اوائل زندگی کے ماہ و سال ہر انسان پر گہرے‘ ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی ان یادوں کا امین رہتا ہے۔ باقی زندگی چاہے کہیں دور کسی اور دیار میں گزرے‘ بچپن میں ملنے والے لوگ‘ دوست‘ قریبی عزیز سب ایک سائے کی صورت ہمارے ساتھ چلتے رہتے ہیں اور اس ابتدائی دور کے واقعات تو کبھی بھولتے ہی نہیں ہیں۔ فرصت کے لمحوں میں‘ اور جب زندگی کے بیشتر بوجھ وقت کے ساتھ تحلیل ہو کر غائب ہو جائیں تو ماضی کے وہ ادوار طوفان کی مانند ذہن کے دروازے توڑ کر در آتے ہیں اور بہت سے چہرے اڑتی ہوئی تصویروں کی طرح آنکھوں میں بار بار سجاتے ہیں۔ جینے کا گُر یہ ہے کہ سب اچھا ساتھ رہے‘ اور سب برا‘ ایسا دور کہ نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ خاکسار اپنے علاقوں‘ دوستوں اور دیہاتوں سے اٹھ کر دنیا بھی گھومتا پھرا اور زندگی کا نصف صدی سے کہیں زیادہ لاہور اور اسلام آباد میں بسر ہوا‘ لیکن یہ خوش قسمتی ہے کہ نہ کبھی رابطہ توڑا اور نہ اپنی آبائی دوستیاں اور بستیاں ترک کیں۔ کہتے ہیں کہ خود کو پَر ضرور لگائیں کہ آپ اڑنے کے قابل ہو جائیں‘ لیکن جہاں بھی جائیں‘ اپنی جڑوں کو کبھی نہ چھوڑیں۔ ہماری جڑیں تو دریائے سندھ کے کناروں میں پیوست ہیں۔ ہم کیسے ابدی پانیوں کے سحر انگیز نظاروں کو فراموش کر سکتے ہیں۔ اس کی زیارت کی استعداد اور استطاعت رہے تو اس سے بڑی ہمارے لئے کوئی اور خواہش نہیں۔ اس کے کنارے پر آباد ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور یہاں بچپن میں دیسی کشتیاں‘ پہلوان اور بلاڑو کے میلے دیکھے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ بہت کچھ تبدیل ہو چکا‘ سماج‘ لوگ‘ اطوار‘ اقدار‘ رہن سہن‘ میل ملاپ۔ نہ پہلے جیسی محبتیں ہیں‘ نہ پہلے جیسا رکھ رکھائو۔ اب تو کھوٹ ہے‘ لوٹ کھسوٹ اور مکر و فریب‘ جو نہ کبھی دیکھے اور نہ سنے تھے۔ اب تو عمومی رویے ہیں‘ خصوصاً ہمارے نام نہاد پڑھے لکھوں کے۔ لگتا ہے‘ حرص و ہوس نے دل سخت کر دئیے ہیں۔
مجھے غیبی پہلوان بہت یاد ہے۔ اس سے قریبی تعلق آخری سانسوں تک رہا۔ کسرتی جسم اور مضبوط قد و قامت کا حامل انسان‘ جیسے کسی نے لوہے کو پگھلا کر خوبصورت بت تراش دیا ہو۔ گرمیوں کے طویل دنوں کی شاموں کو کشتی کے مقابلے ہوتے تھے۔ زمین کھود کر مٹی نرم کی جاتی‘ پانی کی پھوار ڈالی جاتی‘ ڈھول بجتا رہتا‘ سینکڑوں لوگ ارد گرد کی آبادیوں سے اکٹھے ہو جاتے۔ پہلوان اکھاڑے میں اترنے سے پہلے سیدوں کے پائوں چھوتے اور اگر استاد بھی موجود ہوتا تو اس کے پیروں کو بھی ہاتھ لگاتے۔ غیبی کے مقابلے دیکھنے کے لائق ہوتے تھے کہ اگر مقابل گرا بھی دیتا تو مہارت سے گرفت ڈھیلی کر کے کھڑا ہو جاتا۔ دھوبی پٹڑا لگانے کا ماہر تھا۔ جیت پر وہ تماشائیوں کے گھیرے کا چکر لگاتا تو صاحبِ توفیق کچھ سکے اور نوٹ ہاتھوں میں تھما دیتے۔ عرصہ گزر گیا‘ ایک روز راجن پور شہر سے گزرا تو غیبی پہلوان کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ تب وہ بوڑھا ہو چکا تھا۔ ہمارے امیر تو امیر تر ہوتے گئے‘ لیکن کیسے غریب بس دنیا کو کچھ دے کر بھی بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے۔ معلوم ہوا‘ ایک عرصے سے وہ شہر میں آتا‘ سارا دن بھیک مانگتا اور پھر واپس چلا جاتا ہے‘ نہ بیوی نہ بچے‘ بس فقیروں کی طرح کسی کے ڈیرے‘ کسی عزیز کے گھر کے قریب چارپائی ڈال لیتا۔ اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ وہ اس کا آخری لمحہ تھا۔ کسی مخیّر کے ذمے لگا دیا‘ باقی زندگی کسی کا پھر محتاج نہ رہا۔
بیلہ خان بلاڑو کا کھلاڑی تھا۔ یہ سرائیکی وسیب کے جنوبی علاقوں میں کبڈی کی طرز کا کھیل ہے۔ فرق یہ ہے کہ ایک کو پکڑنے کیلئے دو کھلاڑی سامنے آتے ہیں۔ بیلہ خان کے بھی بچپن میں پتہ نہیں کتنے میلے دیکھے ہوں گے۔ یہ میلے بزرگوں کے درباروں پر جمعہ کے روز منعقد ہوتے تھے۔ کھلاڑی یا پہلوان سارے وسیب میں عزت‘ مقام اور شہرت رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی کو کرکٹ یا کسی دوسرے کھیل کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ مقامی ثقافتوں کا رنگ ان اپنی طرز کے روایتی کھیلوں‘ میلوں اور تہواروں سے تب نکھرتا تھا۔ بیلہ خان غیبی کی طرح جوانی میں شادی نہ کر سکا۔ شہرت‘ جوانی اور وجیہ الشکل ہونے کے باوجود اپنا گھر نہ بنا سکے‘ نہ آباد کر سکے۔ ہمارے ہاں اب بھی شادیاں وٹہ سٹہ کی بنیاد پہ ہوتی ہیں۔ یہ سراسر ظلم ہے‘ لڑکیوں کو بس قربانی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ بیلہ خان کے پاس کوئی متبادل دینے کیلئے نہ تھا‘ تو بس کنوارے ہی رہ گئے۔
بیلہ خان سے میری دوستی بہت پُرانی ہے۔ ہماری بستیوں کے درمیان صرف چند فرلانگ کا فاصلہ تھا لیکن درمیان میں گھنا جنگل ہوا کرتا تھا۔ یہ علاقہ زیادہ تر اونٹوں کی چراگاہ تھا۔ بیلہ اب اسّی سال سے کہیں زیادہ کا ہے۔ ہر دفعہ سندھ کے کناروں کی سیر کو جائوں تو اس کی جھونپڑی میں اسے سلام کر کے ہی واپس آتا ہوں۔ کسی وجہ سے میں نہ جا سکوں تو وہ خود میرے پاس آ جاتا ہے۔ غیبی کا راستہ اس نے کبھی اختیار نہ کیا۔ وہ بھوکا رہ سکتا ہے‘ لیکن ہاتھ کبھی نہیں پھیلائے گا۔ اس عمر میں بھی اور غربت کے باوجود بیلہ کے ذہن میں شادی اور بیوی کی خواہش کسی جوان اور امیر سے کم نہیں ہے۔ تین مرتبہ اس کے ساتھ کچھ مہربان ہاتھ کر چکے ہیں۔ ہر دفعہ میرے پاس آیا‘ پوری داستان سنائی اور حکم دیا کہ میں اس کی داد رسی کروں۔ ایک دفعہ احباب نے شادی کے بہانے بلایا‘ رات کو نشہ آور گولیاں کھلائیں اور جیب صاف کر کے رفوچکر ہو گئے۔ جو کچھ تھا‘ ''بیوی‘‘ کے رشتے داروں کو خرچہ پانی دینے کے لئے لے گیا تھا۔ سب لوٹ لیا گیا۔ دوسری مرتبہ ''بیوی‘‘ لے آنے میں کامیاب ہو گیا‘ لیکن وہ خاتون چند روز اس کے پاس ٹھہری اور پھر غائب ہو گئی۔ اس سے ملوں یا کبھی فون پر اس کے ساتھ بات ہو تو اصرار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسے ''انصاف‘‘ نہیں مل رہا‘ عمران خان کی حکومت میں اتنا اندھیرا کیوں ہے؟ جنہوں نے اس کی ''دولت لوٹی‘‘ ہے‘ وہ دندناتے پھر رہے ہیں‘ ابھی تک آزاد کیوں ہیں‘ قانون کہاں ہے‘ عدالتیں اور پولیس حرکت میں کیوں نہیں آتے؟ کیا معصوم خواہش ہے۔
ہمارے معاشرے نے نہ جانے کتنے غیبی اور بیلے‘ جو کسی زمانے میں شہرت‘ مقام اور عزت رکھتے تھے‘ بھوکوں مار دئیے۔ ایک نسل کو انہوں نے اپنی پہلوانی کے جوہر دکھائے‘ تفریح فراہم کی‘ کشتیوں اور بلاڑو کے روایتی فن کو زندہ رکھا۔ یہ ان کا شوق‘ لگن اور کھیلوں سے محبت کے سوا کچھ نہ تھا۔ انہوں نے شاگرد بھی بنائے۔ فن امانت کے طور پر سنبھالے رکھا اور یہ امانت اگلی نسل کو منتقل کر کے اپنی دنیا میں واپس چلے گئے۔ جھونپڑیوں میں رہتے رہے۔ بیلہ کچھ کاشت کاری کرتا تھا اور چند ایکڑ زمین بھی حصے میں آئی‘ مگر غیر آباد۔ جو تھی‘ وہ مشکل وقت میں کام آ گئی۔ غیبی کا سارا اثاثہ ایک پُرانی بندوق اور ایک تیتر تھا۔ بندوق نہ جانے وہ کب کی بیچ چکا تھا۔ جب میں پرندے کی تعریف میں کچھ کہتا تو ضد میں پڑ جاتا کہ میں اپنے ساتھ لے جائوں‘ اسلام آباد میں زیادہ خوش رہے گا۔
نہ جانے کیسے کیسے لوگ ہم نے کھو دیئے۔ ریاست‘ معاشرے اور حکمرانوں نے دل‘ ذہن اور سوچ کے زاویے تنگ ہی رکھے ہیں۔ عزت اور احترام کے معیار ہی وہ نہیں رہے۔ دولت‘ اقتدار اور طاقت میں سے کچھ نہیں‘ تو بس آپ غیبی اور بیلہ ہیں‘ بے یارومددگار اور بے سہارا۔ فنکاروں‘ پہلوانوں اور کھلاڑیوں کی جس معاشرے میں قدر اور پہچان نہ ہو‘ تو فنون کیسے زندہ رہ سکتے ہیں‘ ان کے ساتھ ہی دم گھٹ کر مرجھا جاتے ہیں۔ ان کی یادیں اور ان سے محبت امانت ہے۔ جب تک سانس کی ڈوری چل رہی ہے‘ ان کا خیال رہے گا۔