم ارادہ کرو/ بند دروازے پر/ کھڑا رہ سکتا ہوں/ تمہاری آہٹ کے نمودارہو جانے تک/ بادلوں کو کھینچ کر/ تمہارے دالان تک لا سکتا ہوں/ اگر تم چاہو/ تمہارا پانی بھر سکتاہوں/ اور کاندھوں پر بٹھا کر پوری دنیا گھما سکتا ہوں۔۔۔۔۔
ننگے پائوں انگاروں پر چل سکتا ہوں/ ناچ کر دکھا سکتا ہوں/ خفت کے بغیر/ کہ مجھے ناچنا نہیں آتا۔۔۔۔/ ہنس سکتا ہوں/ خوشی کی عدم موجودگی میں بھی۔۔۔۔/ میں تمہارے دکھوں کو بدل سکتا ہوں/ اپنی بچی کھچی خوشیوں کے ساتھ/ تھام سکتا ہوں/ تمہارے آنسوئوں کو/ اپنے سینے کے تلاطم میں/تمہاری بے چینی کو/ اپنی بے خواب راتوں میں/ جگہ دے سکتا ہوں/ آرام کر سکتی ہے تمہای تھکن/ میرے وجود کی دُکھن کے اندر/ میں سن سکتا ہوں/ آہنی زنجیروں کی آوازیں/ اور شناخت کر سکتا ہوں/ تمہاری اذیت / بغیر کسی کوشش کے۔۔۔۔/ گزر سکتا ہوں/ بے اعتنائی کی کٹھن راتوں/ اور لاتعلقی کے دشوار دنوں سے/ مسکراتے ہوئے۔۔۔۔۔
ویسے۔۔۔۔۔ میں تمہاری دیواروں سے ٹکرا کر گر بھی سکتا ہوں/ اور تم سے منہ موڑ کر/ کسی ویران ٹیلے کی اوٹ میں آنسو بہاتے ہوئے/ معدوم بھی ہو سکتا ہوں/ تم سے کچھ کہے بغیر۔۔۔۔۔۔/ میں ۔۔۔۔۔ تمہاری خواب گاہ کی مہک میں/ سانس روکے/ کھڑا رہ سکتا ہوں/ تمہاری ریشمی نیند کے ٹوٹ جانے تک۔۔۔۔۔/ لبریز کر سکتا ہوں، تمہارے دل کو/ خوشی یا پھر تاسف سے/ دے سکتا ہوں/ تمہاری دُکھتی آنکھوں کو/ تعلق اور ٹھنڈک میں لپٹے خواب۔۔۔۔/ اگر تم چاہو/ میں تمہارے ہونٹوں میں/ رنگ بھر سکتا ہوں/ تمہاری مٹی پر/ پھول کھلا سکتا ہوں/ میں جذب کر سکتا ہوں/ تمہاری تمکنت کو/ اپنی خاکساری میں/ چل سکتا ہوں تمہارے ساتھ/ جب۔۔۔۔ دنیا میں/ کوئی بھی اس کے لیے تیار نہ ہو
اور ابدی خاموشی چھا جانے سے پہلے/ آسمان کے کناروں اور زمین کی حدوں تک/ تمہاری راہ دیکھ سکتا ہوں/ اور اگر تم ایسا نہ چاہو/ تو پھر / کیا کر سکتا ہوں میں/ تمہارے لیے۔۔۔!
آج کا مطلع
اب کے اُس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
پاؤں پر پاؤں جو رکھنا تو دبا بھی دینا