اگلے روز کالم میں چھپنے والی میری غزل کے حوالے سے برادرم اقتدار جاوید نے فون پر بتایا کہ اس کے ایک شعرمیں آپ نے لفظ کسر کو بالفتح باندھا ہے۔ جوکہ فی الاصل بالکسر ہے۔ میں نے کہا کہ پنجابی میں ہم اسے بالفتح ہی بولتے ہیں، بیشک وہ کالم پنجابی میں نہیں بلکہ اردو میں تھا لیکن اُردو اور پنجابی میں کوئی زیادہ فاصلے بھی نہیں ہیں اور پنجابی کے سینکڑوں الفاظ اردو میں مستعمل بلکہ اردو کا حصہ بن چکے ہیں حتیٰ کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اردو پنجابی ہی کی ایک Refinedشکل ہے جبکہ اس میں اور بھی کئی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں، اسی لئے اسے لشکری زبان کہا جاتا ہے، نیز یہ کہ اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ شامل ہونے کا سلسلہ جاری ہے جو اردو ہی کو ثروت مند بنانے کا ایک وسیلہ ہے۔
تاہم‘ زبان کے حوالے سے میرے نظریے اور خیالات کو سمجھنے کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے بارے میرا رویہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ زبان ایک جامد نہیں بلکہ متحرک چیز ہے، اس میں تبدیلیاں اور اضافے شروع ہی سے ہوتے چلے آئے ہیں، بیشک بعض الفاظ کو متروک قرار دینے کی روایت بھی ہمارے ہاں موجود ہے جوکہ اصولی طور پر غلط ہے کیونکہ کوئی لفظ متروک نہیں ہو سکتا۔ کسی نام نہاد متروک لفظ کو استعمال کیا جائے تواس عمل ہی سے وہ غیر متروک ہو جاتا ہے۔ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اردو اور پنجابی اگر دو مختلف زبانیں ہیں تو ان کی یہ حیثیت بھی قائم اور موجود رہنی چاہیے، اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اردو کی ہیئتِ کذائی ہی کا تقاضا ہے کہ اس کی متحرک حیثیت کو بھی تسلیم کیا جائے بلکہ اس میں اتنا دم خم موجود ہے کہ وہ اپنی یہ حیثیت خود ہی منواتی رہے گی اور اس میں پنجابی کے الفاظ، محاورے، لہجے اور تلفظ اپنی جگہ بناتے رہیں گے۔
''گلآفتاب‘‘ کے فلیپ میں مَیں نے لکھا تھا کہ یہ اردو، انگریزی اور بنگالی وغیرہ کا درمیانی فاصلہ کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ پھر، میرا نقطۂ نظر یہ بھی تھا کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کو ایک دوسری کے قریب آنا چاہیے تاکہ ان صوبوں کے لوگوں کے درمیان قربت اور ہم آہنگی پیدا ہو جس کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ایسی زبان جسے پاکستانی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ''اب تک‘‘ میں شامل ایک پورے مجموعے میں مَیں نے اردوکے ساتھ ساتھ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو زبان کے الفاظ بے دریغ استعمال کئے ہیں۔ یہ کوئی انفرادی سطح پر کرنے والا کام نہیں ہے بلکہ ایک اشارہ تھا کہ اس کام کا آغاز اس طرح بھی کیا جا سکتاہے۔ حتیٰ کہ اسی جلد میں ''ترکیب‘‘ کے نام سے پورا ایک مجموعہ ہے جس کی غزلوں کے تمام قوافی گجراتی زبان میں ہیں جو آج بھی کراچی کے بعض حلقوں میں بولی جاتی ہے اور اس زبان میں وہاں سے متعدد اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ قائداعظم کی بھی مادری زبان تھی!
میرے قارئین کم یا زیادہ جتنے بھی ہوں‘ بخوبی جانتے ہیں کہ میں نے اپنی شاعری میں پنجابی زبان کے مذکورہ خصائص کثرت سے استعمال کئے ہیں۔ مثلاً کراچی کے ایک جریدے میں چھپنے والی ایک غزل میں مَیں نے لفظ ''ہتک‘‘ کو تشدید کے ساتھ باندھا جو کہ خالص پنجابی تلفظ تھا چنانچہ ایڈیٹر قمرجمیل نے غزل میں سے وہ شعر حذف کردیا جبکہ میرے احتجاج پر ا گلے شمارے میں وہ شعر شائع کرنا پڑا اور جس کا نوٹس جناب شمس الرحمن فاروقی نے بھی لیا اور لکھا کہ اردو میں یہ لفظ بالفتح ہے لیکن پنجابی میں اسے تشدید ہی کے ساتھ باندھا جاتا ہے۔ ''گلآفتاب‘‘ ہی میں مَیں نے عطر اور صبر جیسے الفاظ کو ایک جگہ بالفتح باندھا ہے‘ حتیٰ کہ جنگل، منگل اور صندل وغیرہ کو ایک غزل میں سہ حرفی بنا دیا ہے۔ اصولی طور پر یہ غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن بعض الفاظ کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا اور دوسروں کو دکھانا بھی میرا ایک طریقہ ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی کہ لفظ کو غیر معمولی سیاق و سباق میں رکھنے سے کوئی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے یا نہیں، مثلاً جس غزل کا حوالہ اقتدار جاوید صاحب نے دیا تھا‘ اس کے دو شعر اس طرح سے ہیں ؎
ابھی دریا کے ہونے میں ذرا تاخیر تھی کچھ
کہ پانی ہونے والا تھا، کنارے ہو چکے تھے
سفر باقی تھا سارا اور سمندر سو گیا تھا
سفینہ ڈوبنے کو تھا، ستارے ہو چکے تھے
ان دونوں اشعار میں قافیہ اور ردیف کی جڑت معمول کے مطابق نہیں ہے۔ گرائمر کے لحاظ سے اسے غلط بھی کہا جا سکتا ہے لیکن سوال یہاں غلط اور صحیح کا نہیں ہے بلکہ لفظ کے مختلف معنوی امکانات کا کھوج لگانے کا ہے اور یہی چیز معمولی ا ور غیر معمولی کا فرق بھی ظاہر کرتی ہے، اس لئے بھی کہ لفظ معنوی لحاظ سے محدود نہیں بلکہ غیر محدود ہوتا ہے۔ لفظ شاعر کا ہتھیار ہے اور یہ اس کے استحقاق میں شامل ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کرتا ہے۔
میں یہاں کسی غلط کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا، نہ ہی میں نے اپنے کسی بیان کے درست ہونے پر کبھی اصرار کیا ہے یا کبھی ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے۔ میرا کام سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ایک اشارہ کر کے ایک طرف ہو جاتا ہوں اور آرام سے بیٹھ کر یہ دیکھتا ہوں کہ اس سے دنیا میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں، بیشک اس کا نتیجہ نفی میں ہی دستیاب ہوتا ہو۔ پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں اور شاید یہ قول کسی اور ہی کاہے کہ کچھ نہ سوچنے سے غلط سوچنا بہتر ہوتا ہے۔ زبان کو معمول کے مطابق استعمال کرنے سے کبھی کوئی غیر معمولی فرق نہیں پڑتا۔ زبان کے ساتھ تو سونا جاگنا پڑتا ہے۔ یہ وہ لہو ہے جسے ہم آپ اپنی رگوں میں رواں رکھتے ہیں اور یہ کوئی ہلکی پھلکی چیز بھی نہیں ہے، یہ تو وہ پہاڑ ہے جس سے ٹکرا کر آپ اپنا سر ہی پھوڑ سکتے ہیں اور یہ سر پھوڑنا ہی تخلیقی عمل بھی ہے اور اُس کا مزہ بھی۔
زبان میں کسی بھی تبدیلی کے قبولِ عام حاصل کرنے میں مہینے نہیں بلکہ سال اور صدیاں لگ جاتی ہے اور یہ قبولِ عام کبھی حاصل نہیں بھی ہوتا۔ تحریف کرنے والا یہ کام کسی کی اجازت حاصل کیے بغیر کرتا ہے اور زبان کا جو سارا عمل اور اس کی جو تاریخ ہے‘ وہ انہی تحریفات کی مرہونِ منت ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب کوئی تحریف ہی تاریخ بن جاتی ہے۔ زبان میرا مسئلہ ہے بھی اور نہیں بھی، کہ میں اپنے مسائل پیدا بھی کیا کرتا ہوں اور اُنہیں حل بھی اور اس سے آپ بھاگ بھی نہیں سکتے کیونکہ یہی آپ کا اوڑھنا بچھونا بھی ہے۔ ہم زبان کے گھوڑے پرسوار ہیں ا ورگرنے کا امکان بھی ہر وقت موجود ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہم دونوں رویے اپناتے ہیں، مدافعیانہ بھی اورجارحانہ بھی کہ یہ ہر دو سلوک کی مستحق بھی ہے یعنی ؎
زباں کو سر پہ اٹھائے بھی ہم پھرے ہیں‘ ظفرؔ
سخن کیا ہے زباں پر سوار ہو کر بھی
میں اس کے ساتھ آزادیاں اس لئے بھی لیتا ہوں کہ یہ دوسروں کے ساتھ ساتھ میری بھی ہے اور میں اپنی زبان بولتا ہوں‘ میں آپ کو نہیں ٹوکتا‘ اس لئے آپ مجھے کیسے ٹوک سکتے ہیں۔ زبان کے حوالے سے میری اپنی آزادیاں بھی ہیں اور پابندیاں بھی؛ تاہم غلط زبان بولی جا سکتی ہے نہ لکھی جا سکتی ہے، نہ ہی میں غلط زبان کی وکالت کر رہا ہوں اور جس بات کو میں صحیح سمجھتا ہوں وہ صحیح ہو بھی سکتی ہے ع
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم
آج کا مطلع
کسی حالت میں ہوں میں یا کسی حالت کے بغیر
تم کہو کیسی گزرتی ہے محبت کے بغیر