تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-10-2020

مثبت فکر کے تین بنیادی ستون

کسی کے سامنے مثبت سوچ کی بات کیجیے تو وہ جھٹ کہے گا ہر انسان کو مثبت سوچ اپنانی چاہیے۔ دنیا میں کوئی ایک بھی انسان ایسا نہیں جو مثبت سوچ کو بخوشی اپنانے کا دعویٰ کرتا ہو یا اُسے غلط قرار دیتا ہو۔ اس کے باوجود تلخ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر طرف منفی سوچ بکھری ہوئی ہے اور مثبت سوچ کا کیس لڑنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثبت سوچ یہ ہے کہ ہم زندگی کا روشن رخ دیکھیں اور تاریک پہلو دیکھنے سے ممکنہ حد تک گریز کریں۔ زندگی کا روشن رخ دیکھنے سے ہم میں تعمیری سوچ مزید پروان چڑھتی ہے اور ہم کچھ کرنے پر زیادہ یقین کے حامل ہوتے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس زندگی کے تاریک پہلوؤں پر نظر رکھنے سے ہمیں قدم قدم پر صرف الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایسی حالات میں منفی سوچ تیزی سے پنپتی ہے جو ہمیں عمل پسند ہونے سے روکتی ہے۔ 
مثبت سوچ کو پروان چڑھانا کسی بھی صورتحال میں مشکل ہی ثابت ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ماحول میں منفی سوچ کا تناسب زیادہ ہے۔ لوگ ذرا سی بات پر ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور امکانات کے بجائے خدشات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان ایسا کچھ بھی نہیں کرسکتا جو اس کے لیے کارآمد نتائج یقینی بنائے۔ جب ہم ماحول کے زیرِ اثر صرف منفی انداز سے سوچتے رہتے ہیں تب ذوق و شوقِ عمل کا گراف بھی گرتا چلا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں زندگی کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مثبت سوچ کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھانا ہمارے لیے لازم ہے کیونکہ ایسی حالت ہی میں ہم کچھ بن پاتے ہیں‘ کچھ کر پاتے ہیں۔ اس دنیا میں جس نے بھی کچھ کرنے کا سوچا ہے یعنی دنیا کو کچھ دینے کا ذہن بنایا ہے اُس کے لیے لازم ٹھہرا ہے کہ سوچ کو ہر حال میں مثبت رکھے۔ سوچ کو مثبت رکھے بغیر ڈھنگ سے سوچنا اور پھر اُس پر عمل کرنا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ 
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ سوچ کو مثبت کیسے رکھا جائے اور پھر اُسے پروان کیسے چڑھایا جائے؟ یہ مسئلہ صرف میرا یا آپ کا نہیں‘ کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کا ہے۔ زندگی قدم قدم پر ہمیں منفی سوچ کی طرف گھسیٹتی ہے۔ ہر طرح کے ماحول میں ہمیں منفی سوچ کی طرف دھکیلنے والا بہت کچھ ہوتا ہے۔ بامقصد انداز سے زندگی بسر کرنے کی خواہش رکھنے والے ہر انسان کو زندگی بھر ماحول سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے۔ چند ایک ترقی یافتہ معاشروں کے سوا کم و بیش تمام ہی معاشروں میں منفی سوچ عام ہے۔ لوگ سوچنے کے بجائے محض پریشان رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ یوں اُن کا وقت ہی ضائع نہیں ہوتا بلکہ کام کرنے کی صلاحیت بھی کسی جواز کے بغیر ضائع ہوتی رہتی ہے۔ ایسی حالت میں انسان وہ سب کچھ نہیں کرسکتا جو زندگی کو بلند کرنے اور دوسروں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے لازم ہوتا ہے۔ 
سوچ کو مثبت رکھنے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں۔ نفسی امور کے ماہرین جو مشورے دیتے ہیں اور جن تجاویز سے نوازتے ہیں اُن کی روشنی میں بسر کی جانے والی زندگی ہمیں بہت سے معاملات میں الجھن سے بچاتی ہے ‘مگر مسئلہ یہ ہے کہ الجھنوں سے محفوظ رہنے والی زندگی بسر کرنا ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ جب پورا ماحول ہی شدید نوعیت کی منفی سوچ سے بھرا ہوا ہو تب کسی بھی انسان کے لیے خود کو مثبت طرزِ فکر سے ہم کنار رکھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ تین معاملات ایسے ہیں جو سوچ کو مثبت رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان تینوں معاملات کا خاطر خواہ حد تک خیال رکھا جائے تو سوچ کو مثبت رکھنا بہت حد تک ممکن ہو جاتا ہے اور یوں ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ان تینوں معاملات کا خیال رکھنے سے انسان زندگی کو متوازن رکھنے میں بھی کامیاب رہتا ہے۔ آئیے‘ سوچ کو مثبت رکھنے والے تینوں معاملات کا فرداً فرداً جائزہ لیں۔ 
ناقابلِ تسخیر رویہ
ماحول میں ایسے بہت سے عوامل ہیں جو ہمیں منفی سوچ کی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ قدم قدم پر حوصلہ شکنی کرنے والے معاملات پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ماحول میں بہت سے لوگ دن رات منفی باتیں کرکے دوسروں کو بھی منفی سوچ کی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ اُن کی باتوں پر توجہ دینے کی صورت میں آپ بھی اُنہی کی طرح سوچنے لگتے ہیں۔ بُرے کی صحبت انسان کو بُرا بنادیتی ہے۔ یہی حال منفی سوچ رکھنے والوں کا بھی ہے۔ جب ہم اپنے ذہن کو ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں تب وہ کسی بھی طرف چل پڑتا ہے۔ ڈھیلا ڈھالا ذہن بالعموم منفی سوچ ہی کی طرف لپکتا ہے کیونکہ یہ سوچ نہ صرف یہ کہ آسانی سے پروان چڑھتی ہے بلکہ اِس پر عمل کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔ جب ہم طے کرلیتے ہیں کہ ماحول سے کوئی بھی منفی بات کسی جواز کے بغیر قبول نہیں کریں گے تب زندگی کا معیار بلند ہونے لگتا ہے۔ حالات چاہے کچھ ہوں‘ ہمیں اپنی جگہ ڈٹے رہنا ہے۔ حالات اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ ہمارے قدم ڈگمگا جائیں‘ ہم اپنی راہ سے ہٹ جائیں اور منفی سوچ کو اپنالیں۔ آپ کی طرزِ فکر و عمل ایسی ہونی چاہیے جیسے آپ دنیا سے کہہ رہے ہوں کہ کرلے جو کرنا ہے‘ میں وہی رہوں گا جو میں ہوں۔ جب آپ حالات کی ناموافقت کی پروا کیے بغیر ڈٹے رہیں گے تب سوچ مثبت رہے گی۔ 
دوسروں کی معاونت 
کچھ نہ کچھ اچھا کرنے کی کوشش کیجیے‘ احسان کرنے کی عادت اپنائیے۔ یہ عادت آپ کے پورے وجود کو تبدیل کردے گی۔ جو لوگ کسی کی مدد کرکے خوش ہوتے ہیں اُن کی زندگی میں بہت کچھ اچھا ہوتا چلا جاتا ہے۔ کسی کی مدد کرنے سے جو مسرّت محسوس ہوتی ہے وہ کسی اور عمل سے محسوس نہیں کی جاسکتی۔ جب ہم دوسروں کی مدد کرتے تب ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے لیے کسی نہ کسی حوالے سے کارآمد ہیں۔ معاونت وہ عمل ہے جو دنیا کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کسی بھی ماحول میں واضح اکثریت کسی صلے یا معاوضے کی تمنا کیے بغیر کسی کی بھی مدد کے لیے تیار رہے تو اُس ماحول کو بہتر‘ بلکہ مثالی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں دوسروں کی معاونت کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کا وصف بہ درجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ 
مثبت سوچ رکھنے والوں کی صحبت 
اگر آپ نے یہ طے کرلیا ہے کہ ڈھنگ سے جینا ہے اور سوچ کو مثبت رکھنا ہے تو لازم ہے کہ آپ مثبت سوچنے والوں کی صحبت اختیار کریں۔ مثبت سوچنے والوں کے درمیان رہ کر ہم زیادہ سے زیادہ مثبت سوچتے ہیں اور یوں محض پریشان رہنے کے بجائے معاملات کو درست کرنے کی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ منفی سوچ رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرنے سے ہم امکانات کے بارے میں سوچنے کے بجائے محض تشویش میں مبتلا رہتے ہیں‘ خدشات کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں اور معاملات کو درست کرنے کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے محض پریشان ہوکر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ مثبت سوچ رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرنے سے انسان مثبت اور تعمیری فکر و عمل کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ ایسے میں امکانات کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ منفی سوچ رکھنے والوں میں اٹھنا بیٹھنا انسان کو تشویش‘ پریشانی اور خدشات کی طرف لے جاتا ہے۔ مثبت سوچ رکھنے والوں کی دوستی انسان کو زندگی کا روشن پہلو دکھاتی ہے۔ زندگی اگر کچھ ہے تو مثبت سوچ کی بدولت ہے۔ منفی سوچ رکھنے والوں کے شب و روز کا جائزہ لے کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ وہ دن رات اسی ادھیڑ بُن میں رہتے ہیں کہ زندگی کو ایک ناگزیر حقیقت کی حیثیت سے قبول کریں یا نہ کریں۔ مثبت سوچ ہی ہمیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ دنیا کو ''جیسی ہے‘ جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر قبول کریں اور جہاں جہاں ضرورت ہو وہاں اپنے آپ کو تبدیل کریں۔ منفی سوچ کے ساتھ ڈھنگ سے تو کیا‘ عمومی انداز سے جینا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ذہن کو بند کردینے والی سوچ ترک کرکے مثبت سوچ اپنائیں تاکہ امکانات کے بارے میں سوچنے کی تحریک ملتی رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved